ایران کا ایک بیلسٹک میزائل قطر میں امریکی فضائی اڈے العدید ایئر بیس پر گرا تھا. پینٹاگون
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 جولائی ۔2025 )امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے تصدیق کی کہ ایران کی جانب سے گزشتہ ماہ داغا گیا ایک بیلسٹک میزائل قطر میں واقع امریکی فضائی اڈے العدید ایئر بیس پر گرا تھا پینٹاگون کے چیف ترجمان شان پرنیل نے ترک نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں کہا کہ 23 جون 2025 کو ایران کا ایک بیلسٹک میزائل العد ید ایئر بیس پر آ کر گرا، جب کہ باقی میزائلوں کو امریکی اور قطری ایئر ڈیفنس سسٹمز نے کامیابی سے تباہ کر دیا تھا.
(جاری ہے)
شان پرنیل نے مزید کہا کہ اس حملے سے اڈے پر موجود ساز و سامان اور ڈھانچے کو معمولی نقصان پہنچا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا انہوں نے کہا کہ العدید ایئر بیس مکمل طور پر فعال ہے اور اپنے قطری شراکت داروں کے ساتھ مل کر خطے میں سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہے. ایران نے یہ میزائل حملہ 21 جون کو امریکی افواج کی جانب سے ایران کے 3 جوہری مقامات کو نشانہ بنانے کے بعد جوابی طور پر کیا تھا واقعے کے بعد امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) جو خطے میں امریکی افواج کی نگرانی کرتی ہے نے کہا کہ امریکی اور قطری افواج نے مل کر حملے کو کامیابی سے ناکام بنایا. امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین نے 26 جون کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ ایئر بیس پر حملے کو روکنا امریکی فوج کی تاریخ میں پیٹریاٹ میزائل سسٹم کا سب سے بڑا استعمال تھا کین نے کہا تھا کہ امریکی فوج کے ساتھ قطری پیٹریاٹ ٹیمیں بھی اس تنصیب کے دفاع میں شامل تھیں، اگرچہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے پیٹریاٹ میزائل داغے گئے مگر اتنا ضرور کہا کہ فضا میں بہت ساری دھات اڑ رہی تھی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایئر بیس پر کہا کہ
پڑھیں:
قطر میں امریکی اڈوں پر حملہ معمولی واقعہ نہیں تھا: آیت اللّٰہ علی خامنہ ای
تہران(نیوز ڈیسک)خلیجی خطے میں ایک مرتبہ پھر کشیدگی بڑھ گئی ہے، اور اس بار معاملہ صرف بیان بازی تک محدود نہیں رہا۔ 23 جون کو ایران کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملہ کیا گیا، جس کے بعد عالمی سیاسی و عسکری حلقے ہل کر رہ گئے۔ ایرانی سرکاری میڈیا نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ العديد ایئر بیس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللّٰہ علی خامنہ ای نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران امریکی اڈوں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مستقبل میں ایسا حملہ دوبارہ ہو سکتا ہے۔
حملے کے پس منظر میں کیا ہوا؟
واقعے سے ایک روز قبل یعنی 22 جون کو امریکا نے اسرائیل کی معاونت کرتے ہوئے ایران کی تین اہم نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ کیا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر تصدیق کی کہ ایران کے شہروں فردو، نطنز اور اصفحان میں واقع جوہری مراکز پر حملے کیے گئے، جن میں فردو تنصیب مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
ان حملوں کے بعد ایران کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا، جس کا اظہار پہلے فوجی کارروائی اور پھر بیانات کے ذریعے کیا گیا۔
ایرانی وزیرخارجہ کی شرائط: مذاکرات کی گنجائش باقی ہے؟
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے فرانسیسی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے اور مذاکرات کے دوران مزید حملے نہ کرنے کی تحریری ضمانت دے، تو ایران وقار اور باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے، اور ایران اس نقصان کا معاوضہ طلب کرنے کا حق رکھتا ہے۔ عباس عراقچی کی یہ باتیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ ایران محض جنگ کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتا، لیکن اگر چھیڑا گیا تو پیچھے بھی نہیں ہٹے گا۔
مستقبل کی صورتحال: کشیدگی بڑھے گی یا مذاکرات کا راستہ نکلے گا؟
یہ سوال اس وقت سب کے ذہن میں ہے کہ آیا امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی یا کوئی سفارتی حل نکل آئے گا۔ آیت اللّٰہ خامنہ ای کا بیان اور قطر میں امریکی اڈے پر حملہ ایک سخت پیغام ضرور ہے، لیکن عباس عراقچی کی مذاکرات کی مشروط پیشکش امید کی ایک کرن بھی دکھا رہی ہے۔
تاہم اگر امریکا کی جانب سے جارحانہ رویہ جاری رہا، تو ایران کی طرف سے جوابی کارروائیاں نہ صرف ممکن ہیں بلکہ مزید سنگین صورت اختیار کر سکتی ہیں، جو پورے مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام کا شکار کر سکتی ہیں۔
خطے میں امن کا واحد راستہ،باہمی احترام اور سیاسی حکمت
قطر میں امریکی اڈوں پر ایرانی حملہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن اور خطے کے استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایران نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری اور جوہری اثاثوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایران نے مذاکرات کے دروازے بھی بند نہیں کیے، جو کہ ایک مثبت اشارہ ہے۔
یہ وقت ہے کہ عالمی طاقتیں بالخصوص امریکا اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کریں اور خطے میں پائیدار امن کے لیے باہمی احترام اور سفارتی راستے کو ترجیح دیں۔
Post Views: 4