بگرام ائیر بیس کسی صورت امریکا کے حوالے نہیں کریں گے: ذبیح اللہ مجاہد taliban WhatsAppFacebookTwitter 0 6 October, 2025 سب نیوز

کابل(سب نیوز )افغانستان حکومت اور افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغان اپنی سرزمین کسی بھی صورت کسی کے حوالے نہیں ہونے دیں گے۔ذبیح اللہ مجاہد نے برطانوی ٹی وی چینل اسکائی نیوز کو آن لائن انٹرویو دیا اور کہاکہ ہم کسی صورت بگرام ائیر بیس امریکا کے حوالے نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغان اپنی سرزمین کسی بھی صورت میں کسی کے حوالے نہیں ہونے دیں گے۔ذبیح اللہ مجاہد نے انکشاف کیا کہ امریکا کے ساتھ کابل اور واشنگٹن میں سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر بات چیت ہوئی ہے، روس کے علاوہ بھی کئی ممالک نے غیر اعلانیہ طور پر ہمیں تسلیم کیا لیکن باقاعدہ طور پرنہیں کیا۔

لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق سوال پر کہا کہ اس متعلق کوئی وعدہ نہیں کرسکتے۔یاد رہے کہ 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران امریکا نے 20 سال بعد بگرام ائیربیس افغان حکام کے حوالے کیا تھا۔تاہم صدر ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑا گیا اسلحہ اور بگرام ائیر بیس واپس لینے کا اعلان کیا ہے اور سنگین نتائج کی دھمکی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کے 6 جنریشن اسٹیلتھ لڑاکا طیارے کی نئی تصاویر میں کیا خاص ہے؟ چین کے 6 جنریشن اسٹیلتھ لڑاکا طیارے کی نئی تصاویر میں کیا خاص ہے؟ سعودی حکومت کی آئندہ خطبہ جمعہ لالچ اور گھروں کیکرایوں میں اضافے کے خطرات پر دینے کی ہدایت عمران خان کیخلاف 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس کا جیل ٹرائل بحال کر دیا گیا ایران افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ فریم ورک میں ترامیم کی تفصیلات سینیٹ قائمہ کمیٹی میں پیش اسرا ئیل کو تسلیم نہیں کرینگے،ایسی باتیں بے بنیاد ہیں، اختیار ولی خان ہنر مند وں کو روزگار کی فراہمی،پاک بیلاروس معاہدہ پانچ ماہ سے تعطل کا شکار TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ذبیح اللہ مجاہد کے حوالے نہیں امریکا کے

پڑھیں:

مدارس کی خدمات اور ریاست کا دباؤ

دین اسلام اللہ رب العزت کی طرف سے اپنے محبوب خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو دیا گیا ابدی اور آفاقی اللہ کا محبوب دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلامی تعلیمات میں روحِ انسانیت کی دنیاوی اور اخروی تمام تشنگیوں کا مداوا اور مشکلات کا حل موجود ہے۔ مگر اسلامی تعلیمات کو کیسے حاصل کیا جائے؟

اس مشکل کا حل محمد عربی ﷺ نے عالم اسلام کا پہلا مدرسہ"صُفہ" قائم کرکے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بتادیا ہے، دینِ اسلام کی بقا، اشاعت، تعلیمات قرآن و سنت کی روشنی میں دنیا و آخرت کو سنوارنے کے لیے صُفہ کی طرح دینی درسگاہیں قائم کرنا سنت نبوی ہے۔ مدارس کا بنیادی مقصد انسانوں کو تعلیماتِ اسلام سے روشناس کرانا اور علم کی شمع روشن کرکے جہالت کا خاتمہ ہے۔ اس خطے میں اسلام عرب سے آنے والے تاجروں کے ذریعے آیا، اسے پاک و ہند کے گوشے گوشے تک پھیلانے کا فریضہ اولیاء اللہ اور علماء کرام نے ادا کیا۔ شکر الحمدللہ قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت کی ذمے داری و فریضہ علماء کرام کے قائم کردہ مدارس لمحہ موجود تک انجام دے رہے ہیں۔

برصغیر میں انگریز کے آنے سے قبل تعلیم و تربیت کا واحد ذریعہ دینی مدارس تھے، برطانوی سامراج نے اسے کمزور کرنے کے لیے اپنا آزمودہ حربہ "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے فلسفے پر دینی و دنیاوی تعلیم کو الگ کرکے مسلمانوں کو دیندار (بنیاد پرست) اور دین بیزار (لبرلز) میں تقسیم کا دووازہ کھول دیا۔ مدارس دینیہ کے مد مقابل عصری علوم کے اداروں کو لاکرکھڑا کیا۔ مگر اکابرین امت نے نامساعد حالات میں مدارس اور مدارس کے نظام کو کمزور نہ ہونے دیا۔

ریاست مدینہ کے بعد دوسری ریاست پاکستان، "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کے نصب العین پر معرض وجود میں آیا تو بے سروسامانی کے عالم میں ایک طرف ریاستی نظم چلانے کا چیلنج تو دوسری طرف لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری اور کفالت کا مسئلہ درپیش تھا۔ مشکل کی اس گھڑی میں اکابرین امت نے دینی مدارس کے قیام کا بیڑہ اٹھایا اور اللہ نے انھیں سرخرو کیا۔

آج یہی مدارس تشنگان علوم نبوی کو علم کی دولت کے ساتھ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کے ساتھ ان کی کردار سازی میں مصروف ہیں۔ عصری علوم حاصل کرنے کے لیے پاکستانی طلباء مغربی یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں لیکن علوم قرآن و حدیث کا فیض حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر سے طلباء پاکستانی مدارس میں آرہے ہیں، پوری امت کا پاکستان کے مدارس کی خدمات کا اعتراف ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے لاکھوں مدارس کی برکت سے آج قرآن وحدیث اور علوم شریعہ اصل اور مکمل شکل میں باقی اور محفوظ ہے۔

ان مدارس نے معاشرے کو لاکھوں حفاظ اور علوم اسلامی کے ماہر علماء وشیوخ، آئمہ و خطباء دیے ہیں، جو پاکستان ہی نہیں دنیا کے کونے کونے کو اسلام کی روشنی سے منور کر رہے ہیں۔ بلوچستان، پختونخوا، پنجاب، سندھ، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے دور افتادہ و پسماندہ علاقوں میں جہاں عصری علوم کا کوئی ریاستی ادارہ موجود نہیں وہاں مدارس موجود ہیں جو ان علاقوں کے غریب بچوں کو مفت تعلیم، جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر ان کے قلوب و اذہان کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے علاوہ پاکستان میں شرح خواندگی کو بڑھانے اور فروغ تعلیم کے لیے ان مدارس کا کردار قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔ پوری ملت پر مدارس کا احسان ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرانے والے لاکھوں بچوں کو سینے سے لگا کر تعلیم دے رہے ہیں، حالانکہ یہ ذمے داری ریاست کی تھی۔

ریاستی دو رنگی نے عصری تعلیمی اداروں کو منافع بخش کاروبار بنایا، عصری علوم کے اداروں کے مالکان کے ہاتھ والدین کی جیبوں اور پاؤں گردن پر ہوتے ہیں جب کہ مدارس نے دینی تعلیم کو کاروبار نہیں اپنا فریضہ سمجھ کر رضائے الہی کا ذریعہ بنایا۔ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے ان مدارس میں تعلیم ہی نہیں، رہائش، کھانا، کپڑے، کتابیں، طبی سہولیات مفت اور وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ مدارس کا نصاب قومی وحدت و اخوت کا مظہر مگر عصری علوم کے ریاستی نظام تعلیم طبقاتی اور قومی وحدت کے لیے زہر قاتل ہیں، ایک ہی شہر اور علاقے میں موجود سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں رنگ برنگے نصاب پڑھائے جارہے ہیں، کہیں آکسفورڈ، کہیں کیمبرج تو کہیں کوئی اور نصاب جو معاشرے میں تقسیم کا سبب بن رہے ہیں۔

نام نہاد روشن خیال خلاف واقعہ اور بلا تحقیق یہ الزام لگاتے ہیں کہ علماء خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں، جب کہ پاکستان میں دینی مدارس کے سب سے بڑے وفاق، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ طلباء سے زیادہ طالبات کے مدارس الحاق شدہ ہیں، جس میں طلباء سے زیادہ طالبات زیر تعلیم ہیں۔ یہ مدارس پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کے لیے بھی نعمت کبریٰ سے کم نہیں، حکومت کو ان مدارس کا ہمیشہ احسان مند رہنا چاہیے، انھیں سہولیات دینی چاہیے لیکن افسوس کہ ہر دور حکومت میں مدارس کے راستے میں رخنے ڈالے گئے۔ کبھی مدارس کو دہشت گردی کے اڈے تو کبھی جہالت کی فیکٹریاں کہا گیا، کبھی مدارس کے نظام پر قدغنیں، کبھی نصاب پر اعتراض، کبھی مدارس میں پڑھانے والوں کی داڑھی ٹوپی اور پگڑی کا مذاق اڑایا گیا۔ اللہ رب العزت کی شان کہ رخنے ڈالنے والوں کا آج نام و نشان باقی نہیں اور مدارس آج بھی قائم اور انشاء اللہ تاقیامت قائم ودائم رہیں گے۔ کاش موجودہ حکمران ماضی سے سبق حاصل کرتے اور مدارس دشمنی سے باز رہتے۔ کراچی تا خیبر اہل مدارس حکومتی اقدامات کی وجہ سے شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ خلاف واقعہ مدارس پر رجسٹریشن نہ کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے۔

مدارس قانون کے مطابق رجسٹریشن کرانے کے لیے تیار ہیں لیکن حکومتی ادارے رجسٹریشن کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم موجودہ حکومت نے منظور کی اس ترمیم میں حکومت نے مدارس کی رجسٹریشن کا بل پیش کیااور اسے منظور کراکے ایکٹ بنایا جس کے مطابق مدارس کو اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو وزارت تعلیم اسلام آباد یا سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرائیں، مگر مدارس پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ رجسٹریشن وزارت تعلیم میں کرائیں ورنہ مدارس بند کردیں گے، مہتمین اور علماء کرام پر مقدمات قائم اور نام فورتھ شیڈول میں ڈالے جائیں گے۔ اپنے اس غیر آئینی و غیر قانونی اقدام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوائف طلبی کے نام پرعلماء کو ہراساں کرنے کی اطلاعات آرہی ہیں جس کی وجہ سے پورے ملک میں اہل مدارس مضطرب ہیں۔

گزشتہ دنوں اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان پختونخوا کا اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ صوبائی صدر مولانا حسین احمد کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے مولانا ڈاکٹر عبدالناصر لطیف، وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کے مولانا عمر عبدالعزیز، مولانا عبدالبصیر رستمی، رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان کے مولانا عبدالاکبر چترالی، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مولانا سید عبدالبصیر شاہ، مولانا حبیب الرحمٰن، حافظ محمد داؤد فقیر، مولانا ارشد علی قریشی وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے علامہ عابد حسین شاکری کے علاوہ کثیر تعداد میں علماء وشیوخ نے شرکت کی،مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے کوائف کی طلبی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے علاقوں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ مدارس سے جو کوائف مانگے جارہے ہیں اس قسم کے کوائف ماضی میں کبھی نہیں مانگے گئے۔یہ صرف خیبر پختونخوا میں نہیں پورے ملک میں ہورہا ہے۔ حکومت دانشمندی کا مظاہرہ کرے اور اس ایشو کو خوش اسلوبی سے طے کرے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان، 3 سال میں 5 ہزار ارب کی کرپشن کسی کو نظر نہیں آتی: مزمل اسلم
  • پاکستان کو کسی صورت بھی فوج غزہ نہیں بھیجنی چاہیئے، حافظ نعیم الرحمان
  • مدارس کی خدمات اور ریاست کا دباؤ
  • غزہ امن منصوبے کی عملی صورت گری؟
  • پاکستان کو کسی صورت فوج غزہ نہیں بھیجنی چاہیے، حافظ نعیم الرحمان
  • جی بی کا مخصوص جغرافیہ عالمی توجہ کا مرکز ہے، فیض اللہ فراق
  • 28 ویں آئینی ترمیم کب آئے گی؟ وزیراطلاعات نے بتا دیا
  • بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے کی کوششیں، افغان وزیر تجارت نئی دہلی پہنچ گئے
  • عظمیٰ بخاری کے چچا سید مجاہد حسین بخاری انتقال کر گئے
  • اسلام آباد ہائیکورٹ عمارت منتقلی کے معاملے پر نیا موڑ، ہائیکورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار آمنے سامنے