سال 2025 کا کرم دیرپا امن کی جُستجو، کامیابی کی داستاں پر ویڈیو دیکھیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
پشاور:
آج سے تقریباً ایک سال پہلے، 2024 کے دوران خیبر پختونخوا کا ضلع کرم پاکستان میں تقریباً ہر نیوز ہیڈلائن کی زینت تھا اور فرقہ ورانہ لڑائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں بے گناہ افراد اپنی جان قربان کر چکے تھے۔
ٹل، پاڑا چنار مین شاہراہ بند تھی اور زندگی مشکل تھی مگر آج، اگست 2025 کے کُرم کو دیکھیں تو الحمد للہ، چیزیں خاصی بہتر نظر آتی ہیں- کچھ مقامات پہ فتنتہ الخوارج کی وجہ سے ہونے والے اکا دکا چھوٹے واقعات کے علاوہ کچھ بھی برا نظر نہیں آ رہا۔
ایسا کیا ہوا؟؟ روڈ پروٹیکشن فورس (RPF) کا قیام کیسے کیا ہے اور اس کو کیسے عمل میں لایا گیا؟ لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں ریاست کے پاس اسلحہ کیسے جمع کروایا؟ مقامی آبادی کیسے 983 بنکرز توڑنے پہ رضا مند ہوئی؟؟ سڑک پر ٹریفک کیسے رواں دواں ہے؟
بگن بازار اب کس حالت میں ہے؟ مقامی مشران اور لیڈرز نے امن کے لیے کیا کردار ادا کیا؟ ریاستی اداروں اور صوبائی حکومت کا کیا کردار رہا؟
آئیے دیکھتے ہیں اس ویڈیو میں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
یہ نیو یارک کا الیکشن تھا بھائی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گزشتہ کئی ہفتوں سے بہت زورو شور سے ایک بحث چل رہی تھی کہ نیویارک میں مئیر کے الیکشن میں زہران ممدانی کی کامیابی سے کیا اثرات ہوں گے؟ اس وقت بار بار یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ گویا ممدانی کی کامیابی عالم اسلام کی کامیابی ہے، اور جب ایسی باتیں ہوتی ہیں تو سادہ لوح عوام یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ممدانی کوئی اسلامی تحریک کے رہنما ہیں، وہ کوئی انقلاب لا رہے ہیں، اس دوران کئی مرتبہ قلم لکھنے کو بے چین ہوا لیکن ہم نے اس اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھنے کا انتظار کیا اور جب یہ حلف برداری کے بعد بیٹھنا شروع ہوا اور ٹرمپ اور ممدانی کی ملاقات کے بعد یہ مکمل طور پر بیٹھ گیا ہے اور اب سب کو اندازہ ہوجائے گا کہ نیو یارک کا مئیر نیو یارک کا مئیر ہے، وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے اور ناکام بھی، اس کی کامیابی کو تو ہم عالم اسلام کی کامیابی سمجھیں گے لیکن کیا ہم میں سے کوئی اس کی ناکامی کو اپنی ناکامی قبول کرنے پر تیار ہوگا؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوگا۔
اس معاملے میں کچھ باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور کچھ چیزوں کو خلط ملط ہونے سے بچانا ہوگا، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات بہت واضح ہے کہ یہ نیو یارک کے مئیر کا الیکشن تھا اس کے فائدے اور نقصانات سب نیو یارک والوں کو ہوں گے، ہاں ہم بہت زیادہ شور مچا کر یا اسے اسلام اور کفر کی جنگ بنا کر نیو یارک اور امریکا کے مسلمانوں کے لیے تو مشکلات پیدا کرسکتے ہیں، کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے، اِسی طرح نیو یارک یا کسی بھی شہر کے مئیر کا الیکشن ہو یہ امریکی قوانین اور آئین کے مطابق امریکیوں کے مفادات کے تحفظ اور انہیں سہولتیں پہنچانے کے لیے ہوتے ہیں، ان کا عالمی اور بین الاقوامی سیاست سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا، ہاں ان میں حوالے، سیاسی نعرے الزامات وغیرہ سب آتے ہیں لیکن امریکی عوام پاکستانی عوام کی طرح محض نعرے اور پروپیگنڈے کی بنیادوں پر ووٹ نہیں دیتے، ان کے اپنے معیارات ہوتے ہیں۔ ایک اور بات بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اب الیکشن ہوچکے ہیں اور اب ٹرمپ اور ممدانی کی ملاقات بھی ہوچکی ہے، اور کئی چیزیں سامنے آچکی ہیں ٹرمپ نے یوٹرن بھی لے لیا ہے اور ممدانی کے خلاف لگنے والے الزامات کو سیاسی نعرے قرار دیکر انہیں معقول آدمی قرار دے دیا۔ اور نیو یارک کی ترقی کے لیے ہر ممکن تعاون کا اعلان کردیا، اسے بھی ٹرمپ کی ناکامی یا ممدانی کی کامیابی نہ سمجھا جائے یہ امریکی سیاسی نظام کا حصہ ہے، اور ٹرمپ یا ممدانی پاکستانی سیاستدانوں کی طرح دشمنی کا انداز اختیار کرکے اس سیاست کو زیادہ دن جاری نہیں رکھ سکتے تھے، اسے ختم ہونا ہی تھا، اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ٹرمپ اور دوسری قوتیں ممدانی سے اختلافات کو ختم کرچکے ہیں، ان کی سیاسی مخالفت بھی ترک کرچکے ہیں، وہ یہ کام بھی کرتے رہیں گے اور پاکستان کی طرح مخالف مئیر، ٹائون و یوسی چیئر مین کے فنڈز بند نہیں کرتے۔ تازہ ملاقات میں بھی کوئی مقابلہ تو نہیں ہوا لیکن دونوں لیڈر اپنے اپنے موقف پر قائم رہے اور ملاقات کا فائدہ نیویارک کے عوام کو ہوا، اس معاملے کو مکمل طور پر اسرائیل حماس تنازع سے نہیں جوڑا جاسکتا، لیکن اس انتخابی مہم میں یہ استعمال ہوا ہے، اسی طرح ہار جیت کو بھی اس معاملے کی فتح یا شکست نہیں کہہ سکتے، جیسے پاکستانی سیاست میں امریکی ایجنٹ، بھارتی ایجنٹ اور اب اسرائیلی، افغان اور ٹی ٹی پی ایجنٹ کے الزامات لگتے رہے ہیں اور ان الزامات کے تقریباً تمام ہی کبھی نہ کبھی یہاں الیکشن جیت چکے ہیں اس کا مطلب بھی ان الزامات کی تصدیق نہیں ہوتا، بس یہ نعرے ہیں، لہٰذا ایسے معاملات کا پورا پورا اطلاق نہیں ہوتا۔
بہر حال جو چیزیں سامنے آئی ہیں ان میں فلسطین، اسلامو فوبیا وغیرہ سامنے آئے، ممدانی کا کمیونسٹ ہونا بھی موضوع بنا لیکن مسائل اور ان کا حل سرفہرست رہا بلکہ ان سب کی لڑائی کے باوجود امریکا، امریکی آئین اور عوام سرفہرست رہے، ہمارے سیاست دانوں، میڈیا، اور عوام کو بھی اس معاملے کو قومی مفاد کے نقطہ ٔ نظر سے دیکھنا ہوگا۔