توہینِ مذہب مقدمات میں الزامات کی نوعیت مشکوک؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایف آئی اے پر شدید اظہارِ برہمی، تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اسلام آباد(ابراہیم عباسی)اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں لگائے گئے الزامات کی نوعیت اور ان پر ہونے والی تفتیش کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی تفتیشی کارکردگی پر سخت سوالات اٹھائے اور کئی مقامات پر شدید اظہارِ برہمی کیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ توہینِ مذہب کے ان مقدمات میں سزا پانے والے 93 قیدیوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں حیران کن طور پر سب کے بیانات ایک جیسے تھے۔ جسٹس سردار اعجاز اس پر حیران ہوئے اور ریمارکس دیے کہ ایک قیدی سندھ سے، ایک لاہور سے اور ایک بلوچستان سے ہے، پھر بھی ان کے بیانات میں اتنا اتفاق کیسے ہو سکتا ہے؟
جسٹس اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ تمام قیدیوں نے راؤ عبدالرحیم، حسن معاویہ، ایمان اور شیراز فاروقی کے نام لیے، جو اس معاملے میں غور طلب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ HRCP کی رپورٹ ایف آئی اے کو بھیجی گئی، لیکن ایف آئی اے کی طرف سے جو جواب دیا گیا وہ کسی طالبعلم کی تحریر لگتی ہے۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ ایف آئی اے جیسے ادارے کے اعلیٰ افسران نے ایک سنجیدہ نوعیت کی رپورٹ پر نہ تو کوئی باضابطہ ردعمل دیا اور نہ ہی کسی اعلیٰ افسر کو تحقیقات کیلئے مقرر کیا۔ جسٹس اعجاز اسحاق نے کہا کہ اگر ایک قانونی اور ادارہ جاتی رپورٹ پر بھی صرف آدھے صفحے میں جواب دیا جائے تو ایسی انویسٹی گیشن ایجنسی پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ “یہ کام تو ایک کانسٹیبل بھی کر سکتا ہے، ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔” عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا کسی کیس میں مدعی کے موبائل کا فرانزک کیا گیا؟ اور کیا صرف ویڈیوز اور تصاویر کی بنیاد پر کارروائی شروع کر دی گئی؟
عدالت نے سماعت کے اختتام پر کیس کی مزید کارروائی 10 جولائی تک ملتوی کر دی اور تجویز دی کہ اس سارے معاملے کی شفاف تحقیقات کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ سچ عوام کے سامنے آ سکے۔
مزیدپڑھیں:عدالت کا یوٹیوب کو 27 چینلز بلاک کرنے کا حکم
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایف آئی اے
پڑھیں:
مدارس کو مشکوک بنانے کی سازشیں ناکام ہوں گی، علامہ راشد سومرو
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے رہنما جے یو آئی نے کہا کہ علماء دین کے سپاہی اور ملت کے رہبر ہیں، دولت یا دباؤ سے خریدے نہیں جا سکتے، چند روپیوں کے عوض علماء کے ضمیر خریدنے کا خواب دیکھنے والے خود ذلت و رسوائی کا شکار ہوں گے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو نے کہا ہے کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی بات کرنے والے دراصل خود قومی دھارے سے کٹے ہوئے ہیں کیونکہ دینی مدارس ہی اصل قومی دھارا ہیں جو صدیوں سے ایمان، اخلاق اور خدمت خلق کے فروغ میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے حکمران مغرب کی خوشنودی کے لیے اپنی تہذیب، مذہب اور نظریاتی اساس سے کٹتے جارہے ہیں، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خود کو دینی و قومی دھارے میں شامل کریں۔
علامہ راشد محمود سومرو نے کہا کہ مدارس کو مشکوک بنانے کی سازشیں ناکام ہوں گی، قوم کا اعتماد ہمیشہ علمائے کرام اور دینی اداروں پر قائم رہے گا۔ پنجاب میں علماء کرام کو 25 ہزار روپے دینے کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکمران کن قوتوں کے اشارے پر علماء کو خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء دین کے سپاہی اور ملت کے رہبر ہیں، دولت یا دباؤ سے خریدے نہیں جا سکتے۔ جے یو آئی رہنما نے کہا کہ چند روپیوں کے عوض علماء کے ضمیر خریدنے کا خواب دیکھنے والے خود ذلت و رسوائی کا شکار ہوں گے۔