مسلم لیگ (ن) حکومت اپنے ہی کارکنوں کی تنقید کی زد میں،وجہ کیابنی؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
پاکستان میں ان دنوں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت اپنے ہی سوشل میڈیا ورکرز اور حمایتیوں کی تنقید کی زد میں ہے اور یہ تنقید پچھلے کچھ دنوں سے آہستہ آہستہ سر اٹھاتی دکھائی دے رہی ہے، تاہم اس میں اضافہ حال میں تیل کی قیمتوں کے اضافے کے بعد شروع ہوا۔
اردونیوز کے مطابق وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ جو کبھی حکومت کی مدح سرائی میں مشغول دکھائی دیتے تھے اور ان کے فالوورز کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ اب انہی سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
یہ بالکل ویسی ہی صورت حال ہے جس کا سامنا ماضی میں تحریک انصاف کو کرنا پڑا۔ یعنی جب 2018 میں عمران خان اقتدار میں آئے تو اس کے تقریباً دو سال بعد 2020 میں صورت حال ایسی تھی کہ ان کے اپنے سوشل میڈیا پر حامی اپنی حکومت کے اقدامات خاص طور پر مہنگائی اور ایندھن کی قیمتوں پر نہ صرف تنقید کرتے دکھائی دیتے تھے بلکہ انہوں نے حکومتی اقدامات کی ہر طرح کی حمایت بھی بند کر دی تھی۔
کچھ اس قسم کی صورت حال کا سامنا اب مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
مسلم لیگ کے ایک متحرک سوشل میڈیا کارکن جو آر اے شہزاد کے نام سے ایکس پر اپنا اکاؤنٹ چلاتے ہیں حال ہی میں ان کے اکاؤنٹ سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کی ایک تازہ پوسٹ کے مطابق موجودہ حکومت کو آئے کل ملا کر ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عام آدمی کو ان کے آنے سے کوئی ریلیف نہیں ملا، اس کا بجٹ ان کے آنے کے بعد کم ہوا ہے۔ بجلی گیس کے بل بڑھ گئے۔ پیٹرول مہنگا ہے جبکہ اس دوران ایلیٹ کلاس، وزیروں اور اراکین اسمبلی کی ہر چیز چھ سو فیصد بڑھ گئی ہے، اب عام پاکستانی آپ کی ان حرکتوں کی حمایت کیسے کرے؟‘
آر اے شہزاد خود ڈنمارک میں رہتے ہیں اور ان کا شمار ن لیگ کے بڑے سوشل میڈیا انفلوئنسرز میں ہوتا ہے۔ یہ ایک ٹویٹ نہیں ہے بلکہ وہ مسلسل حکومتی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
صرف یہی نہیں ان کے ٹویٹس کے نیچے لیگی کارکن بھی سوال اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
محسن بیگ جو کہ ایک سینیئر صحافی اور ماضی میں عمران کے قریبی دوست بھی رہے اور بعد ازاں ان عمران خان کے دور میں گرفتار بھی کیا گیا۔ وہ بعد میں ن لیگ کی سیاسی حمایت میں شامل ہو گئے۔
تاہم ان دنوں وہ بھی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے حالیہ ٹویٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف کو ٹیگ کر کے کہا گیا ہے کہ وہ بجلی کی قیمتیں کم کریں۔
’بجلی کے حالیہ بھاری بھرکم بلز نے واقعی عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ وزیراعظم اور وزیر پاور اویس لغاری سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اس معاملے پر فوری توجہ دینا ہو گی اور یہ جو سلیب بنا کر ٹیرف کا کھیل کھیلا جا رہا ہے عوام کو اس کی سمجھ نہیں ہے۔ انہیں سستی بجلی چاہیے۔
وکیل اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ میاں داؤد جنہوں نے سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کر کے انہیں استعفے پر مجبور کیا تھا، کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی ان دنوں ن لیگ کی معاشی پالیسیوں کے خلاف شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے ان کا شمار ان انفلوئنسرز میں ہوتا تھا جو ن لیگ کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ ن لیگ کے حمایتی اب کھل کر حکومتی پالیسیو پر تنقید کر رہے ہیں۔
یہ تنقید صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہے بلکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں سپیکر ،چیئرمین سینیٹ اور اراکین اسمبلی کی مراعات بڑھائے جانے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ تو ایسے میں کئی طرح سے سوال سامنے آ رہے ہیں کہ کیا موجودہ حکومت ن لیگ کے اپنے حلقوں کی طرف سے تنقید کسی منصوبے کا حصہ ہے یا قدرتی ہے؟
امریکی لامار یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے پاکستانی نژاد ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اویس سلیم کہتے ہیں کہ ’اس کو دو تین طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کے ڈائی ہارٹ سپورٹر ہوتے ہیں وہ ان کو اقتدار تک نہیں پہنچاتے۔ اقتدار میں وہ لوگ لے کر آتے ہیں جو تھوڑے دور بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ان کو امید ہوتی ہے بعض اقدامات کے نتیجے میں ان کو لگتا ہے کہ اب کون حالات ٹھیک کرے گا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو جب کسی حکومت سے مسئلہ دکھائی دیتا ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے اب اگلے کو چانس دیتے ہیں۔
ڈاکٹر اویس سلیم کہتے ہیں کہ ’جس طرح آج کل تحریک انصاف کا سپورٹر یہ کہتا ہے کہ 90 فیصد عوام عمران خان کے ساتھ ہیں آج حکومت ان کی آ جائے تو ایک سال میں ہی یہ توپوں کا رخ ان کی طرف ہو جائے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وفادار کارکن جب تنقید شروع کر دیں تو اس کو کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ تو ڈاکٹر اویس سلیم کا کہنا تھا کہ ’اس کی سائنسی توجیہہ یہ ہے کہ جب آپ کو سیاسی پیغام ملتا ہے تو آپ اس کو دو راستوں سے سمجھتے ہیں۔ ایک ہے آپ کا مینٹل شارٹ کٹ راستہ کہ یہ میرا پسندیدہ بندہ کہ رہا ہے تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا۔ دوسرا ہے سنٹرل روٹ جب آپ اس پیغام پر دماغ استعمال کرتے ہیں تو وہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب آپ اس سے ذاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔‘
موجودہ صورت حال میں ن لیگی سپورٹرز کی طرف سے تنقید کے سیاق و سباق میں ان کا کہنا تھا کہ ’پرابلم یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر آپ جتنی بھی بڑی بڑی باتیں کر لیں کہ کہ ملک ڈیفالٹ سے نکل آیا ہے لیکن یہ نمبر عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتے وہ تو یہ دیکھیں گے کہ انہیں کیا ملا۔ ن لیگ کے عام ورکر اب اپنی حکومت کے چار بجٹ دیکھ چکے ہیں کیونکہ کہانی 2022 سے شروع ہوئی تھی۔ چار سال گزر جانے کے بعد بھی جب حالات تبدیل نہیں ہوئے تو اس سختی نے شارٹ کٹ روٹ سے سینٹرل روٹ کی طرف سفر شروع کر دیا۔ اب لوگ سوال کر رہے ہیں۔ انہیں لگ رہا ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی اس لیے آپ کو غصہ دکھائی دینا شروع ہو گیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ن لیگ میں حالیہ تنقید کا نشانہ شہباز شریف ہیں اب بھی عام لیگی کارکن یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔
ڈاکٹر اویس کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مزیدار فرق ہے اور ن لیگ کی گڈ کاپ بیڈ کاپ سیاست یہاں کھل کے دکھائی دے رہی ہے۔ عام لیگی ورکر اب بھی نواز شریف کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا اور یہ ان کی سیاست کی کامیابی ہے۔ جس میں شہباز شریف نے ہمیشہ تنقید اور الزام سمیٹے ہیں جبکہ نواز شریف نے کامیابیاں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تنقید کا نشانہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اویس سوشل میڈیا ہوتے ہیں صورت حال مسلم لیگ ن لیگ کی ن لیگ کے رہے ہیں ان کے ا رہا ہے رہی ہے اور یہ کی طرف
پڑھیں:
’گالیاں پڑتی ہیں‘، تنقید کے باوجود ٹک ٹاکر وردہ ملک کی 15 منٹ کی آمدن 1 لاکھ روپے سے زائد
ٹک ٹاک پر مشہور انفلوئنسر وردہ ملک اپنے ساتھ لوگوں کے پیش آنے والے رویے پر رو پڑیں۔
نجی ٹی وی کے پوڈ کاسٹ میں انٹرویو کے دوران وردہ ملک نے مختلف سوالات کے جوابات دیے اور اپنے اوپر ہونے والی تنقید سمیت ویڈیوز بنانے کا دفاع بھی کیا۔
ایک سوال کے جواب میں وردہ نے کہا کہ اگر میں ٹک ٹاکر نہ بنتی تو بھائی کی شادی، گھر کا خرچ، والد کا بائی پاس کیسے ہوتا، دو ہی آپشن ہوتے ہیں یا تو کسی پیسوں والے مرد سے شادی کرو اور اُس کا ظلم برداشت کرو یا پھر باہر نکل کر پیسے کماؤ اور میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔
اپنی ویڈیوز کی وجہ سے سوشل میڈیا اور معاشرے کی جانب سے ملنے والی تنقید پر ٹک ٹاکر نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ کہا کہ ’ہم اچھا کریں یا بُرا کریں ہمیں گالیاں پڑتی ہیں اور ہمیں بھی کسی بھی باعزت انسان کی طرح یہ اچھا نہیں لگتا‘۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ایک شادی میں ہمارے حوالے سے جو جملے لوگوں نے استعمال کیے وہ ناقابل برداشت تھے، ان سب کے باوجود میں اپنا کام جاری رکھوں گی۔
وردہ ملک نے یہ بھی بتایا کہ انہیں ویڈیوز بنانے کی وجہ سے اپنے خاندان والوں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے مگر وہ اپنے گھر کے حالات اور دیگر وجوہات کی وجہ سے کام کو جاری رکھیں گی۔
ایک سوال کے جواب میں وردہ ملک نے کہا کہ وہ 15 سے 20 منٹ کے دوران 1 لاکھ 20 ہزار روپے تک کما لیتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹک ٹاک پر لائیو کے دوران جو فالوورز گفٹ دیتے ہیں عام طور پر اُن کی جانب سے بے ہودہ خواہشات کی جاتی ہیں۔
ریحان طارق کے اس پوڈ کاسٹ کے بعد دو قسم کی آرا سامنے آئیں ایک میں بیشتر لوگوں نے ٹک ٹاکر کو اپنے کام کے دفاع پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ دوسرے طبقے نے سوالات پوچھنے اور مداخلت پر اینکر کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔