اونچ نیچ
۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔۔
ہوسکتا ہے آپ یہ سن کر ہکا بکا رہ جائیں کہ ہم سب اپنی زندگی کو جیے جانے کے بجائے اسی ملتوی پہ ملتوی کیے جارہے ہیں۔ ہم آج کو چھوڑ کر ایسے کل کے انتظار میں ہیں، جسے کبھی نہیں آنا ہے۔ آئیں پہلے آرتھر گورڈن کی اپنی ذاتی کہانی جس کاعنوان The Turn of the Tides ہے کو سنتے ہیں وہ لکھتاہے کہ اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا آیا جب ہر چیز جامد اور بے مزہ ہوچکی تھی۔ زندگی میں اس کا جوش و جذبہ ماند پڑگیا اور بحیثیت لکھاری کے اسے اپنی تخلیقا ت فضول نظر آنے لگیں اور یہ صورت حال دن بدن بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ بالاخر اس نے ڈاکٹر سے مدد لینے کا سو چا جب ڈاکٹر کو طبعی طورپر کوئی نقص نظر نہ آیا تو اس نے آرتھر سے کہا کہ کیا وہ اس کا مشورہ صرف ایک دن کے لیے مانے گا ؟جب آرتھر نے رضامندی کااظہار کیا تو ڈاکٹر بولا کہ کل کا دن تم ایسی جگہ پر گزارو کہ جہاں ایک بچے کی حیثیت سے تم سب سے زیادہ خوش ہوتے تھے ۔وہ اپنا کھانا لے جاسکتا تھا لیکن نہ تو اسے کسی سے بات کرنے کی اجازت تھی اور نہ ہی کچھ پڑھنے ، لکھنے یاریڈیو وغیرہ سننے کی ، پھر اس نے چار نسخے لکھے اور اسے کہا پہلا دن کے نو بجے کھولنا دوسر ا بارہ بجے تیسرا تین بجے اور چوتھا چھ بجے شام ، ” کیا تم سنجیدہ ہو ”؟ آرتھر نے پوچھا۔ ” جب تمہیں میری فیس کا بل ملے گا تو پھر تم مجھے غیر سنجید ہ نہیں سمجھو گے ” ۔ اس کا جواب تھا۔ لہٰذا اگلے دن آرتھر ساحل پر چلاگیا جب اس نے پہلا نسخہ کھولا تو اس پر لکھا تھا ”غور سے سنو ” اس نے سوچا کہ ڈاکٹر شاید پاگل ہوگیا ہے وہ تین گھنٹے کیسے صرف سن سکتاہے لیکن اس نے ڈاکٹر کا مشورہ ماننے کا وعدہ کر لیاہوا تھا ۔لہٰذا وہ سننے لگا ۔اس نے سمندر اور پرندوں کی عام آوازیں سننا شروع کردیں کچھ دیر کے بعد اسے کچھ اور آوازیں بھی سنائی دینے لگیں جو کہ اسے پہلے نہیں آرہی تھیں وہ جیسے جیسے سنتا گیا اسے تما م باتیں یاد آنے لگیں جو بحیثیت ایک بچے کے اس نے سمندر سے سیکھی تھی ۔صبر، عزت اور چیزوں کے ایک دوسرے پر انحصار کی اہمیت ۔ وہ آوازوں اور خاموشی کو سنتا رہا اور اس کے اندر ایک سکون سا پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ دوپہر بارہ بجے اس نے دوسری پرچی کھولی اور اسے پڑھا۔ لکھا تھا ” ماضی میں جانے کی کو شش کرو”۔ ماضی میں کسی چیز کو یا دکرنے کی کوشش کروں اس نے حیران ہوکر سو چا شاید یہ بچپن کو یا شاید اچھے دنوں کی یادوں کو ۔ اس نے اپنی ماضی کے بارے میں سو چا اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بارے میں سو چا اور اس نے کوشش کی کہ انہیں تمام تفصیل کے ساتھ صحیح صحیح یا د کرے اور یہ سب یاد کرنے کے دوران اسے اپنے اندر ایک گرم جوشی پیدا ہوتی محسوس ہوئی ۔ تین بجے اس نے تیسری پر چی کھولی لیکن یہ پرچی ذرا مختلف تھی لکھا تھا ” اپنی نیتوں کا تجزیہ کرو” ۔شروع میں تو اس نے دفاعی انداز اختیا ر کیا ۔اس نے سوچا وہ کیا چاہتا تھا ” کامیابی ، مانے جانا ، تحفظ ” ۔ اور اس نے اس کو سب صحیح ثابت کر لیا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ یہ باتیں تو خاص نہیں ہیں اور شاید اسی سوچ میں اس کی جمود شدہ صورت حال کا جواب بھی تھا۔ اس نے اپنی نیتوں کے بارے میں گہرائی سے سوچنا شروع کیا۔ اس نے اپنی پرانی خوشیوں کے بارے میں سو چنا شروع کیا اور آخر اس کو جواب مل گیا ۔” ایک لمحے میں ” اس نے لکھا ” اگر بندے کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو پھر کچھ بھی صحیح نہیں ہوسکتا ”۔ جب چھ بجے فائنل پر چی کو کھولا، اور اس پر عمل کرنے میں زیادہ دیر نہیں کی” اپنے تفکرات کو ریت پر لکھو ” اس پر لکھا تھا۔ وہ ریت پر جھکا اور اس نے ایک ٹوٹی ہوئی سیپی کی مدد سے ریت پر کئی الفاظ لکھے پھر وہ مڑا اور پیچھے کی طرف چلنے لگا اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اسے معلوم تھا کہ ابھی سمندر کی موج سب اپنے ساتھ بہالے جائے گی ۔
یہ صرف آرتھر گو رڈن کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہم سب کی کہانی بھی یہ ہی ہے ہم سب کامیابی ، مانے جانا ، تحفظ حاصل کرنے کی جنگ میں ایسے مصروف ہیں کہ جینا بھی بھول چکے ہیں۔ہم اپنے زندہ رہنے کا واحد مقصد کا میابی ، مانے جانا ، تحفظ کے علاوہ اور کچھ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ آج جو ہزاروں خوشیاں ہمارے ارد گرد ہمار ی منتظر ہیں ہم انہیں مسلسل مایوس کررہے ہیں ۔ہم جینے کو ملتو ی پر ملتوی کیے جارہے ہیں۔کل کے انتظار میں، حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے 30سال پہلے رومی شاعر ہوریس نے کہاتھا ” انسانی فطرت کا سب سے بڑا المیہ جومیں جانتا ہوں یہ ہے کہ ہم سب زندہ رہنے کو ملتو ی کرتے رہتے ہیں اپنی کھڑکیوں سے باہر جو گلاب کے پھول کھل رہے ہیں ہم آج ان سے لطف اندوز ہونے کے بجائے گلابوں کے کسی باغ کے متعلق خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم اس قدر احمق کیوں ہیںاس قدر المناک حد تک احمق !زندگی ہر دن اور ہر لمحے کے نسیج میں رہنے میں ہے ۔ یاد رکھیں زندگی صرف آج ہے۔ ہوسکتا کل کبھی بھی آپ کی زندگی میں نہ آئے ۔ آپ کو اور آ پ کے رشتوں کو آپ کے آج کی ضرورت ہے خدارا انہیں مایوس نہ کریں ۔ آج کے ہر لمحے میں جیو ۔ حضرت عیسیٰ نے کہاتھا ” کل کی کوئی فکر نہ کرو” قدیمی رومی اس حقیقت کو جان چکے تھے ان کا قول تھا ” دن کا لطف اٹھائو ”اگر کامیابی ، مانے جانا ، تحفظ کی ہی صرف زندگی میں اہمیت ہوتی تو آرتھر یہ چیزیں حاصل کرنے کے بعد اسے اپنی زندگی میں یہ محسوس نہ ہوتا کہ اس کی زندگی میں ہر چیز جامد اور بے مزہ ہوچکی ہے ۔ اس لیے آج کی خوشیوں کو روٹھنے سے پہلے آج ہی تھام لیں آج جم کے جیئں اپنے لیے اور اپنے رشتوں کے لیے کیونکہ کل نے کبھی نہیں آنا ہے ۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کے بارے میں زندگی میں لکھا تھا اور اس
پڑھیں:
ویسا باپ نہیں بنوں گا جیسے میرے والد تھے: عثمان مختار نے بچپن کی تلخ یادیں شیئر کردیں
معروف پاکستانی اداکار عثمان مختار کا کہنا ہے کہ جو میرے والد نے غلطیاں کیں وہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ نہیں دہراؤں گا۔حال ہی میں اداکار نے ایک انٹرویو میں اپنے بچپن کی تلخ یادوں پر بات چیت کی۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ویسا باپ نہیں بنوں گا جیسے میرے والد تھے، میرے والد کا رویہ میرے ساتھ بہت زیادہ سخت تھا، ہو سکتا ہے کہ وہ اسے درست سمجھتے ہوں لیکن میرے لیے وہ ٹھیک نہیں تھا۔اداکار کے مطابق ان کے والد کے رویے نے انہیں بہت متاثر کیا، جس کی بنیاد پر ویسا رویہ اپنی بیٹی کے ساتھ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔انہوں نے کہا کہ ان کا جو رویے میرے ساتھ تھا، میں ویسا رویہ اپنی بیٹی کے ساتھ اختیار نہیں کرنا چاہتا تاہم انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اسی بنیاد پر میں اپنی بیٹی کے لیے ایک بہتر والد بننا چاہتا ہوں۔عثمان مختار کا کہنا تھا اگر وہ (والد) ویسے نہیں ہوتے تو آج میں جیسا ہوں ویسا نہیں ہوتا، میں اپنی بیٹی کے لیے ایسا نہیں سوچتا اس کی اتنی فکر نہیں کرتا، بچپن میں پیش آنے والے واقعات انسان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔انہوں نے ایک دلچسپ قصہ سناتے ہوئے خود کو ایک وہمی باپ قرار دیا اور کہا کہ بیٹی کے پیدا ہونے سے قبل ہی میں ڈاکٹر کے کلینک پہنچ گیا تھا تاکہ یہ جان سکوں کہ جب وہ پیدا ہوجائے گی تو اسے کس طرح کی ویکسین کی ضرورت پیش آئے گی، طبی طور پر اس کا خیال کس طرح رکھنا ہے۔