پاکستان میں ان دنوں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت اپنے ہی سوشل میڈیا ورکرز اور حمایتیوں کی تنقید کی زد میں ہے اور یہ تنقید پچھلے کچھ دنوں سے آہستہ آہستہ سر اٹھاتی دکھائی دے رہی ہے، تاہم اس میں اضافہ حال میں تیل کی قیمتوں کے اضافے کے بعد شروع ہوا۔
اردونیوز کے مطابق وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ جو کبھی حکومت کی مدح سرائی میں مشغول دکھائی دیتے تھے اور ان کے فالوورز کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ اب انہی سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
یہ بالکل ویسی ہی صورت حال ہے جس کا سامنا ماضی میں تحریک انصاف کو کرنا پڑا۔ یعنی جب 2018 میں عمران خان اقتدار میں آئے تو اس کے تقریباً دو سال بعد 2020 میں صورت حال ایسی تھی کہ ان کے اپنے سوشل میڈیا پر حامی اپنی حکومت کے اقدامات خاص طور پر مہنگائی اور ایندھن کی قیمتوں پر نہ صرف تنقید کرتے دکھائی دیتے تھے بلکہ انہوں نے حکومتی اقدامات کی ہر طرح کی حمایت بھی بند کر دی تھی۔
کچھ اس قسم کی صورت حال کا سامنا اب مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
مسلم لیگ کے ایک متحرک سوشل میڈیا کارکن جو آر اے شہزاد کے نام سے ایکس پر اپنا اکاؤنٹ چلاتے ہیں حال ہی میں ان کے اکاؤنٹ سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کی ایک تازہ پوسٹ کے مطابق موجودہ حکومت کو آئے کل ملا کر ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عام آدمی کو ان کے آنے سے کوئی ریلیف نہیں ملا، اس کا بجٹ ان کے آنے کے بعد کم ہوا ہے۔ بجلی گیس کے بل بڑھ گئے۔ پیٹرول مہنگا ہے جبکہ اس دوران ایلیٹ کلاس، وزیروں اور اراکین اسمبلی کی ہر چیز چھ سو فیصد بڑھ گئی ہے، اب عام پاکستانی آپ کی ان حرکتوں کی حمایت کیسے کرے؟‘
آر اے شہزاد خود ڈنمارک میں رہتے ہیں اور ان کا شمار ن لیگ کے بڑے سوشل میڈیا انفلوئنسرز میں ہوتا ہے۔ یہ ایک ٹویٹ نہیں ہے بلکہ وہ مسلسل حکومتی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
صرف یہی نہیں ان کے ٹویٹس کے نیچے لیگی کارکن بھی سوال اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
محسن بیگ جو کہ ایک سینیئر صحافی اور ماضی میں عمران کے قریبی دوست بھی رہے اور بعد ازاں ان عمران خان کے دور میں گرفتار بھی کیا گیا۔ وہ بعد میں ن لیگ کی سیاسی حمایت میں شامل ہو گئے۔
تاہم ان دنوں وہ بھی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے حالیہ ٹویٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف کو ٹیگ کر کے کہا گیا ہے کہ وہ بجلی کی قیمتیں کم کریں۔
’بجلی کے حالیہ بھاری بھرکم بلز نے واقعی عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ وزیراعظم اور وزیر پاور اویس لغاری سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اس معاملے پر فوری توجہ دینا ہو گی اور یہ جو سلیب بنا کر ٹیرف کا کھیل کھیلا جا رہا ہے عوام کو اس کی سمجھ نہیں ہے۔ انہیں سستی بجلی چاہیے۔
وکیل اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ میاں داؤد جنہوں نے سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کر کے انہیں استعفے پر مجبور کیا تھا، کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی ان دنوں ن لیگ کی معاشی پالیسیوں کے خلاف شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے ان کا شمار ان انفلوئنسرز میں ہوتا تھا جو ن لیگ کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ ن لیگ کے حمایتی اب کھل کر حکومتی پالیسیو پر تنقید کر رہے ہیں۔
یہ تنقید صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہے بلکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں سپیکر ،چیئرمین سینیٹ اور اراکین اسمبلی کی مراعات بڑھائے جانے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ تو ایسے میں کئی طرح سے سوال سامنے آ رہے ہیں کہ کیا موجودہ حکومت ن لیگ کے اپنے حلقوں کی طرف سے تنقید کسی منصوبے کا حصہ ہے یا قدرتی ہے؟
امریکی لامار یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے پاکستانی نژاد ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اویس سلیم کہتے ہیں کہ ’اس کو دو تین طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کے ڈائی ہارٹ سپورٹر ہوتے ہیں وہ ان کو اقتدار تک نہیں پہنچاتے۔ اقتدار میں وہ لوگ لے کر آتے ہیں جو تھوڑے دور بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ان کو امید ہوتی ہے بعض اقدامات کے نتیجے میں ان کو لگتا ہے کہ اب کون حالات ٹھیک کرے گا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو جب کسی حکومت سے مسئلہ دکھائی دیتا ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے اب اگلے کو چانس دیتے ہیں۔
ڈاکٹر اویس سلیم کہتے ہیں کہ ’جس طرح آج کل تحریک انصاف کا سپورٹر یہ کہتا ہے کہ 90 فیصد عوام عمران خان کے ساتھ ہیں آج حکومت ان کی آ جائے تو ایک سال میں ہی یہ توپوں کا رخ ان کی طرف ہو جائے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وفادار کارکن جب تنقید شروع کر دیں تو اس کو کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ تو ڈاکٹر اویس سلیم کا کہنا تھا کہ ’اس کی سائنسی توجیہہ یہ ہے کہ جب آپ کو سیاسی پیغام ملتا ہے تو آپ اس کو دو راستوں سے سمجھتے ہیں۔ ایک ہے آپ کا مینٹل شارٹ کٹ راستہ کہ یہ میرا پسندیدہ بندہ کہ رہا ہے تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا۔ دوسرا ہے سنٹرل روٹ جب آپ اس پیغام پر دماغ استعمال کرتے ہیں تو وہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب آپ اس سے ذاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔‘
موجودہ صورت حال میں ن لیگی سپورٹرز کی طرف سے تنقید کے سیاق و سباق میں ان کا کہنا تھا کہ ’پرابلم یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر آپ جتنی بھی بڑی بڑی باتیں کر لیں کہ کہ ملک ڈیفالٹ سے نکل آیا ہے لیکن یہ نمبر عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتے وہ تو یہ دیکھیں گے کہ انہیں کیا ملا۔ ن لیگ کے عام ورکر اب اپنی حکومت کے چار بجٹ دیکھ چکے ہیں کیونکہ کہانی 2022 سے شروع ہوئی تھی۔ چار سال گزر جانے کے بعد بھی جب حالات تبدیل نہیں ہوئے تو اس سختی نے شارٹ کٹ روٹ سے سینٹرل روٹ کی طرف سفر شروع کر دیا۔ اب لوگ سوال کر رہے ہیں۔ انہیں لگ رہا ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی اس لیے آپ کو غصہ دکھائی دینا شروع ہو گیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ن لیگ میں حالیہ تنقید کا نشانہ شہباز شریف ہیں اب بھی عام لیگی کارکن یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔
ڈاکٹر اویس کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مزیدار فرق ہے اور ن لیگ کی گڈ کاپ بیڈ کاپ سیاست یہاں کھل کے دکھائی دے رہی ہے۔ عام لیگی ورکر اب بھی نواز شریف کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا اور یہ ان کی سیاست کی کامیابی ہے۔ جس میں شہباز شریف نے ہمیشہ تنقید اور الزام سمیٹے ہیں جبکہ نواز شریف نے کامیابیاں۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: تنقید کا نشانہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اویس سوشل میڈیا ہوتے ہیں صورت حال مسلم لیگ ن لیگ کی ن لیگ کے رہے ہیں ان کے ا رہا ہے رہی ہے اور یہ کی طرف

پڑھیں:

سینٹ: عید میلادالنبیؐ حکومتی سطح پر منانے، یوم آزادی سے متعلق قراردادیں منظور

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+خبر نگار) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 1500ویں جشن میلاد کے موقع پر سینٹ میں قرارداد منظور کرلی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اعلیٰ سطح کے قومی پروگرامز منعقد کریں۔ پوری قوم سے اپیل ہے اس بابرکت موقع کو عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جائے۔ قرارداد سینیٹر عرفان صدیقی نے پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ قرارداد کے متن کے مطابق ایوان نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ  سرکاری، نیم سرکاری، نجی عمارتوں، شاہراہوں کو سجایا جائے۔ سرکاری و نجی ادارے، کاروباری ادارے، تعلیمی ادارے اور میڈیا ہاؤسز حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق امن، رواداری اور اخوت کو فروغ دیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت و سیرت کے فروغ کا عزم کرتا ہے۔ پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ اس بابرکت موقع کو عقیدت و احترام اور اتحاد کے ساتھ منائیں۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے یوم آزادی سے متعلق قرارداد پیش کی، جس میں تحریک آزادی کے اکابرین، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور آئین ساز ارکان پارلیمنٹ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ قرارداد میں ملک کی سلامتی، آزادی، خود مختاری اور علاقائی تحفظ کیلئے قربانیاں دینے والے فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ نوجوان نسل سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر قومی یکجہتی، ترقی اور خوشحالی کیلئے مثبت کردار ادا کرے۔ دوسری طرف حکومتی ارکان اور وزراء  میں سول ایوارڈز کی تقسیم  اور سرکاری اشتہارات میں قائداعظم کی تصویر نہ لگانے پر  اپوزیشن نے سینٹ میں احتجاج کیا ہے۔ اپوزیشن ارکان نے ایوارڈز کی تقسیم پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کس بنیاد پر یہ ایوارڈز دیے گئے۔ فلک ناز چترالی نے کہا کہ عطا تارڑ نے کون سی جنگ لڑی تھی؟۔ جبکہ ہمایوں مہمند نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کا ڈیزائن بنانے والے نواز شریف کو ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ فیصل جاوید نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹائیگرز نے معرکہ حق پر سوشل میڈیا پر مہم چلائی، ہمارے سوشل میڈیا ٹائیگرز نے رات جاگ کر بھارت کا جھوٹا پروپیگنڈا بے نقاب کیا، ان سوشل میڈیا ٹائیگرز کو ایوارڈ نہیں دیا گیا، آپ نے ایوارڈ کی وقعت ختم کر دی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جن سینیٹرز کو ایوارڈ دیے گئے وہ باہر سفارتی سطح پر محاذ لڑ کر آئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے لوگوں نے جس طرح معرکہ حق کی جنگ لڑی اس پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سینیٹر فیصل جاوید نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے 14 اگست کے سرکاری اشتہارات میں قائداعظم کی تصویر نہ لگانے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ  حکومت نے اپنے خاندان کی تصاویر لگا دیں بانی پاکستان کی نہیں لگائی، یہ انتہائی شرم کا مقام ہے۔ قائداعظم کی تصویر اشتہار میں نہ چھاپنے پر ہمیں وضاحت چاہئے ورنہ ہم ایوان نہیں چلنے دیں گے۔ وزیر قانون اعطم نذیر تارڑ نے کہا کہ قائد اعظم کی تصویر نہ چھاپنے کے حوالے سے میرے علم میں یہ بات اب آئی ہے، اس سے میری بھی دل آزاری ہوئے ہے، اس پر باقاعدہ انکوائری کر کے ہاؤس کو آگاہ کیا جائے گا۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چودہ اگست پر لوگوں کی سزائیں معاف ہوتی ہیں، مگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو 14 اگست پر باٹا ریٹ کے حساب سے 10,10 سال کی سزائیں دی گئیں۔ اجلاس کے دوران سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بلوچستان کے 36 اضلاع میں موبائل و انٹرنیٹ سروس کی بندش پر ایوان میں توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آدھے پاکستان میں موبائل سروس بند ہے، اس سے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے، اس اقدام سے عوام الناس کو شدید پریشانی ہے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی مسائل کی وجہ سے کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ بند ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صبا قمر کی صحتیابی کے بعد سیٹ پر واپسی، سوشل میڈیا پر پیغام بھی جاری کردیا
  • کون حمیرا اصغر؟ مرینہ خان کے سوال نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیا
  • کراچی: سوشل میڈیا پر پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرنیوالا ملزم گرفتار
  • ٹرمپ کہاں سے آرڈر لیتا ہے، سوشل میڈیا کی دلچسپ بحث
  • ماریہ بی نے لاہور میں ہم جنس پرستوں کی خفیہ پارٹی کو بے نقاب کردیا؛ حکومت پر برہم
  • بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون، والدین کو کیا کرنا چاہیے؟
  • سینٹ: عید میلادالنبیؐ حکومتی سطح پر منانے، یوم آزادی سے متعلق قراردادیں منظور
  • عائزہ خان کا یومِ آزادی پر لیڈی ڈیانا اسٹائل! فوٹو شوٹ نے مچا دی سوشل میڈیا پر ہلچل
  • فیصل جاوید کا معرکہ حق میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنوں کی مہم پر سول ایوارڈز دینے کا مطالبہ
  • دہشت گردوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کیخلاف کریک ڈاؤن