سعودی پیراگلائیڈنگ فیڈریشن نے اعلان کیا ہے کہ وزیرِ کھیل شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی بن فیصل کی منظوری کے بعد مملکت میں پیراگلائیڈنگ کی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ فوج کے بغیر ناممکن تھا، طلال چوہدری

یہ فیصلہ تمام ضابطہ جاتی تقاضوں کی تکمیل اور متعلقہ اداروں کے ساتھ بھرپور ہم آہنگی کے بعد کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ محفوظ، منظم اور پیشہ ورانہ ماحول کو یقینی بنایا جا سکے۔

فیڈریشن کے مطابق یہ اقدام سعودی عرب کو خطے اور دنیا میں فضائی کھیلوں کا مرکز بنانے کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے جو وژن 2030 کے اہداف کے تحت کھیلوں کے شعبے کی تنوع اور ترقی کو فروغ دیتا ہے۔

گزشتہ عرصے کے دوران متعلقہ حکام اور ماہرین کے تعاون سے تنظیمی فریم ورک اور حفاظتی ضوابط کو بہتر بنایا گیا ہے تاکہ شوقیہ اور پیشہ ور کھلاڑیوں کے لیے ایک محفوظ اور پائیدار ماحول فراہم کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی

فیڈریشن نے مزید بتایا کہ پیراگلائیڈنگ کے فروغ کے لیے جدید تربیتی پروگرامز اور مقامی و بین الاقوامی سطح پر مقابلوں کا آغاز کیا جائے گا جبکہ عالمی سطح کے ٹورنامنٹس بھی منعقد کیے جائیں گے تاکہ علم اور بہترین عملی تجربات کا تبادلہ ممکن ہو۔

ان اقدامات کا مقصد قومی صلاحیتوں کو نکھارنا، کھیلوں میں وسیع تر شرکت کو فروغ دینا اور غیر ملکی شراکت داروں کو متوجہ کرنا ہے تاکہ سعودی عرب میں پیراگلائیڈنگ کے کھیل کو طویل المیعاد بنیادوں پر ترقی دی جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پیراگلائڈنگ سعودی پیراگلائیڈنگ فیڈریشن سعودی عرب شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پیراگلائڈنگ شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی

پڑھیں:

منقسم جرمنی کا دوبارہ اتحاد: پانچ حقائق

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد شکست خوردہ جرمنی کو ابتدائی طور پر فاتح طاقتوں، امریکہ، فرانس، برطانیہ اور سوویت یونین نے چار قابض زونز میں تقسیم کر دیا تھا۔

1949ء میں دو جرمن ریاستیں ابھریں: مغرب میں ڈیموکریٹک فیڈرل ریپبلک آف جرمنی (ایف آر جی) اور مشرق میں سوویت کنٹرول کے تحت سوشلسٹ جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (جی ڈی آر)۔

اس کے بعد سے جرمنی تقسیم ہو گیا اور گی ڈی آر کے شہریوں کو صرف سخت شرائط کے تحت ایف آر جی جانے کی اجازت تھی۔

جرمنی کا دوبارہ اتحاد کیسے ہوا؟

جی ڈی آر کے باشندے سوویت نگرانی میں رہتے تھے اور اظہار رائے کی آزادی نہیں تھی۔ جس نے بھی سوشلسٹ حکومت کی لائن پر عمل نہیں کیا اسے ظلم و ستم اور قید کا سامنا کرنا پڑا۔

(جاری ہے)

1980ء کی دہائی کے آخر میں لوگوں نے حکومت کے خلاف تیزی سے آواز اٹھانا شروع کر دی۔

شہریوفاقی جمہوریہ جرمنی (FRG) میں اپنے پڑوسیوں کی طرح آزادی اور جمہوریت چاہتے تھے۔ اسی وقت میخائل گورباچوف کے زیر اثر سوویت یونین میں اصلاحات کی پالیسیوں نے اس عمل کو آسان بنایا۔

اپنے پیشروؤں کے برعکس گورباچوف نے GDR اور دیگر مشرقی بلاک کے ممالک میں اصلاحاتی تحریکوں میں فوجی مداخلت سے گریز کیا۔ آخر کار1989ء میں، مشرقی جرمنی کے شہروں میں پرامن مظاہروں کا ایک سلسلہ دیوار برلن کھلنے کا سبب بنا، جس نے GDR اور FRG کے دوبارہ اتحاد کی راہ ہموار کی۔

تین اکتوبر جرمن یونیٹی ڈے کیوں بنا؟

نو نومبر 1989 کو دیوار برلن کا گرنا، دوبارہ اتحاد کی راہ میں فیصلہ کن واقعہ تھا۔ اس لیے اس دن جرمن اتحاد کا جشن منانا زیادہ موزوں ہوتا ۔ لیکن یہ تاریخ، جرمن تاریخ میں کسی بھی دوسری تاریخ سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ نو سے 10 نومبر 1938 کی رات نازیوں نے پورے جرمنی میں عبادت گاہوں کو جلایا، یہودیوں کے کاروبار اور گھروں کو تباہ کیا۔

کرسٹل ناخٹ لاکھوں یہودیوں کے منظم ظلم و ستم اور قتل کا پیش خیمہ تھی۔

اس لیے اس رات کی یاد کو جرمن اتحاد کے جشن کے ساتھ منانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ تین اکتوبر 1990 کو جرمن اتحاد، یعنی GDR کے FRG سے دوبارہ متحد ہونے کا دن قرار دیا گیا اور یوں تین اکتوبر قومی دن کی حیثیت سے چھٹی کا دن قرار پایا۔

جرمن یونیٹی ڈے کیسے مناتے ہیں؟

یہ دن کافی پرسکون طریقے سے منایا جاتا ہے۔

آتش بازی وغیرہ تو نہیں کی جاتی مگر تین اکتوبر کو تقریباً ہر شہر میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ مزید برآں ہر سال ایک وفاقی ریاست تین اکتوبر کو ایک بڑے تہوار کی میزبانی کرتی ہے۔ اس سال مرکزی تقریبات جرمن صوبے زارلینڈ میں منائی جا رہی ہیں۔ دوبارہ اتحاد کا کوئی یادگار کیوں نہیں؟

تقریباً دس سال کی بحث کے بعد وفاقی جرمن پارلیمان نے نو نومبر 2007 کو "آزادی اور اتحاد کی یادگار" کی تعمیر کی منظوری دی۔

خیال یہ تھا کہ برلن کے قلب میں ہمبولٹ فورم کے سامنے جمہوریت کی علامت کے طور پر 50 میٹر لمبا 'والک آن انٹر ایکٹیو اسٹرکچر‘ تعمیر کیا جائے گا لیکن 2025 میں بھی اس اسٹرکچر کا کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ یہ اس کی فراہمی کے لیے کمیشن کی گئی کمپنیوں اور وفاقی حکومت کے ذمہ دار اداروں کے درمیان ایک تنازعے کا نتیجہ ہے۔ کیا اس کا کوئی حل نکل پائے گا؟ یہ بات ابھی تک غیر واضح ہے۔

کیا جرمنی واقعی متحد ہے؟

تمام سیاسی کوششوں کے باوجود ایک حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی نے ابھی تک اپنی تقسیم سے پیدا ہونے والے تمام تر مسائل پر قابو نہیں پایا ہے۔ فی الحال صرف 35 فیصد جواب دہندگان کا کہنا ہے کہ مشرقی اور مغربی جرمنی نے "بڑے پیمانے پر ایک ساتھ ترقی کی۔‘‘ ملک کے دونوں حصوں میں اس بارے میں تاثرات مختلف پائے جاتے ہیں۔

مشرق میں 23 فیصد کا خیال ہے کہ جرمن 1990 سے ایک قوم بن چکے ہیں جب کہ مغرب میں 37 فیصد اس خیال کو درست سمجھتے ہیں۔

50 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ اجرت، پنشن اور اثاثوں کی عدم برابری مشرقی اور مغربیجرمنی کے 'کامیاب اتحاد‘ کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • ڈینگی سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں، مصطفی کمال
  • پی آئی اے اس ماہ برطانیہ کے لیے اپنی پروازوں کا دوبارہ آغاز کرے گی
  • وینٹیج گیمز کا اجرا: پاکستان میں نوجوانوں کے کھیلوں کی نئی دنیا
  • مریم نواز کی شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کے حق میں  خیر مقدمی مہم، ٹرینڈ سوشل میڈیا پر مقبول
  • منقسم جرمنی کا دوبارہ اتحاد: پانچ حقائق
  • الزرونی 9ویں اسٹوڈنٹس اولمپک گیمز اختتام پذیر، ٹرافیاں اور میڈلز تقسیم
  • تلہار: پہلی تاریخ آتے ہی بینکوں نے پنشن کارڈ لنک بند کردیے
  • ایتھلیٹکس فیڈریشن کے انتخابات میں بے ضابطگیوں کا نوٹس
  • پاکستان ہاکی فیڈریشن کا ورلڈکپ کے میچز بھارت سے نیوٹرل مقام پر منتقل کرنے کا مطالبہ