Islam Times:
2025-07-03@10:32:14 GMT

غزہ اور مغربی ذرائع ابلاغ کا مجرمانہ کردار

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

غزہ اور مغربی ذرائع ابلاغ کا مجرمانہ کردار

اسلام ٹائمز: غزہ کی سرزمین سے اٹھنے والی آہیں، آج صرف فلسطینیوں کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی پکار ہیں۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل یہ خاموشی ہمارے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ سچ کہنا، ظلم کو ظلم کہنا اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا صرف صحافت نہیں، انسانیت کا بھی تقاضا ہے۔ غزہ جل رہا ہے، انسانیت تڑپ رہی ہے اور دنیا کے خبر رساں ادارے اب بھی صرف مالی مفادات، اشتہارات اور سیاسی وابستگی کے پیمانوں پر خبر کو تول رہے ہیں۔ یہ صرف ایک خطے کا المیہ نہیں، ہماری اجتماعی بے حسی کا آئینہ ہے اور جب آئینہ دکھانے والے خود اندھے ہو جائیں، تو سچ کے چراغ ہمیں خود روشن کرنا پڑتے ہیں۔ تحریر: ظہیر حسین دانش

دنیا کی جدید تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو، جس نے اتنی دیر تک مسلسل ظلم و ستم، تباہی و بربادی اور انسانی حقوق کی پامالی دیکھی ہو، جتنی کہ غزہ کی پٹی نے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اسکولوں، اسپتالوں، پناہ گاہوں اور بازاروں پر گولہ باری، عورتوں اور بچوں کا قتل عام، پانی، بجلی اور دواؤں کی بندش جیسے جرائم کسی بھی انسانی معاشرے کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ ان المناک مناظر کو نظر انداز کرکے ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کو دنیا کی آنکھ اور کان سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ قوت ہے، جو ایک معمولی واقعے کو عالمی مسئلہ بنا سکتی ہے اور ایک بڑے سانحے کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کرسکتی ہے۔

غزہ کے معاملے میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے شعوری یا لاشعوری طور پر وہی دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ ہزاروں معصوم فلسطینی جب صیہونی بمباری کی زد میں آتے ہیں، تو مغربی نشریاتی ادارے اسے دفاعی کارروائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی بچوں کی لاشیں تڑپ رہی ہوتی ہیں اور دوسری طرف عالمی خبر رساں ادارے اسرائیلی سلامتی کے خدشات کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ ان اداروں کی جانبداری اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے، جب ہم ان کی رپورٹنگ کا موازنہ دیگر عالمی سانحات سے کرتے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کے دوران مغربی ذرائع ابلاغ نے دن رات کی رپورٹنگ کے ذریعے پوری دنیا کو متحرک کر دیا۔ انسانی ہمدردی کے جذبات کو ابھارا گیا، متاثرین کی داستانیں دکھائی گئیں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا گیا۔ لیکن یہی ذرائع ابلاغ غزہ میں ہونے والے قتل عام پر ایسے خاموش ہیں، جیسے وہاں انسان نہیں، کوئی اور مخلوق مر رہی ہو۔

غزہ کے مظلوم عوام کی آواز کو دبانے کے لیے ذرائع ابلاغ مختلف چالاکیاں استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلا ہتھکنڈہ تو یہی ہے کہ وہاں کی خبروں کو بالکل نشر ہی نہ کیا جائے۔ اگر کبھی خبر دی بھی جائے تو ایسے الفاظ اور انداز میں کہ ظلم کرنے والا مدافع اور مظلوم دہشت گرد کے طور پر پیش ہو۔ صیہونی فوج کے حملے کو جوابی کارروائی کہا جاتا ہے، جبکہ فلسطینی مزاحمت کو شدت پسندی یا دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ الفاظ کا یہ کھیل حقیقت کو بگاڑنے کا ایک مکروہ ہنر بن چکا ہے۔ اس خاموشی اور جانبداری کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ مغربی طاقتوں کے سیاسی اور مالی مفادات ہیں۔ صیہونی ریاست مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کی قریبی دوست ہے۔ ذرائع ابلاغ، جن میں سے اکثریت انہی ممالک میں قائم ہے، اپنے ممالک کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ بڑے تجارتی ذرائع ابلاغ کے لیے مجبوری بھی ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کاروں اور اشتہارات دینے والے اداروں کے مفادات کو ترجیح دیں، جن میں کئی صیہونیت نواز کمپنیاں شامل ہوتی ہیں۔

ایک اور وجہ مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی نفرت بھی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے کئی دہائیوں سے مسلمانوں کو شدت پسندی سے جوڑنے کا جو بیانیہ بنایا ہے، وہ اب فلسطینیوں کی حق پر مبنی جدوجہد کو بھی اسی نظریئے سے دیکھتے ہیں۔ جب کوئی فلسطینی مظاہرہ کرتا ہے یا اپنی سرزمین کے دفاع میں آواز اٹھاتا ہے، تو وہ اسے شدت پسندی کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس صیہونی فوج کی ہر کارروائی کو سلامتی کا حق کہہ کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر چونکہ روایتی ذرائع ابلاغ کی طرح سخت ادارتی پابندیاں نہیں ہوتیں، اس لیے سوشل میڈیا اب غزہ کے مظالم کی اصل تصاویر اور خبریں عام کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عالمی رائے عامہ کسی حد تک بیدار ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے نوجوان، خاص طور پر مغربی ممالک کے طلبہ، فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ مگر روایتی ذرائع ابلاغ ان مظاہروں کو بھی یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں یا انہیں نفرت انگیز قرار دے کر بدنام کرتے ہیں۔

صحافت کی دیانت داری کا تقاضا ہے کہ مظلوم اور ظالم کے درمیان فرق رکھا جائے۔ ذرائع ابلاغ کو چاہیئے کہ وہ مظلوم کی آواز بنے، نہ کہ طاقتور کی ترجمانی کرے۔ لیکن جب ادارے خود طاقت کا حصہ بن جائیں، تو وہ سچ بولنے کی جرات کھو دیتے ہیں۔ غزہ کے المیے پر خاموشی، صرف ذرائع ابلاغ کی ناکامی نہیں بلکہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر کی شکست ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ بھی اکثر بین الاقوامی بیانیے کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی فلسطین کا مسئلہ وقتی سرخیوں تک محدود رہتا ہے اور گہرائی سے اس پر رپورٹنگ کا عمل بہت کم نظر آتا ہے۔ جو آوازیں بلند ہوتی بھی ہیں، وہ عموماً رسمی اور جذباتی نوعیت کی ہوتی ہیں، جن میں سنجیدہ تحقیق کا فقدان ہوتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ذرائع ابلاغ کے کردار پر سنجیدگی سے سوال اٹھائیں۔ اگر خبر رساں ادارے صرف طاقتور کی آواز بنیں گے، تو وہ سچائی کے بجائے ظلم کے ہمنوا بن جائیں گے۔

ہمیں ایسے متبادل ذرائع پیدا کرنے ہوں گے، جو غیر جانبداری سے حقائق دنیا کے سامنے رکھیں، جو مظلوموں کی صدائیں دبنے نہ دیں اور جو انسانوں کو صرف تعداد میں نہ گنیں بلکہ ان کے دکھ کو محسوس کریں۔ غزہ کی سرزمین سے اٹھنے والی آہیں، آج صرف فلسطینیوں کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی پکار ہیں۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل یہ خاموشی ہمارے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ سچ کہنا، ظلم کو ظلم کہنا اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا صرف صحافت نہیں، انسانیت کا بھی تقاضا ہے۔ غزہ جل رہا ہے، انسانیت تڑپ رہی ہے اور دنیا کے خبر رساں ادارے اب بھی صرف مالی مفادات، اشتہارات اور سیاسی وابستگی کے پیمانوں پر خبر کو تول رہے ہیں۔ یہ صرف ایک خطے کا المیہ نہیں، ہماری اجتماعی بے حسی کا آئینہ ہے اور جب آئینہ دکھانے والے خود اندھے ہو جائیں، تو سچ کے چراغ ہمیں خود روشن کرنا پڑتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ذرائع ابلاغ کرتے ہیں جاتا ہے رہے ہیں غزہ کے ہے اور

پڑھیں:

ایران کیخلاف دوبارہ جنگ کی تیاریاں اور ان کے تباہ کن ممکنہ نتائج

اسلام ٹائمز: ایران پر دوبارہ حملہ کے متعلق جنونی صیہونیوں کے بیانات مغربی ایشیا میں ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہیں۔ ایسا اقدام کشیدگی اور تصادم کو اس حد تک وسعت دے سکتا ہے کہ جو نہ صرف صیہونی حکومت کی سلامتی بلکہ اس کے مغربی حامیوں کے مفادات اور ان کی موجودہ حیثیت کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ بلاشبہ صیہونیوں کے لیے اس طرح کے فوجی مہم جوئی کی قیمت بہت بھاری اور ناقابل تلافی ہوگی۔ خصوصی رپورٹ:

حالیہ 12 روزہ جنگ میں صیہونی رجیم کی شرمناک شکست کے بعد کچھ شواہد اورقرائن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک بار پھر ایران کیخلاف نئے حملے کی تیاریوں میں مصروف ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تویہ اقدام خطے کو بدترین کشیدگی میں دھکیل دیگا۔ حالیہ دنوں میں صیہونی رجیم کی جانب سے ہتھیاروں کے ذخیروں میں تیز رفتار اضافہ ان تیاریوں کا واضح ثبوت ہے۔ ایران کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعدصیہونی رجیم کے ہوائی اڈوں پر دفاعی ساز وسامان سے لدے طیارے اترے ہیں، یہ طیارے امریکہ، جرمنی اور یونان کی طرف سے 17 کارگو طیارے مختلف اوقات میں لینڈ کر چکے ہیں۔

 24 فائٹرریڈار کے مطابق ان پروازوں میں سے ایک رجسٹریشن نمبر 4X-ICK کا حامل اسرائیلی بوئنگ 747 کارگو طیارہ تھا،جس کے ذریعے جرمنی کے شہر کولون میں صرف دو گھنٹے کے سٹاپ اوور میں 128 ٹن فوجی سازوسامان براہ راست ناواٹیم ایئر بیس پر پہنچایا گیا۔ ان پروازوں کے اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ  صیہونی اڈہ اب نئے مغربی ہتھیاروں کی وصولی اور تقسیم کا مرکزی مقام بن چکا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ حالیہ جنگ میں اسرائیلی حکومت کے ہتھیاروں کے ڈپوہو چکے ہیں، اب ان کو دوبارہ بھرا جا رہا ہے۔ بعض ذرائع کادعویٰ ہے کہ جنگ بندی کے بعد امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سے 821 ٹن ہتھیار مقبوضہ فلسطین میں پہنچائے گئے ہیں۔

اس بارے میں پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے صیہونی حکومت کو بھاری اور بنکرشکن بموں سمیت 510 ملین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عراق، شام اور اردن کی فضاوں میں متعدد امریکی اور یورپی فوجی پروازیں دیکھی گئی ہیں جو صیہونی حکومت کی دفاعی اور جارحانہ صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی وسیع کوششوں کا حصہ ہیں۔ تاہم قابض صیہونی حکومت کو جدید مغربی ہتھیاروں سے لیس کرنا نہ صرف اس کی ایران کے خلاف ایک اور جنگ کے لیے آمادگی کا مظہر ہے بلکہ تل ابیب سے بیانات اور دھمکیاں بھی جاری ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ صیہونی رجیم نے ایران کے تباہ کن میزائل حملوں سے ابھی سبق نہیں سیکھا اور وہ اب بھی خطے میں ایک نئی مہم جوئی صیہونی لیڈروں کے ذہنوں پر سوار ہے۔ جیسا کہ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے چند روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ ایران کیخلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور آنے والے دنوں میں مزید ایرانی حکام اور کمانڈروں کو بھی قتل کردیا جائے گا۔ صہیونی فوج کے چیف آف اسٹاف ایال زمیر نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی صرف ایک وقفہ ہے اوریہ محاذ آرائی جاری رہیگی۔ سابق صیہونی وزیر خزانہ ایویگڈور لائبرمین نے بھی کہا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ ایک مشکل اور پیچیدہ تصادم کی تیاری کر رہے ہیں۔

ایران پر دوبارہ حملہ کے متعلق جنونی صیہونیوں کے بیانات مغربی ایشیا میں ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہیں۔ ایسا اقدام کشیدگی اور تصادم کو اس حد تک وسعت دے سکتا ہے کہ جو نہ صرف صیہونی حکومت کی سلامتی بلکہ اس کے مغربی حامیوں کے مفادات اور ان کی موجودہ حیثیت کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ بلاشبہ صیہونیوں کے لیے اس طرح کے فوجی مہم جوئی کی قیمت بہت بھاری اور ناقابل تلافی ہوگی۔ صیہونی حکومت کے مذکورہ اقدامات اور  دوبارہ حملے کی دھمکیوں کے باوجود، ایک بنیادی سوال تجزیہ کاروں اور حتیٰ کہ صہیونیوں کے ذہنوں میں بھی چھایا ہوا ہے کہ کیا صیہونی رجیم ایران کی طرف سے مزید دھچکا برداشت کر سکتی ہے؟

12 روزہ جنگ کے تلخ تجربے اور ایران کے بے مثال میزائل حملوں کے بعد کوئی بھی مہم جوئی صیہونی رجیم کے بھاری نقصان کا باعث ہوگی، جو اس بار ناقابل تلافی ہوگا۔ اس بارے میں مغربی ایشیائی امور کے ماہر حسن ھانی زادہ نے الوقت کو انٹرویو میں صیہونی رجیم کی مہم جوئی کو دیرینہ منصوبوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی رجیم نے امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبے کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ شام میں پیش آنے والے واقعات اور شیطانی سازشوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

لبنان میں حزب اللہ کے کمانڈروں اور یمن میں انصار اللہ کی شخصیات کی شہادتیں اس منصوبے کا حصہ تھیں، جس کا مقصد مغربی ایشیا کے لئے مجوزہ امریکی صیہونی منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنا اور خطے میں صیہونی رجیم کو پشت پناہی فراہم کرنا تھا، یہی وجہ تھی کہ ایران کیخلاف اچانک حملہ کیا گیا، جوہری ہتھیاروں کی تیاری ایک بہانہ تھا اور یہ ایران کے خلاف گہری سازش ہے۔ 12 دن یہ جنگ جاری رہی، بعد میں امریکہ نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا، یہ جنگ بندی پائیدار نہیں ہے۔ دراصل پینٹاگون اور قابض صیہونی فوج کے جرنیل  ایران کیخلاف جنگ کے دوران ظاہر ہونیوالی اپنے دفاعی نظام کی طاقت اور کمزوریوں کا ازالہ کر رہے ہیں اور ایران کی طاقت اور کمزوریوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

امکان ہے کہ یہ اپنی کمزوریاں ختم کرنے کے بعد دوبارہ ایران پر حملہ آور ہونگے۔ ھانی زادہ کے مطابق ایرانی مسلح افواج کی انگلی ٹریگر پر ہے اور وہ اسرائیل اور امریکہ کے مشترکہ حملے کو بے اثر کر سکتی ہے، لیکن خطرہ اب بھی برقرار ہے اور اگرچہ صیہونی حکومت کو ایران کے حالیہ حملوں میں شدید دھچکا لگا ہے، لیکن وہ اب بھی "نئے مشرق وسطیٰ" کے منصوبے پر عمل درآمد کو روکنے والے واحد عنصر کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ایران کو خطے میں ایک کمزور ملک کی صورت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ آیا تل ابیب وعدہ صادق 4 کیصورت میں ایرانی جوابی حملوں کو برداشت کرنیکی پوزیشن میں ہے یا نہیں؟ ھانی زادہ نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ ائیرڈیفنس کو دوبارہ سے ڈیزائن کرکے تیار کرنے پر منحصر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان کمزوریوں کو ختم کر دیا جاتا ہے، تو وہ زیادہ موثر اقدامات کے ساتھ اور زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ ایران پر حملہ کرینگے، وہ نیٹو جیسے اتحادیوں کے ذریعے ائیرڈیفنس کو وسعت بھی دے رہے ہیں، بظاہر اسرائیل دوبارہ جنگ کا خطرہ مول لے رہا ہے اور خطے میں ایک بڑی سرجری کی کوشش کر رہا ہے، تاہم مقبوضہ علاقوں میں صیہونی رجیم کی بہت سی کمزوریاں ہیں، دوبارہ صیہونی جارحیت کی صورت میں ایران ان کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا، اس بار صیہونی رجیم کو پہلے سے کہیں زیادہ نقصانات اور شکست کا سامنا ہوگا۔  

متعلقہ مضامین

  • ایران نے آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھانے کی تیاری کرلی تھی
  • ایران کیخلاف دوبارہ جنگ کی تیاریاں اور ان کے تباہ کن ممکنہ نتائج
  • بھارت کے سابق جرنیل کی اپنی مسلح افواج اور مودی سرکار کو اہم وارننگ
  • دو دہائیوں سے مسلح افواج نے دہشتگردی خلاف جنگ میں موثر کردار ادا کیا: بلاول بھٹو
  • چوہدری نثار کی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا امکان نہیں، قریبی ذرائع
  • ایران نے آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھانے کی تیاری کرلی تھی: امریکی انٹیلی جنس
  • تارا محمود نے اپنے کیریئر کے سب سے انوکھے کردار سے پردہ اٹھادیا
  • ایران نے آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھانے کی تیاری کرلی تھی: امریکی انٹیلی جنس کا دعویٰ
  • سوات سانحہ مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے، ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے ، فرخ خان