گرفتاری سے بچنے کیلئے نیتن یاہو کو کیا کیا جتن کرنے پڑ رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اگر اسرائیلی وزیراعظم کسی ایسے ملک کی زمینی یا فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں جو عالمی عدالت کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کرنا چاہے تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ عالمی عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے وارنٹِ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے کوئی بھی ملک انھیں حراست میں لے سکتا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اگر اسرائیلی وزیراعظم کسی ایسے ملک کی زمینی یا فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں جو عالمی عدالت کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کرنا چاہے تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو زمینی یا فضائی سفر کے دوران بھی بچ بچا کر نکلنا ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے انھیں دگنا فاصلہ طے کرنا پڑے۔ جیسا کہ نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہوا جہاں شرکت کے لیے نیتن یاہو کو پہنچنا تھا۔ تاہم تل ابیب سے نیویارک براہِ راست فضائی سفر یورپی ممالک کے اوپر کرنا پڑتا اور ممکنہ طور کوئی بھی ملک انھیں روک سکتا تھا یا گرفتار بھی کرسکتا تھا۔
چنانچنہ اسرائیلی وزیراعظم نے اسی میں عافیت جانی کہ ان کا طیارہ فرانس، اسپین، پرتگال، آئرلینڈ اور برطانیہ کی فضائی حدود سے بچتے ہوئے سیدھا بحیرۂ روم کے اوپر سے اُڑا اور پھر آبنائے جبرالٹر کا طویل چکر کاٹ کر امریکا پہنچا۔ نیتن یاہو جلیبی کی طرح گول دائروں میں گھومتے گھماتے امریکا تو پہنچ گئے لیکن ہوٹل سے لیکر اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر تک مظاہرین نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اسرائیلی وزیراعظم جیسے تیسے اقوام متحدہ کی عمارت میں داخل تو ہوگئے لیکن جیسے ہی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے لگے متعدد ممالک واک آؤٹ کرگئے۔ یوں نیتن یاہو کو خالی نشستوں سے اپنا خطاب کرنا پڑا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو
پڑھیں:
یورپی ملک سلووینیا نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر پابندی عائد کردی
یورپی ملک سلووینیا نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پر سفری پابندی عائد کر دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سلووینیا نے یہ فیصلہ غزہ میں جاری جنگ اور انسانی حقوق کی مبینہ سنگین خلاف ورزیوں کے تناظر میں کیا ہے۔
حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو سمیت ان اسرائیلی رہنماؤں کو سفری پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا جو فلسطینی عوام کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ سلووینیا نے فلسطین کو گزشتہ برس فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا جب کہ رواں برس اگست میں اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی اور اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں کی اشیا کی درآمد پر بھی پابندی عائد کی تھی۔
یہ اقدامات یورپ میں اسرائیلی پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کا عکاس ہے، جہاں کئی ممالک اسرائیل کی عسکری کارروائیوں اور فلسطینی علاقوں میں بستیوں کے پھیلاؤ کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔