Islam Times:
2025-11-19@02:06:54 GMT

غزہ اور مغربی ذرائع ابلاغ کا مجرمانہ کردار

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

غزہ اور مغربی ذرائع ابلاغ کا مجرمانہ کردار

اسلام ٹائمز: غزہ کی سرزمین سے اٹھنے والی آہیں، آج صرف فلسطینیوں کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی پکار ہیں۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل یہ خاموشی ہمارے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ سچ کہنا، ظلم کو ظلم کہنا اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا صرف صحافت نہیں، انسانیت کا بھی تقاضا ہے۔ غزہ جل رہا ہے، انسانیت تڑپ رہی ہے اور دنیا کے خبر رساں ادارے اب بھی صرف مالی مفادات، اشتہارات اور سیاسی وابستگی کے پیمانوں پر خبر کو تول رہے ہیں۔ یہ صرف ایک خطے کا المیہ نہیں، ہماری اجتماعی بے حسی کا آئینہ ہے اور جب آئینہ دکھانے والے خود اندھے ہو جائیں، تو سچ کے چراغ ہمیں خود روشن کرنا پڑتے ہیں۔ تحریر: ظہیر حسین دانش

دنیا کی جدید تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو، جس نے اتنی دیر تک مسلسل ظلم و ستم، تباہی و بربادی اور انسانی حقوق کی پامالی دیکھی ہو، جتنی کہ غزہ کی پٹی نے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اسکولوں، اسپتالوں، پناہ گاہوں اور بازاروں پر گولہ باری، عورتوں اور بچوں کا قتل عام، پانی، بجلی اور دواؤں کی بندش جیسے جرائم کسی بھی انسانی معاشرے کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ ان المناک مناظر کو نظر انداز کرکے ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کو دنیا کی آنکھ اور کان سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ قوت ہے، جو ایک معمولی واقعے کو عالمی مسئلہ بنا سکتی ہے اور ایک بڑے سانحے کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کرسکتی ہے۔

غزہ کے معاملے میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے شعوری یا لاشعوری طور پر وہی دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ ہزاروں معصوم فلسطینی جب صیہونی بمباری کی زد میں آتے ہیں، تو مغربی نشریاتی ادارے اسے دفاعی کارروائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی بچوں کی لاشیں تڑپ رہی ہوتی ہیں اور دوسری طرف عالمی خبر رساں ادارے اسرائیلی سلامتی کے خدشات کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ ان اداروں کی جانبداری اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے، جب ہم ان کی رپورٹنگ کا موازنہ دیگر عالمی سانحات سے کرتے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کے دوران مغربی ذرائع ابلاغ نے دن رات کی رپورٹنگ کے ذریعے پوری دنیا کو متحرک کر دیا۔ انسانی ہمدردی کے جذبات کو ابھارا گیا، متاثرین کی داستانیں دکھائی گئیں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا گیا۔ لیکن یہی ذرائع ابلاغ غزہ میں ہونے والے قتل عام پر ایسے خاموش ہیں، جیسے وہاں انسان نہیں، کوئی اور مخلوق مر رہی ہو۔

غزہ کے مظلوم عوام کی آواز کو دبانے کے لیے ذرائع ابلاغ مختلف چالاکیاں استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلا ہتھکنڈہ تو یہی ہے کہ وہاں کی خبروں کو بالکل نشر ہی نہ کیا جائے۔ اگر کبھی خبر دی بھی جائے تو ایسے الفاظ اور انداز میں کہ ظلم کرنے والا مدافع اور مظلوم دہشت گرد کے طور پر پیش ہو۔ صیہونی فوج کے حملے کو جوابی کارروائی کہا جاتا ہے، جبکہ فلسطینی مزاحمت کو شدت پسندی یا دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ الفاظ کا یہ کھیل حقیقت کو بگاڑنے کا ایک مکروہ ہنر بن چکا ہے۔ اس خاموشی اور جانبداری کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ مغربی طاقتوں کے سیاسی اور مالی مفادات ہیں۔ صیہونی ریاست مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کی قریبی دوست ہے۔ ذرائع ابلاغ، جن میں سے اکثریت انہی ممالک میں قائم ہے، اپنے ممالک کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ بڑے تجارتی ذرائع ابلاغ کے لیے مجبوری بھی ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کاروں اور اشتہارات دینے والے اداروں کے مفادات کو ترجیح دیں، جن میں کئی صیہونیت نواز کمپنیاں شامل ہوتی ہیں۔

ایک اور وجہ مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی نفرت بھی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے کئی دہائیوں سے مسلمانوں کو شدت پسندی سے جوڑنے کا جو بیانیہ بنایا ہے، وہ اب فلسطینیوں کی حق پر مبنی جدوجہد کو بھی اسی نظریئے سے دیکھتے ہیں۔ جب کوئی فلسطینی مظاہرہ کرتا ہے یا اپنی سرزمین کے دفاع میں آواز اٹھاتا ہے، تو وہ اسے شدت پسندی کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس صیہونی فوج کی ہر کارروائی کو سلامتی کا حق کہہ کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر چونکہ روایتی ذرائع ابلاغ کی طرح سخت ادارتی پابندیاں نہیں ہوتیں، اس لیے سوشل میڈیا اب غزہ کے مظالم کی اصل تصاویر اور خبریں عام کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عالمی رائے عامہ کسی حد تک بیدار ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے نوجوان، خاص طور پر مغربی ممالک کے طلبہ، فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ مگر روایتی ذرائع ابلاغ ان مظاہروں کو بھی یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں یا انہیں نفرت انگیز قرار دے کر بدنام کرتے ہیں۔

صحافت کی دیانت داری کا تقاضا ہے کہ مظلوم اور ظالم کے درمیان فرق رکھا جائے۔ ذرائع ابلاغ کو چاہیئے کہ وہ مظلوم کی آواز بنے، نہ کہ طاقتور کی ترجمانی کرے۔ لیکن جب ادارے خود طاقت کا حصہ بن جائیں، تو وہ سچ بولنے کی جرات کھو دیتے ہیں۔ غزہ کے المیے پر خاموشی، صرف ذرائع ابلاغ کی ناکامی نہیں بلکہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر کی شکست ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ بھی اکثر بین الاقوامی بیانیے کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی فلسطین کا مسئلہ وقتی سرخیوں تک محدود رہتا ہے اور گہرائی سے اس پر رپورٹنگ کا عمل بہت کم نظر آتا ہے۔ جو آوازیں بلند ہوتی بھی ہیں، وہ عموماً رسمی اور جذباتی نوعیت کی ہوتی ہیں، جن میں سنجیدہ تحقیق کا فقدان ہوتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ذرائع ابلاغ کے کردار پر سنجیدگی سے سوال اٹھائیں۔ اگر خبر رساں ادارے صرف طاقتور کی آواز بنیں گے، تو وہ سچائی کے بجائے ظلم کے ہمنوا بن جائیں گے۔

ہمیں ایسے متبادل ذرائع پیدا کرنے ہوں گے، جو غیر جانبداری سے حقائق دنیا کے سامنے رکھیں، جو مظلوموں کی صدائیں دبنے نہ دیں اور جو انسانوں کو صرف تعداد میں نہ گنیں بلکہ ان کے دکھ کو محسوس کریں۔ غزہ کی سرزمین سے اٹھنے والی آہیں، آج صرف فلسطینیوں کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی پکار ہیں۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل یہ خاموشی ہمارے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ سچ کہنا، ظلم کو ظلم کہنا اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا صرف صحافت نہیں، انسانیت کا بھی تقاضا ہے۔ غزہ جل رہا ہے، انسانیت تڑپ رہی ہے اور دنیا کے خبر رساں ادارے اب بھی صرف مالی مفادات، اشتہارات اور سیاسی وابستگی کے پیمانوں پر خبر کو تول رہے ہیں۔ یہ صرف ایک خطے کا المیہ نہیں، ہماری اجتماعی بے حسی کا آئینہ ہے اور جب آئینہ دکھانے والے خود اندھے ہو جائیں، تو سچ کے چراغ ہمیں خود روشن کرنا پڑتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ذرائع ابلاغ کرتے ہیں جاتا ہے رہے ہیں غزہ کے ہے اور

پڑھیں:

سفارتی  سطح  پر بڑی  کامیابیاں ‘ وزیراعظم  ‘ فیلڈ  مارشل  کا اہم  کردار : عطاتارڑ

  اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے پیر کے روز صنوبر انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام بدلتی دنیا میں پاکستان کا کردار کے عنوان سے مباحثہ سے خطاب  میں کہا ہے کہ بدلتی دنیا میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی فعال ہے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عظیم قربانیاں دیں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف 90 ہزار انسانی جانوں کی قربانی دی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان کا بیانیہ دنیا کے سامنے رکھنے میں وزیراعظم، نائب وزیراعظم، فیلڈ مارشل کا اہم کردار ہے۔ بیانیہ اور سفارتی محاذوں پر ہم نے فتح حاصل کی۔ پاکستان کے بیانیہ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ سفارتی سطح پر ہمیں بڑی کامیابیاں ملیں۔ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑنے کہا کہ بھارت کے خلاف جنگ کے دوران نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر اہم کردار ادا کیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت کا جھوٹ بے نقاب کیا گیا۔ عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کی معاشی بہتری کا اعتراف کیا۔ سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو فروغ مل رہا ہے۔  بھارت کے خلاف عظیم کامیابی سے عالمی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا۔ دوست ملکوں سے دوطرفہ تجارت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ مل رہا ہے۔ امریکی صدر نے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے کردار کی تعریف کی۔ حکومت نے معیشت کو بحران سے ترقی اور خارجہ تعلقات کو تنہائی سے عالمی اہمیت کی طرف منتقل کر دیا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف درست اقدامات اٹھائے بلکہ ایسی پالیسی اپنائی جس کے تحت اسے سفارتی میدان میں متعدد کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ یہ کامیابیاں سول و فوجی قیادت بشمول وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان موجود مثالی ہم آہنگی کا نتیجہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں دوست ممالک ناراض تھے لیکن موجودہ دور حکومت میں پاکستان نے نہایت مختصر عرصے میں خارجہ پالیسی کے تناظر میں نمایاں اہمیت دوبارہ حاصل کرلی۔ مئی کی جنگ کے بعد کی صورتحال نے ہمارے قومی تشخص کو ایک نئی سمت دی ہے۔ پہلگام واقعہ کے بعد شہباز شریف نے اس سانحہ کی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کی پیشکش کی۔ ہم دہشت گردوں اور باقی دنیا کے درمیان ایک ڈھال کا کردار ادا کر رہے ہیں اور جب کوئی پاکستانی اپنی جان قربان کرتا ہے تو یہ صرف مادر وطن کے لئے نہیں بلکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے بھی ہے۔ اتنی قربانیاں رائیگاں جانا ممکن نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ہماری کہانی سنے اور اسے درست انداز میں سمجھے۔  جنگ سے قبل تحقیقات کی پیشکش کر کے ہم نے یہ پیغام دیا کہ ہمارے ہاتھ صاف ہیں اور ہمارا موقف دنیا نے تسلیم کیا۔ مسلسل سفارتی رابطوں نے پاکستان کو دنیا کے سامنے اپنا موقف موثر طریقے سے پیش کرنے میں مدد دی۔  دنیا بدل رہی تھی اور پاکستان بھی بدلا۔ ہم نے ایک فعال سفارتی تبدیلی دیکھی کیونکہ پاکستان نے سفارت کاری کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔ ہمارے پاس سچ کی طاقت تھی، اسی بنیاد پر جب پاکستان نے اپنی کہانی درست انداز میں پیش کی تو دنیا نے اسے سنا اور اس کا اثر ہوا۔ پاکستان ہر محاذ پر موجود تھا اور درست معلومات فراہم  کرنے پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ قائم مثالی ہم آہنگی قابل تعریف تھی جس کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔ اللہ کے فضل سے ہم نے سات بھارتی طیارے مار گرائے تھے۔  قوم کے طور پر جو اتحاد ہم نے دکھایا اسے تسلیم کرنا ہوگا۔ پاکستانی عوام کی حوصلہ مندی اور یکجہتی نے اختلافات کو پیچھے ڈال دیا اور میں ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ آج کوئی سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کا موقع نہیں ہے۔ معیشت کو بحران سے ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے اور خارجہ تعلقات کو تنہائی سے عالمی اہمیت تک پہنچایا۔ یہ دو نعرے حکومت کی کارکردگی کو بخوبی بیان کرتے ہیں کہ الحمد للہ ہم نے معیشت اور خارجہ پالیسی دونوں میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ ہر بڑے واقعہ کی تحقیقات میں کسی نہ کسی مقام پر افغان شہری کا تعلق ضرور سامنے آتا ہے اور اس صورتحال سے پاکستان نمٹ رہا ہے۔ قبل ازیں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام ایف نائن پارک اسلام آباد میں اڑان پاکستان فیملی فیسٹیول کا کامیابی سے انعقاد ہوا۔ فیسٹیول کی کامیابی وزیراعظم محمد شہباز شریف کی خصوصی رہنمائی اور حکومت کی عوام دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ معرکہ حق میں پاکستان کی شاندار کامیابی نے پوری قوم کے حوصلے بلند کئے اور اسی جذبے نے فیسٹیول کے ماحول کو مزید ولولہ انگیز بنا دیا۔ فیسٹیول کے کامیابی سے انعقاد میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا بھرپور تعاون رہا جبکہ وزارت داخلہ نے فول پروف سکیورٹی انتظامات کئے۔  وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے ایف نائن پارک کا دورہ کیا اور مختلف انتظامات کا جائزہ لیا۔ 

متعلقہ مضامین

  • بنگلا دیش کا سیاسی بحران؛ جماعت ِ اسلامی کا ابھرتا ہوا کردار
  • مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں پر چاقو بردار شخص کا حملہ؛ ایک ہلاک اور 3 زخمی
  • سفارتی  سطح  پر بڑی  کامیابیاں ‘ وزیراعظم  ‘ فیلڈ  مارشل  کا اہم  کردار : عطاتارڑ
  • روان ایٹنکنسن
  • بدلتی دنیا میں پاکستان کا کردار اہم ہے، عطا تارڑ
  • یہودیوں کا مغربی کنارے میں مسجد پر حملہ‘ توڑ پھوڑ‘ آگ لگادی،اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے فلسطینی نوجوان شہید
  • ریاض کو ایف 35 کی فروخت صرف تب ہوگی جب یہ طیارے مغربی سعودیہ میں تعینات نہ ہوں، تل ابیب کی شرط
  • عہد ِرسالتؐ میں صحابیاتؓ کا معاشی کردار
  • اسرائیلی فوج کی مقبوضہ مغربی کنارے میں فائرنگ، فلسطینی نوجوان شہید
  • یہودیوں کا مغربی کنارے میں مسجد پر حملہ، توڑ پھوڑ، آگ لگا دی