معاشی استحکام کے حکومتی دعوے، لاکھوں پاکستانی غربت کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
کراچی:
پاکستان اس وقت ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے جہاں معیشت کی مثبت ظاہری تصویر اور عوام کی تلخ زمینی حقائق میں واضح تضاد نظر آرہا ہے،ایک طرف اسٹاک مارکیٹ نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے،مہنگائی میں کمی آئی ہے اور حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تعاون سے معیشت کے استحکام کادعویٰ کر رہی ہے، لیکن دوسری طرف، عالمی بینک کی تازہ رپورٹ اس منظرنامے کے پیچھے چھپے سنگین مسائل کو بے نقاب کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق لاکھوں پاکستانی غربت کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں،جہاں مہنگائی،کمزور سماجی تحفظ اور محدود مواقع ان کی زندگی کو مزیدمشکل بنارہے ہیں، 2001 میں 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی،جو بتدریج کم ہوکر 2018 میں 21 فیصد تک آگئی۔ تاہم کورونا وبا سیاسی عدم استحکام، اور معاشی جھٹکوں نے اس پیشرفت کو پلٹ دیا۔
2023-24 تک غربت کی شرح 27 فیصدسے تجاوزکرگئی ہے،جبکہ کم آمدن والے ممالک کے معیارکے مطابق تقریباًآدھی آبادی غربت کی زد میں آچکی ہے۔
دیہی علاقوں میں غربت کی شدت سب سے زیادہ ہے، جہاں بلوچستان اور اندرون سندھ میں نصف سے زائدآبادی غربت کی شکار ہے۔
اس کے برعکس، پنجاب اور اسلام آبادمیں غربت کی شرح نسبتاً کم ہے،جو علاقائی عدم مساوات کو واضح کرتی ہے، پاکستان کی انسانی ترقی کی صورتحال بھی تشویشناک ہے، 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر جسمانی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں،جبکہ تعلیمی میدان میں بھی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔
85 فیصد سے زائد ملازمتیں غیر رسمی شعبے میں ہیں، جن میں نہ تو مستقل روزگار ہے، نہ ہی کوئی سماجی تحفظ، خواتین کی اکثریت اسی غیرمحفوظ لیبر مارکیٹ کاحصہ ہے، جو ان کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
مہنگائی،قدرتی آفات اور محدودآمدنی نے عام گھرانوں کی لچک ختم کر دی ہے،صرف 10 فیصدآمدنی میں کمی لاکھوں افرادکو دوبارہ غربت میں دھکیل سکتی ہے۔
عالمی بینک نے صورتحال پر زور دیا ہے کہ صرف معاشی استحکام کافی نہیں، بلکہ پائیدار اور جامع ترقی کی ضرورت ہے، اس کیلیے ضروری ہے کہ پسماندہ علاقوں میں تعلیم،صحت اور بنیادی سہولیات میں سرمایہ کاری کی جائے۔
سماجی تحفظ کے نظام کو بہتر اور مؤثر بنایاجائے،ٹیکس نظام میں اصلاحات لاکر مراعات یافتہ طبقے کو بھی حصہ دار بنایاجائے۔
جب تک ترقی کے ثمرات عام لوگوں تک نہیں پہنچتے،معاشی کامیابی کے دعوے کھوکھلے نظر آئیں گے، پاکستان کی اصل ترقی اس وقت ہوگی جب ہر شہری کی زندگی میں بہتری نظر آئیگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غربت کی
پڑھیں:
زیادہ آبادی غربت کا باعث بنتی ہے، ترقی کی رفتار بڑھانے کیلئے آبادی پر کنٹرول ناگزیر ہے، وزیر خزانہ
وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹراورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان استحکام کی منزل کے حصول کے بعداب پائیداراقتصادی نموکی راہ پرگامزن ہے، آبادی کے لحاظ سے وسائل کاانتظام کرنا ہوگا، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اورموسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کیلئے دوبنیادی وجودی خطرات ہیں۔
پاپولیشن کونسل کے زیراہتمام ڈسٹرکٹ ولنرایبلیٹی انڈیکس آف پاکستان کے اجراء کے موقع پرمنعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان استحکام کی منزل کے حصول کے بعداب پائیداراقتصادی نموکی راہ پرگامزن ہے اوراہم معاشی اشاریوں میں بہتری سے اسے کی عکاسی ہورہی ہے۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اورموسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کیلئے دوبنیادی وجودی خطرات ہیں،پاکستان میں آبادی میں اضافہ کی شرح 2.5فیصدکے قریب ہے یہ شرح بہت زیادہ ہے، آبادی میں تیزی سے اگر اضافہ توپھر مجموعی قومی پیداوارمیں اضافہ غیرمتعلق ہوجاتا ہے،یہ سلسلہ پائیدارنہیں ہے،ہمیں آبادی کے لحاظ سے وسائل کاانتظام کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ بچے ہمارے مستقبل کے لیڈرزہیں، پاکستان میں 40فیصدکے قریب بچے سٹنٹنگ کاشکارہیں،50فیصدلڑکیاں سکول سے باہرہیں،یہ دونوں بہت ہی سنجیدہ نوعیت کے مسائل ہیں۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلیاں اوران تبدیلیوں سے موافقیت اہم ایک مسئلہ ہے،موسمیاتی موزونیت کیلئے ہم وزارت موسمیاتی تبدیلی اورمتعلقہ اداروں کے ساتھ ہرقسم کی معاونت کیلئے تیارہیں۔
وزیر خزانہ کامنصب سنبھالنے کے بعد پہلی بارآئی ایم ایف اورعالمی بینک کے سالانہ اجلاس کے موقع پرموسمیاتی تبدیلیوں کیلئے قائم اتحاد کے وزرائے خزانہ کے اجلاس میں میں نے شرکت کی اور ان مہینوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ ان امورکومرکزی دھارے میں لانے میں وزرائے خزانہ کاکردارکلیدی اہمیت کاحامل ہے کیونکہ موسمیاتی موزونیت اورماحولیاتی فنانس کیلئے فنڈز کی تخصیص اوروسائل کی فراہمی میں ان کاکرداراہم ہوتاہے۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت پسماندہ اورکم ترقی یافتہ اضلاع کی ترقی اوران کوملک کے دوسرے حصوں کے مساوی لانے کیلئے اقدامات کررہی ہے، بہترمواقع کی تلاش میں دیہی علاقوں سے شہروں اوربڑے قصبات میں نقل مکانی کاعمل جاری ہے۔
اس کے نتیجہ میں کچی آبادیوں کی تعدادمیں اضافہ ہورہاہے، ان آبادیوں میں پینے کیلئے صاف پانی، نکاسی آب اوردیگربنیادی سہولیات کافقدان ہوتا ہے، اس سے چائلڈسٹنٹنگ اوردیگرمسائل میں اضافہ ہورہاہے۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ سماجی ترقی کیلئے یہ سمجھنا ضرور ہے کہ آبادی میں اضافہ اورموسمیاتی تبدیلیوں کاایک دوسرے سے براہ راست تعلق ہے، اس کے ساتھ ساتھ وسائل کی تخصیص اوران میں اصلاحات بھی ضروری ہے۔
وزیرخزانہ نے ایف سی ڈی او اوربرطانوی حکومت کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ برطانیہ کی حکومت اورایف سی ڈی اورپاکستان کی حکومت کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون فراہم کررہی ہے۔