ویڈیو لنک ٹرائل کہہ کر دھوکے سے حاضری لگوائی گئی، عمران خان اب پیش نہیں ہونگے، علیمہ خان
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن)بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے کہا ہے کہ ویڈیو لنک ٹرائل کہہ کر دھوکے سے حاضری لگوائی گئی، عمران خان اب پیش نہیں ہوں گے،عمران خان کے لیے نئی نئی غیر قانونی چیزیں ایجاد کر رہے ہیں ، ججز اور پراسیکیوشن کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
کچہری میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کو غلط بیانی سے ایک کمرے میں لے جاکر ویڈیو لنک میں ان کی حاضری لگوائی گئی ۔ ویڈیو لنک میں 3 بار پیش کیا گیا مگر مجھے کوئی آواز نہیں آئی کہ کیا ہو رہا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ عمران خان کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے سیل سے بالکل باہر نہیں نکلیں گے۔ نہ ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ غیر قانونی ٹرائل ہے، جس میں وکلا کے بغیر میں پیش نہیں ہوں گا۔
بھارتی میڈیا جھوٹی خبریں چلا رہا ہے،میں نے کسی سے معذرت نہیں کی ،محسن نقوی
علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان کے لیے نئی نئی غیر قانونی چیزیں ایجاد کر رہے ہیں ۔ یہ ججز اور پراسیکیوشن کو نہیں کرنی چاہیے ۔ ہم امید کرتے ہیں عمران خان کو فیئر ٹرائل کا حق ملے گا۔ یا وہ کورٹ میں پیش ہوں گے یا کورٹ ان کے پاس اڈیالہ جیل جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے کی خبر کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں ہے۔ نہ ہمارے پاس ایسی کوئی خبر ہے نہ ہمارے وکلا کو کچھ پتا ہے۔
اس موقع پر علیمہ خان کے وکیل فیصل ملک نے انسداد دہشت گردی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علیمہ خان پر جعلی اور بوگس مقدمہ بنایا گیا ہے۔ کیس کی سماعت 8 اکتوبر کو چارج فریم کرنے کیلئے فکس کی گئی ہے۔ چالان کی نقول عدالت نے تقسیم کیں، وہ آج وصول کر لی گئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ علیمہ خان پر چارج لگایا گیا کہ وہ عمران خان سے ملیں اور ان سے ملنے کے بعد میڈیا پر آکر گفتگو کی ۔ علیمہ خان نے جو بھی میڈیا سے گفتگو کی وہ قانونی تھی اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی ۔ عمران خان کا ویڈیو لنک سے ٹرائل آئینی و قانونی حقوق کے خلاف ہے، ہم اس کو مسترد کرتے ہیں ۔ ویڈیو لنک کے ذریعے ٹرائل کے خلاف پٹیشن ہائیکورٹ میں پیر کو لگی ہوئی ہے۔
پنجاب حکومت کا مہمان آبی پرندوں کے شکار کی اجازت دینے کا اعلان
قبل ازیں 26 نومبر ڈی چوک احتجاج کے سلسلے میں تھانہ صادق آباد میں درج مقدمہ میں علیمہ خان اپنی بہنوں نورین خان اور ڈاکٹر عظمی خان کے ساتھ انسداد دہشت گردی عدالت پہنچیں، جہاں انہیں چالان کی نقول دی گئیں۔ آئندہ سماعت پر عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد کی جائے گی۔
اڈیالہ آمد سے قبل انسداد دہشتگری عدالت راولپنڈی کے باہر علیمہ خان کی گفتگو
????عمران خان نے ہمیں بتایا کہ مجھے غلط بیانی کر کے دھوکہ دے کر ساتھ والے کمرے میں لے گئے اور کہا یہ فون لیں اور بات کریں میں نے کہا مجھے نا تو کوئی نظر آ رہا ہے نا ہی آواز آ رہی ہے تو مجھے پتہ چلا یہ میری… pic.
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: علیمہ خان نے کہ عمران خان عمران خان کا ویڈیو لنک نے کہا خان کے کہا کہ
پڑھیں:
جنات، سیاست اور ریاست
معروف اور موقر مغربی جریدے ’اکانومسٹ‘ کی حالیہ رپورٹ نے پاکستانی سیاست کے اس پراسرار گوشے کو پھر کھول کر سامنے رکھ دیا ہے جہاں حکمرانی کا تعلق مشاورت، قانون یا ریاستی نظام سے کم اور تعویزوں، کالے بکروں، صدقوں، چِلّوں، کالے جادو، بھوت پریت، جنات اور گھڑے میں پرچیاں ڈال کر فیصلے کرنے جیسے طریقوں سے زیادہ رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عمران خان کے دورِ حکومت میں بڑے فیصلوں کی بنیاد وہ ’روحانی اشارے‘ تھے جو بشریٰ بی بی تک کبھی کسی مراقبے، کبھی کسی چِلّے اور کبھی کسی غیر مرئی قوت کی طرف سے پہنچائے جاتے تھے۔
پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کی تقرری ہو یا اہم تعیناتیاں، بیوروکریسی کی تبدیلیاں ہوں یا سیاسی حکمتِ عملی ہر جگہ یہ تاثر دیا گیا کہ اہم فیصلوں کے پیچھے وہ سرگوشیاں تھیں جن کا تعلق دنیا سے زیادہ کسی اَن دیکھی طاقت سے تھا۔
کبھی کالے جادو سے دشمنوں کو ’بھسم‘ کر دینے کا ذکر، کبھی صدقے کے لیے کالے بکرے کا انتظام، کبھی چِلّوں کی محفل میں سنی گئی ہدایات، اور کبھی گھڑے میں پرچیاں ڈال کر طے کیے گئے نام۔ یوں لگتا تھا جیسے ریاست کے فیصلے دنیاوی عقل سے زیادہ غیر مرئی پیغام رسانی پر چل رہے ہوں۔
لیکن ان تمام حیرت انگیز باتوں کے باوجود اصل سوال وہی ہے: کیا عمران خان اس سب سے لاعلم تھے؟ کیا وہ واقعی اس پورے سلسلے کے محض تماشائی تھے؟ یا اس پورے ماحول کو وہ خود اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے؟
عمران خان کی سیاسی شخصیت ہمیشہ سے ایسی رہی ہے کہ وہ اپنے فائدے کو مقدم رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کے متعلق یہ خیال کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی ہی حکومت میں تعویز، چِلّوں، مراقبوں اور ’غیبی مشوروں‘ کے بڑھتے ہوئے اثر سے بے خبر رہے ہوں گے۔ وزیراعظم ہاؤس کے اندر کوئی بھی سرگرمی اس وقت تک وزن نہیں رکھتی جب تک حکمران خود اسے اہمیت نہ دے۔
اگر یہ سب کچھ بشریٰ بی بی کے اردگرد ممکن ہو رہا تھا، تو عمران خان کی خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ فائدہ انہی کو پہنچ رہا تھا۔
مثلاً عثمان بزدار کی بطورِ وزیراعلیٰ تقرری بہت عرصے تک ایک سیاسی معمہ رہی۔ اس فیصلے کو جب روحانی مشوروں یا جنات کے اشاروں سے جوڑا گیا تو گویا ایک ایسا جواز مہیا کر دیا گیا جس سے عمران خان کی براہِ راست ذمہ داری کم دکھائی جا سکے۔ لیکن حقیقت برعکس ہے:
کمزور وزیراعلیٰ ہمیشہ طاقتور وزیراعظم کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر بزدار کی تقرری کسی مراقبے میں ملنے والے اشارے یا گھڑے کی پرچی سے ’طے‘ ہوئی، تو بھی آخری فیصلہ عمران خان نے ہی کیا اور وہی اس سے سیاسی طور پر سب سے زیادہ مستفید ہوئے۔
اسی طرح انتظامی تقرریوں اور تبدیلیوں میں اگر تعویز گنڈے، صدقے یا چِلّوں کی روشنی میں فیصلے کیے گئے، تو یہ سب اسی صورت میں اہمیت رکھتے ہیں جب حکمران انہیں روکتا نہ ہو۔ اگر کسی چِلّے میں سنی گئی ہدایت کے مطابق کوئی افسر تبدیل ہوتا تھا، اگر کسی غیر مرئی قوت کے ’اشارے‘ پر کوئی فیصلہ ہوتا تھا، تو عمران خان اس سب سے غافل نہیں ہو سکتے تھے۔ اور اگر غافل تھے تو یہ مزید سنگین ہے، مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ہر بات سے آگاہ تھے اور اسے اپنے فائدے کے لیے جاری رہنے دیتے تھے۔
یہ بات بھی زیرِ غور رہنی چاہیے کہ اگر ایجنسیاں واقعی بشریٰ بی بی کے ذریعے کپتان کو پیغام پہنچاتی تھیں، تو یہ سلسلہ عمران خان کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا تھا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیراعظم کی شریکِ حیات تک حساس نوعیت کی باتیں پہنچ رہی ہوں اور وزیراعظم لاعلم رہیں۔ اگر وہ اسے برداشت کرتے رہے تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ یہ نظام اُن کے اقتدار کو سہارا دیتا تھا۔ یوں بشریٰ بی بی صرف ایک ذریعہ تھیں، اصل فائدہ عمران خان کو ہی ملتا تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پوری کہانی میں کوئی بھی مکمل طور پر پاک دامن نہیں تھا۔ نہ تعویز کرنے والے اس سب کچھ میں بے قصور تھے، نہ وہ حلقے جو ’روحانی مشورے‘ پہنچاتے تھے، اور نہ وہ حکمران جو ان اشاروں کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا رہا۔ سب اپنے اپنے مقام پر شریکِ جرم تھے۔ جنات، کالے بکرے، بھوت پریت، چِلّے اور گھڑے کی پرچیاں چل رہی تھیں، مگر ان سرگرمیوں کے سیاسی نتائج ہمیشہ عمران خان کے ہاتھ میں آ کر ٹھہرتے تھے۔
بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس پوری ناکامی کا بوجھ کسی ایک کردار پر ڈال دیا جائے، مگر تصویر واضح ہے:
نہ کوئی یکسر معصوم تھا نہ کوئی یکسر ناتجربہ کار۔ یہ ایک مشترکہ بندوبست تھا جس میں ہر کردار اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ غیر مرئی قوتوں کا ذکر محض وہ پردہ تھا جو سیاسی اختیار کو لپیٹنے کے لیے اوڑھا گیا تھا۔
اکانومسٹ کی رپورٹ نے جو نقشہ کھینچا ہے، وہ صرف ایک شخص یا ایک کردار کی کہانی نہیں۔ یہ پوری حکومتی سوچ، پورے سیاسی انداز، اور پورے ریاستی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ اور اس نقشے کے وسط میں فیصلہ ساز وہی تھا جس کے دستخط ہر کاغذ پر موجود تھے: عمران خان۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔