Express News:
2025-10-05@23:59:05 GMT

غزہ میں صحافیوں کا قتل، سچائی کا قتل ہے!

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

امریکا ،یورپی ممالک، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں کوئی بھی ملک اور حکمران آزاد صحافت اور آزاد منش صحافیوںکو پسند نہیں کرتا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کی جمہوریتیں اور جمہوری حکمران اپنے ہاں صحافیوں اور میڈیا کو آزادانہ طور پر کچھ نہ کچھ کہنے اور لکھنے کی آزادیاں دیتے ہیں ۔ مگر یہ محدود آزادیاں بھی امریکی اور مغربی حکمرانوں کو بہت چبھتی ہیں ۔

مثال کے طور پر 16ستمبر2025 کو امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، سے واشنگٹن میں ایک امریکی صحافی نے ٹرمپ کے مزاج کے خلاف سوال پوچھا تو ٹرمپ نے جواب دینے کے بجائے چیختے ہُوئے صحافی سے کہا:’’ مجھے معلوم ہے تمہارے دل میں (میرے خلاف) کتنی نفرت موجود ہے ۔‘‘ٹرمپ صاحب اِسی طرح اپنے کئی مخالف امریکی صحافیوں کی بے عزتی کر چکے ہیں اور اِس پر وہ کبھی نادم بھی نہیں ہُوئے ۔

بھارت میں مقتدر بی جے پی کے شدید دباؤ تلے آکراکثریتی بھارتی میڈیا مودی کی گود میں بیٹھ چکا ہے ۔پاکستان میں بھی جو صحافی، بوجوہ، سرکار دربار اور طاقتوروں کی پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہیں ، وہ سرکار دربار کی نظر میں محبوب کہلاتے ہیں۔ آزاد منش صحافیوں کی حیلوں بہانوں سے مشکیں کسنے کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک میں بھی آزاد منش صحافیوں اور ادیبوںکی جان پر بنی ہُوئی ہے ۔ مصر کے نامور فلسفی ادیب ، ثناء اللہ ابراہیم، کی کتابیں ہم اگر مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ مصری حکمران مصری ادیبوں اور صحافیوں پر کسقدر مظالم ڈھا رہے ہیں ۔ جناب ثناء اللہ ابراہیم اپنی آزادانہ فکری تحریروں کے باعث ہی زندگی کا زیادہ عرصہ پسِ دیوارِ زنداں رہے ۔ اگست 2025میں وہ نہائت کسمپرسی میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ مصر سے متصل ،غزہ، میں پچھلے دو برس سے غاصب و ظالم صہیونی اسرائیل نے فلسطینی صحافیوں پر جو مظالم ڈھا رکھے ہیں ، اِس کی مثال دُنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔یکم اور دو اکتوبر2025کو خورو نوش اور ادویات کی امداد لے کر محصور غزہ پہنچنے کی کوشش کرنے والا صمود فلوٹیلا(جس کی قیادت ایک بہادر سویڈش نوجوان خاتون، گریٹا تھنبرگ، کررہی تھیں)جس طرح صہیونی اسرائیل کی بے درد جارحیت کا ہدف بنا ہے، ساری دُنیا اِس کی مذمت کررہی ہے۔

اِس فلوٹیلا پر کئی صحافی بھی سوار تھے۔ انھیں بھی اسرائیل نے دیگر افراد کے ساتھ قیدی بنایا، تشدد کیا اور پھر دو دن کے بعد استنبول روانہ کر دیا۔ساری دُنیا اور عالمی میڈیا غزہ کے صحافیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم و قہرمانیوں کی مذمت کرتے ہُوئے اِنہیں روکنے کی اپیلیں بھی کررہی ہے، مگر اسرائیل کا غزہ کے صحافیوں کے خلاف دستِ ستم رُک نہیں رہا۔ 16 ستمبر 2025ء کو سعودی عرب کے معروف اخبار ’’عرب نیوز‘‘ میں یوسی میکلبرگ(Yossi Mekelberg) کا غزہ کے شہید و جری صحافیوں پر ایک شاندار آرٹیکل شایع ہُوا ہے ۔ یوسی میکلبرگ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں اور لندن میں بروئے کار مشہور تھنک ٹینک (چیٹم ہاؤس) کے فیلو بھی ۔

یوسی میکلبرگ اپنے مذکورہ آرٹیکل میں غزہ کی صحافت ، میڈیا اور غزہ کے بہادر و شہید صحافیوں (جنھوں نے غزہ میں بے پناہ اسرائیلی مظالم بارے دُنیا کو آگاہ کرتے ہُوئے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں) بارے یوں لکھتے ہیں:’’ اسرائیل میں حکمران دائیں بازو کی جماعتیں میڈیا اور صحافیوں کے خلاف سخت مخالفت رکھتی ہیں۔ یہ رجحان غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ غزہ کے صحافی سچائی کی رپورٹنگ کررہے ہیں ۔

پچھلے ہفتے ہی برطانیہ کا دَورہ کرتے ہوئے اسرائیلی صدر( مائیکل ہرزوگ) نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے تمام اقدامات بین الاقوامی قانون کے دائرے میں ہیں۔لیکن اگر ایسا ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ اسرائیلی حکام غزہ میں بین الاقوامی میڈیا کی رسائی کیوں روک رہے ہیں؟ ایسی صورت میں مقامی فلسطینی صحافی ہی وہ ہیں جنھوں نے اسرائیلی آفتوں اور مظالم کی رپورٹنگ کی ذمے داری اٹھائی ہوئی ہے، اور جن میں سے ناقابلِ یقین تعداد پہلے ہی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکی ہے۔’’کمیٹی ٹُو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں کم از کم 189 صحافی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کا دفتر غزہ میں شہید صحافیوں کی تعداد247 بتاتا ہے۔ یہ دونوں تعداد دل دہلادینے والی ہیں۔‘‘

یوسی میکلبرگ مزید لکھتے ہیں:’’ فلسطین میں یہ چھوٹا سا صحرائی علاقہ( غزہ کی پٹی) زمین پر رپورٹنگ کرنے کے لیے صحافیوں کے لیے اب دنیا کے اُن مقامات میں سے ایک بن چکا ہے جہاں جانا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموںکا اصرار ہے کہ جنگ کے دوران بھی صحافی محفوظ رہنے کے حق کے مستحق ہیں، مگر متعدد ایسے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناکر قتل کیا ہے۔مثال کے طور پر غزہ میں ’’الجزیرہ‘‘ کے معروف صحافی، اَنس الشریف، کی شہادت۔ اُن کے قتل کے فوراً بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اَنس الشریف ’’ حماس‘‘ کے ایک دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جو اسرائیلی شہریوں پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ تل ابیب کی طرف سے مگر ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا ہے کہ الشریف واقعی ایسا کچھ کر رہا تھا۔ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیل کو اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔

اَنس الشریف پر حملہ غزہ میں اُس خیمے پر ہُوا جس پر ’’ پریس ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اِس کے باوجود اسرائیل مہلک حملے سے باز نہ آیا۔پھر اُسی روز خان یونس (غزہ)کے ناصر اسپتال پر قریباً ایک منٹ کے وقفے سے دو بمباریاں کی گئیں۔ پہلی نے اسپتال کی بیرونی دیوار کو ہدف بنایا اور جب امدادی کارکن اور دیگر صحافی وہاں پہنچے تو دوسری بمباری ہوئی۔ نتیجتاً چار فلسطینی صحافی موقع پر مارے گئے۔ ایک بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس پر بھی کوئی مکمل معافی نہیں مانگی،اور یہ وعدہ تک نہیں کیا کہ مستقبل میں غزہ میں صحافیوں کی ایسی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے پوری کوشش کی جائے گی‘‘۔

دُنیا کے بہت سے حقیقت نگاروں اور تجزیہ کاروں کی طرح یوسی میکلبرگ بھی کہتے ہیں:’’دُکھ کی بات یہ ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت کسی بھی ایسے صحافی کی دوست نہیں ہے جو کسی بھی معاملے میں اُن کے بیانیے کی تقلید نہ کرے۔ غزہ کے مقامی رپورٹرز اپنی جان کو مسلسل خطرے میں دیکھتے ہیں۔پچھلے مہینے، تقریباً 30ممالک( جن میں برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں) نے میڈیا فریڈم کولیشن کے بیان کی حمایت کی، جس نے غزہ میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو سختی سے مسترد کیا۔

مزید برآں، انھوں نے میڈیا کے ذرایع اور سہولیات تک آزادانہ رسائی کا مطالبہ کیا بھی تاکہ غزہ کے صحافی اپنا کام آزادانہ اور محفوظ طریقے سے انجام دے سکیں۔جلد یا بدیر، غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اُس کی مکمل سچائی سامنے آجائے گی۔ لیکن پہلے ہی، مقامی فلسطینی صحافیوں کی بہادری کی بدولت، جنھوں نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا، ہم اتنا جان چکے ہیں، اور کئی مہینوں سے جانتے ہیں کہ جنگ کو ختم کرنا کتنا ضروری ہے۔جو بہادر صحافی غزہ سے گزشتہ دو برسوں میں رپورٹنگ کر رہے ہیں (خاص طور پر وہ جنھوں نے اپنی جانوں کے بدلے یہ فرض نبھایا ہے) انھیں آنے والی نسلیں لمبے عرصے تک یاد رکھیں گی۔ اُن کی لگن، بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت نے ہمیں غزہ میں متنوع اسرائیلی مظالم اور زیادتیوں سے آگاہ کیے رکھا‘‘۔ غزہ کے بہادر ، عظیم المرتبت اور جرأتمند صحافیوں(اور خصوصاً شہید صحافیوں) کو ہمارا سلام اور سیلوٹ پہنچے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غزہ میں صحافیوں فلسطینی صحافی یوسی میکلبرگ غزہ کے صحافی صحافیوں اور صحافیوں پر صحافیوں کی اسرائیل نے جنھوں نے رہے ہیں کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کی اندھی حمایت امریکہ کو عنقریب پشیمان کر دیگی، امریکی میڈیا

معروف امریکی جریدے نے لکھا ہے کہ اسرائیلی رژیم کیلئے امریکہ کی اندھی حمایت مغربی ایشیا میں واشنگٹن کے اثر و رسوخ کو غیر معمولی حد تک کم کر دیگی اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی جریدے فارن افیئرز نے گیلپ ڈالے اور صنم وکیل کے قلم سے تحریر شدہ؛ "مشرق وسطی جو اسرائیل نے بنایا ہے؛ کیوں واشنگٹن اسرائیلی جارحیت کی قیمت چکانے پر پچھتائے گا" کے عنوان سے چھپنے والے اپنے مقالے میں خطے بھر میں امریکی موقف و اثر و رسوخ پر تل ابیب کی پالیسیوں کے برے نتائج کا جائزہ لیا ہے۔ فارن افیئرز نے امریکی سیاستدانوں کو خبردار کیا کہ اسرائیلی اقدامات نے مشرق وسطی کو غیر متوقع طور پر بدل کر رکھ دیا ہے؛ غزہ میں اسرائیلی جنگ، اس کی توسیع پسندانہ فوجی پالیسیاں اور اس کے نظر ثانی پر مبنی موقف نے اس خطے کو یوں بدل کر رکھ دیا ہے کہ جس کی توقع کسی کو نہ تھی!

امریکی تھنک ٹینک چیٹھم ہاؤس میں سینیئر کنسلٹنک فیلو اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹ اینتھونی کالج میں نظریاتی محقق گیلپ ڈالے نے اس مقالے میں تاکید کی ہے کہ طاقت کو مستحکم کرنے کے بجائے، اسرائیل نے اپنے سابقہ ​​شراکتداروں کو بھی "ہوشیار دشمن" میں تبدیل کر دیا ہے اور یہ کہ اب "اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے پیچھے کی منطق" بھی بے نقاب ہو رہی ہے۔ اس مقالے کے لکھاریوں نے وضاحت کی کہ اسرائیل نے غیر مشروط و اندھی امریکی حمایت کے ساتھ، فلسطین، لبنان، یمن، شام، اور ایران سمیت 7 ممالک پر حملے کئے، خاص طور پر دوحہ، قطر میں حماس کے رہنماؤں پر فضائی حملہ کیا کہ جس نے اس ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی اور شدید غم و غصے کو جنم دیا۔

چیٹھم ہاؤس میں مشرق وسطی و شمالی افریقہ پروگرام کی ڈائریکٹر اور پیشرفتہ بین الاقوامی مطالعات (SAIS) کی پروفیسر صنم وکیل نے لکھا کہ اسرائیل کے "پیشگی دفاع کے نظریئے" کہ جو خودمختاری کی کھلی خلاف ورزیوں پر مشتمل ہے، نے نہ صرف عرب ممالک کو بھی غیر محفوظ کر دیا ہے بلکہ "اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات" کو بھی ایک "کٹھن ذمہ داری" بنا کر رکھ دیا ہے۔ امریکی مصنفین نے لکھا کہ ان اقدامات نے نہ صرف اسرائیل کو تنہا کیا ہے بلکہ امریکی اثر و رسوخ پر بھی بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے… کیونکہ اسرائیل کے لئے امریکہ کی مسلسل حمایت خطے میں واشنگٹن کی پوزیشن کو کمزور بناتی ہے جیسا کہ خلیج (فارس) کے حکمرانوں نے نہ صرف اسرائیل کو غیر متوقع و جارحانہ، بلکہ سلامتی سے متعلق امریکی ضمانتوں کو بھی ناقابل اعتبار پایا ہے!

اس تجزیئے کے مطابق مصر کے ساتھ اسرائیل کے باہمی تعلقات؛ کہ جنہوں نے، 1979 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے لے کر اب تک، 4 دہائیوں سے زیادہ کے عرصے تک، امن و امان برقرار رکھا ہے، اب تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں جیسا کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ستمبر 2025 میں اسرائیل کو ایک "دشمن" قرار دیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون میں بھی کمی آئی ہے۔ امریکی لکھاریوں نے لکھا کہ مصر نے اسرائیل کو واضح پیغام دینے کے لئے ترکی کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں بھی کیں کیونکہ جنگ غزہ نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے.. جہاں قاہرہ و تل ابیب قبل ازیں توانائی و سلامتی پر مل کر کام کر رہے تھے..!

امریکی جریدے نے لکھا کہ خلیج فارس میں 2020 کے ابراہیمی معاہدے، کہ جس نے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کو بھی اسرائیل کے قریب پہنچایا، نیز اب ایک "اندرونی" اور "اسٹریٹجک" خطرہ بن چکا ہے۔ امریکی مصنفین کے مطابق سعودی عرب کہ جو تل ابیب کے ساتھ باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے شدید امریکی دباؤ میں گھرا ہوا تھا، اب "اسرائیل کا اسٹریٹجک پارٹنر" بننے کے بارے "سخت تذبذب" کا شکار ہو چکا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل دوستی کی بھاری قیمت چکائی ہے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے عرب ممالک میں عوامی حمایت انتہائی کم ہے جیسا کہ مغرب (مراکش) میں، ایسے معاہدوں کی حمایت؛ 2022 میں 31 فیصد تھی جو 2023 میں مزید کم ہو کر 13 فیصد رہ گئی۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ترکی بھی اسرائیل کو ایک "سنگین خطرے" کے طور پر دیکھتا ہے، فارن افیئرز کے تجزیہ کاروں نے لکھا کہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تجارت معطل کر رکھی ہے اور اسرائیلی پروازوں کے لئے اپنی فضائی حدود بھی بند کر دی ہیں، خاص طور پر شام میں اسرائیل کے اقدامات کہ جنہوں نے اس کی سرحدوں اور پناہ گزینوں کے بہاؤ کو متاثر کیا ہے، کے بعد۔

اپنی تحریر کے آخر میں امریکی مصنفین نے خبردار کیا کہ کلیدی مسئلہ "فلسطین کا منصفانہ حل" ہے، اور یہ کہ امریکہ فلسطینیوں کے مصائب اور اسرائیل کی توسیع پسندی کو کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتا۔ گیلپ ڈالے اور صنم وکیل نے اس بات پر بھی خبردار کیا کہ "اسرائیل کو لگام نہ ڈالنے سے" واشنگٹن، مغربی ایشیا میں اپنے موجود اپنے وسیع اسٹریٹجک انفراسٹرکچر کو تیزی کے ساتھ تباہ کر رہا ہے!

متعلقہ مضامین

  • ’45 دن ایسے لگے جیسے 45 سال‘، فلسطینی صحافی کی غزہ میں اپنی رپورٹنگ پر مبنی یادداشتیں شائع
  • انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال
  • پولیس گردی کی مذمت، صحافیوں کے ساتھ ہیں: فضل الرحمن 
  • پیپلزپارٹی آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے،راول شرجیل میمن
  • صحافیوں کیساتھ پولیس گردی کی اجازت نہیں دیں گے، مولانا فضل الرحمان
  • پریس کلب پر پولیس کا دھاوا قابلِ مذمت ہے، صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں،مولانا فضل الرحمٰن
  • اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب واقعے میں جو ملوث ہو گا اس کیخلاف ایکشن ہو گا؛ طلال چوہدری
  • اسرائیل کی اندھی حمایت امریکہ کو عنقریب پشیمان کر دیگی، امریکی میڈیا
  • اسلام آباد نیشنل پریس کلب پر دھاوا: صحافی تنظیموں نے واقعہ دہشتگردی قرار دیدیا