کم عمر صارفین بھی اب فیس بک پر اکاؤنٹ بنا سکیں گے
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
کراچی:
میٹا نے کم عمر نوجوانوں کے تحفظ اور والدین کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے (Teen Accounts) متعارف کروا دیے ہیں۔
یہ خصوصی اکاؤنٹس کم عمر نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ میٹا نے اب تک دنیا بھر میں انسٹاگرام، فیس بک اور میسنجر پر کروڑوں نوجوانوں کو ٹین اکاؤنٹس میں شامل کیا ہے۔
انسٹاگرام پر یہ سہولت پہلے ہی دنیا بھر میں دستیاب ہے اور اب فیس بک اور میسنجر پر بھی پاکستان سمیت عالمی سطح پر نوجوانوں کے لیے اس سہولت کو بڑھایا جا رہا ہے۔
ٹین اکاؤنٹس میں دی گئی حفاظتی سہولتیں والدین کے سب سے بڑے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی ہیں۔ ان میں خودکار نظام کے ذریعے یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ نوجوان کس سے بات کر رہے ہیں، کون سا مواد دیکھ رہے ہیں، اور کیا ان کا وقت بہتر انداز میں صرف ہو رہا ہے۔
اگرچہ اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت موجود ہے، تاہم میٹا کے لیے یہ حوصلہ افزا ہے کہ ٹین اکاؤنٹس والدین کو نوجوانوں کے آن لائن تجربات کے بارے میں زیادہ اعتماد اور اطمینان فراہم کر رہے ہیں۔
میٹا اس ہفتے سے ہی پاکستان میں نئے صارفین کے ساتھ ساتھ ان کم عمر نوجوانوں کو بھی، جو پہلے سے فیس بک اور میسنجر استعمال کر رہے ہیں، ٹین اکاؤنٹس میں منتقل کرنا شروع کر دے گا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹین اکاؤنٹس رہے ہیں فیس بک
پڑھیں:
نوابشاہ ،نجی اسکولز کی لوٹ مار،ایجوکیشن ایکٹ کی کھلی خلاف ورزیاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250924-11-14
نوابشاہ (نمائندہ جسارت)نواب شاہ میں تعلیم کے نام پر کاروبار عروج پر پہنچ چکا ہے۔ شہر اور اطراف کے بیشتر نجی اسکولز حکومتِ سندھ کے بنائے گئے قوانین اور ایجوکیشن ایکٹ 2013 کی صریح خلاف ورزی کر رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے محکمہ تعلیم اور ڈائریکٹوریٹ آف پرائیوٹ انسٹی ٹیوشنز نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔والدین کی جیبوں پر ڈاکہ شہر کے کئی اسکولز بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں، مگر نہ تو معیاری سہولتیں دی جا رہی ہیں اور نہ ہی ایجوکیشن ایکٹ کے تحت غریب اور مستحق بچوں کے لیے 10 فیصد فری نشستیں دی جا رہی ہیں۔ والدین کا کہنا ہے کہ “فیس ہر سال بڑھا دی جاتی ہے، لیکن کلاس رومز تنگ، لائبریری اور لیب موجود نہیں، اور بچے گرمی میں پنکھے تک کے بغیر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔سندھ حکومت کے مطابق نجی اسکولز کے لیے کم از کم پلاٹ سائز 600 گز تک10 سے 15 کمریسائنس و کمپیوٹر لیب لائبریری صاف پانی اور بیت الخلا لازمی ہیں۔ لیکن نواب شاہ میں بیشتر اسکول کرائے کی چھوٹی عمارتوں میں قائم ہیں جہاں یہ بنیادی سہولتیں سرے سے موجود ہی نہیں۔قانون کے مطابق ہر بچے کو 5 سے 16 سال کی عمر میں مفت اور لازمی تعلیم دینا حکومت اور نجی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ نجی اسکولز پر لازم ہے کہ کم از کم 10 فیصد طلبہ کو مفت تعلیم دیں، لیکن نواب شاہ میں بیشتر اسکول نہ صرف اس قانون کو نظر انداز کر رہے ہیں بلکہ بعض نے والدین کو دھمکایا کہ اگر فیس نہ دی تو بچوں کو نکال دیا جائے گا۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف پرائیوٹ اسکولز نواب شاہ کے معاملات پر بالکل خاموش ہے۔ نہ چھاپے مارے جاتے ہیں، نہ اسکولوں کے معیار کی جانچ ہوتی ہے۔ والدین الزام لگاتے ہیں کہ محکمہ تعلیم کے بعض افسران اسکول مالکان سے ساز باز کر کے معاملات کو دبائے بیٹھے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ والدین مالی طور پر کچلے جا رہے ہیں اور بچے معیاری تعلیم اور سہولتوں سے محروم ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت سندھ اور محکمہ تعلیم فوری ایکشن لیں، اسکولز کا آڈٹ کریں، فیسوں کو ریگولیٹ کریں اور ایجوکیشن ایکٹ 2013ء پر سختی سے عمل درآمد کرائیں۔