تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ چھبیسویں ترمیم کے بعد جو ایجنڈا ادھورا رہ گیا تھا، حکومت اب ستائیسویں ترمیم کے ذریعے اُسے مکمل کرنا چاہتی ہے، آئین حکومتوں کو پابند کرنے کیلئے ہوتا ہے، حکومتوں کو یہ حق نہیں کہ وہ آئین کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے بگاڑیں۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ عروۃالوثقیٰ لاہور میں خطاب کرتے ہوئے سربراہ تحریک بیداری امت مصطفی علامہ سید جواد نقوی نے ستائیسویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈھانچے پر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھبیسویں ترمیم کے بعد جو ایجنڈا ادھورا رہ گیا تھا، اب ستائیسویں ترمیم کے ذریعے مکمل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترمیم کے دو بنیادی نکات سامنے لائے جا رہے ہیں، اول آئینی کورٹ/آئینی بینچ کا قیام تاکہ سپریم کورٹ کا وقت آئینی درخواستوں پر صرف نہ ہو اور اس کی ترکیب بھی مکمل طور پر حکومت طے کرے۔ دوسرا، دفاعی سیٹ اپ میں نیا عہدہ “ڈیفنس کمانڈر” جس کے اختیارات اور مدتِ ملازمت کو آئینی حیثیت دیدی جائے۔

علامہ جواد نقوی نے نشاندہی کی کہ چونکہ ایسی ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، اس لیے چھوٹی جماعتیں اچانک فیصلہ کن حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ “پانچ پیسے والی جماعت” کا کردار یوں کھل کر سامنے آتا ہے کہ جب سب کے پاس رقم موجود ہو لیکن آخری پانچ پیسہ جس جیب میں ہو، وہی اپنی شرطیں منواتا ہے، اسی دن ان کی "لاٹری" کھلتی ہے۔ علامہ نقوی نے خبردار کیا کہ اسی مقام سے خطرہ جنم لیتا ہے، سیاسی سودے بازی، مسلکی و ذاتی نوعیت کے بلوں کی منظوری، کیسوں میں رعایتیں، تقرریوں میں مداخلت اور حکومتوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی روش پروان چڑھتی ہے۔ انہوں نے مدارس رجسٹریشن کے حالیہ تنازعے کو اس کی تازہ مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ پہلے وفاقی وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن کی پالیسی بنی، پھر سودے بازی کے نتیجے میں سوسائٹیز ایکٹ کا بل بھی نکال لیا گیا اور آخرکار صدرِ مملکت نے آرڈیننس کے ذریعے دوہرا راستہ دے کر مزید ابہام پیدا کر دیا۔

علامہ نقوی نے مزید کہا کہ پس منظر وہی "ہائبرڈ نظام" یا "فوجی جمہوریت" کا ماحول ہے، جہاں بڑی جماعتیں اقتدار بانٹ کر بیٹھتی ہیں، نمبر گنے جاتے ہیں اور جہاں پانچ پیسے کم پڑتے ہیں وہاں سودے بازی کے دروازے کھل جاتے ہیں، یوں پورا موسم ہی بلیک میلنگ کا بن جاتا ہے۔ اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ ترمیم واقعی قومی اور دفاعی مفاد کی مستقل ضرورت ہے تو ٹھیک ہے، آئین حکومتوں کو پابند کرنے کیلئے ہوتا ہے، حکومتوں کو یہ حق نہیں کہ وہ آئین کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے بگاڑیں، لیکن اگر اس ترمیم کا مقصد ذاتی یا جماعتی مفاد، وقتی مجبوری یا سیاسی لین دین ہے تو پھر یہ ترمیم آئینی خیانت کے مترادف ہوگی۔ آج کی یہ آسانی کل کی قومی مشکل بن سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حکومتوں کو ترمیم کے انہوں نے نقوی نے کہا کہ

پڑھیں:

آئینی عدالت کے ججوں کے انٹرویو کمشن کرے گا، پہلی تعیناتی وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہوگی: رانا ثناء 

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر سزا ملے گی۔ سزا کی بات آئین میں درج ہے۔ آئینی عہدوں کو دنیا میں عزت دی جاتی ہے۔ سابق صدر، وزیراعظم کا احترام کیا جاتا ہے۔ یہاں ہر وقت کوئی وزیراعظم جیل میں ہوتا ہے۔ ریٹائرمنٹ پر صدر کو استثنیٰ میں کیا برائی ہے۔ سابق صدر کوئی عہدہ لے تو استثنیٰ نہیں ہوگا۔ آئینی عدالت کے ججوں کے انٹرویو کمشن کرے گا۔ پہلی تعیناتی وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم کا مقصد طاقتوروں کو استثنیٰ دلانا ہے، حافظ نعیم
  •  27ویں آئینی ترمیم آئین اور جمہوریت پر شب خون، جماعت اسلامی نظام کی تبدیلی کے لیے تیار ہے، حافظ نعیم
  • 27ویں ترمیم سے متعلق دو تین اچھی تجاویز پر بات چیت جاری ہے؛ وزیرقانون
  • آئینی عدالت کے ججوں کے انٹرویو کمشن کرے گا، پہلی تعیناتی وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہوگی: رانا ثناء 
  • 27ویں آئینی ترمیم ملک کی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچائے گی، علامہ مقصود ڈومکی
  • غزہ کا محاصرہ دراصل امت کی بے حسی کا پردہ فاش کر رہا ہے، علامہ جواد نقوی
  • جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ،27ویں آئینی ترمیم لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی
  • جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ نے ستائیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائر کر دی
  • مقامی حکومتوں کی تشکیل اٹھارویں ترمیم کی منسوخی نہیں بلکہ آئینی ضمانت ہے، فیصل سبزواری