پاکستانی دنیا میں سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 اگست2025ء) 1 سال میں 12 ہزار ارب روپے ٹیکس دینے والی عوام پر احسن اقبال کی تنقید، کہا پاکستانی دنیا میں سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں، اخراجات کے لیے آج بھی قرض لینا پڑتا ہے، بجٹ خسارہ 6 فیصد سے زائد ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستانی دنیا میں سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں، مضبوط معیشت کی بنیاد ٹیکس، برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری پر ہوتی ہے۔
کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ دو سال قبل بحرانی صورت حال تھی، یکم اپریل 2022 کو اندرونی طور پر ڈیفالٹ کرچکے تھے، شرطیں لگ رہی تھیں کہ بیرونی ڈیفالٹ کب ہوتا ہے۔ احسن اقبال نے کہا ہے کہ قوم نے ان مشکل فیصلوں میں ساتھ دیا ہے، آج ہمیں میکرو اکنامک بدلاؤ قرار دیا جا رہا ہے، شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آگئی، ہر ریٹنگ ایجنسی نے ہماری ریٹنگ بہتر کی ہے۔(جاری ہے)
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مہلت ملی ہے کہ نئی اڑان بھر سکیں، اس سے پہلے 3 اڑانیں بھریں جو کریش ہوئیں، ضمنی انتخابات میں اس وقت کی حکومت ناکام ہو رہی تھی، اس وقت ہماری مقبولیت عروج پر تھی۔ وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ دیگر اخراجات کے لیے آج بھی قرض لینا پڑتا ہے، بجٹ خسارہ 6 فیصد سے زائد ہے، ہماری ایکسپورٹ باقی دنیا کے مقابلے میں نہیں بڑھ سکی ہے، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ریس لگی ہوئی ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ این ایف سی کی وجہ سے 60 فیصد آمدن صوبوں کو چلی جاتی تھی، باقی 40 فیصد دو سال قبل قرضوں کی ادائیگی میں چلی جاتی تھی، دو سال میں اصلاحات سے 2800 ارب کی گنجائش پیدا کر لی ہے، اس گنجائش کی وجہ سے دفاع کے 2500 ارب خود خرچ کر رہے ہیں۔ یہاں واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ایف بی آر پاکستانیوں سے مجموعی طور پر 11 ہزار 700 ارب روپے سے زائد اکٹھے کرنے میں کامیاب رہا تھا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا ہے کہ احسن اقبال
پڑھیں:
آزاد کشمیر مذاکرات: معاہدے پر اتفاق، آئینی کمیٹی بنائیں گے، فیصلہ سب کو قبول ہو گا: احسن اقبال
مظفر آباد (نوائے وقت رپورٹ) رکن حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ معاہدے پر اصولی اتفاق رائے کر لیا ہے۔ بہت جلد معاہدے پر باضابطہ دستخط بھی ہو جائیں گے۔ بڑے پیمانے پر خونریزی اور بدامنی چاہنے والے ناکام ہو گئے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی تجاویز کو ہم نے فوراً منظور کر لیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ جیت پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام اور جمہوریت کی ہے۔ امور کشمیر کے وزیر کی سربراہی میں ہر 15 روز میں کمیٹی کا اجلاس ہو گا۔ وزیر امور کشمیر کی نگرانی میں ایک مستقل کمیٹی بنائی ہے۔ اجلاس میں مطالبات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔ معاہدے کے مسودے پر دونوں اطراف سے غور کیا جا رہا ہے۔ مہاجرین کی نشستوں سے متعلق ایک آئینی ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ آئینی ماہرین کی کمیٹی تمام پہلوؤں کا جائزہ لیکر فیصلہ کرے گی۔ کمیٹی کے جائزے کے بعد جو فیصلہ کیا جائے گا وہ سب کو قبول ہو گا۔ یہ آئینی معاملہ ہے اس میں جلد بازی نہیں کی جائے گی۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن طارق فضل چودھری نے تصدیق کی ہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی آزاد جموں و کشمیر سے معاملات طے پا گئے ہیں۔ جلد حتمی معاہدے پر دستخط متوقع ہیں۔ مذاکرات کا آخری دور جاری ہے۔ عوامی مفادات اور امن ہماری اولین ترجیح ہے۔ میڈیا کے مطابق حکومت کی طرف سے مذاکرات میں سینیٹر رانا ثناء اللہ، احسن اقبال اور سردار یوسف، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، قمر زمان کائرہ اور انجینئر امیر مقام شریک ہیں جبکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان بھی مذاکرات کا حصہ ہیں۔ آزاد کشمیر کی حکومتی مذاکراتی کمیٹی بھی اجلاس میں شریک ہے جبکہ شوکت نواز میر، راجہ امجد ایڈووکیٹ اور انجم زمان عوامی ایکشن کمیٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ قبل ازیں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کے معاملے پر بہت سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے۔ ان 12 نشستوں کے ووٹرز کا تعلق کشمیر سے ہے۔ ان افراد کا کشمیر سے تعلق اس طرح ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقصد کیلئے آئینی پیکج اور سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ آزاد کشمیر کے معاملے پر وہاں کی سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسے کام عجلت میں کیوں کئے جا رہے ہیں۔ ووٹ کا حق بنیادی حق ہے ایسے حقوق پر بھرپور بحث ہونی چاہئے۔ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہمارے کشمیر کاز کو نقصان پہنچائے گی۔ جب سیاست کی بات ہونی ہے تو قانونی‘ آئینی نقاط پر ٹھنڈے دل سے بات کرنی چاہئے۔ ہمیں آئینی اور قانونی نقاط پر سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے اور حل تلاش کرنا چاہئے۔ یہ لوگ بھارت کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے اور پاکستان کی خاطر بے گھر ہوئے۔ ان لوگوں کو پاکستان نے مہمانوں کی طرح آباد کیا۔