غزہ میں جنگ بندی کیلئے فیصلہ کن پیش رفت ہورہی ہے،امریکی صدر
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
امریکی صدر نے عندیہ دیا ہے غزہ میں جنگ بندی کیلئے فیصلہ کن پیش رفت ہو رہی ہے ،حماس کئی اہم معاملات پررضامندہو چکی ہے-ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے معاہدہ جلد متوقع ہے جس سے خطے میں دیرپا امن کی راہ ہموارہو سکتی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے معاہدہ جلد ہوگا، تمام ممالک نے غزہ امن منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے، حماس نے مذاکرات میں بہت اہم باتوں پر اتفاق کر لیا، ہم مشرق وسطیٰ میں3 ہزار سال پرانا تنازع حل کرنے جا رہے ہیں،ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ترکیہ، یو اے ای اور سعودی عرب بھی امن کیلئے کوشاں ہیں، تجارت اور ٹیرف سے7 جنگیں روکیں، پاکستان اور بھارت کی جنگ بھی رکوائی، پاک بھارت جنگ میں7 طیارے گرائے گئے تھے-
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
افغان وزیرخارجہ کے دورہ سے تصدیق ہورہی بھارت دہشت گردی کیلئے طالبان کا معاون
لاہور (تجزیہ: فیصل ادریس بٹ) افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی کے دورہ بھارت سے اس امر کی تصدیق ہو رہی ہے را اور بھارتی حکومت انسانی امداد کی آڑ میں پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کیلئے طالبان کو مالی معاونت کر رہے ہیں۔ خاص طور پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور بھارتی آرمی چیف و ائیر چیف کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ شروع کر کے خطے کے امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے تو افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی کا دورہ بھارت معنی خیز ہے۔ بھارت کی جانب سے تاحال افغانستان کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے، اس کے باوجود ملا امیر متقی نے بیرونی دورے کیلئے بھارت کا انتخاب کیوں کیا؟ دوسری جانب پہلگام حملے کے بعد افغان طالبان کے عسکری رہنما ابراہیم صدر نے بھارت کا خفیہ دورہ بھی کیا تھا، ابراہیم صدر ملا ہیبت کے قریب سمجھا جاتا ہے اور ان کی رائے کو سیاسی و دفاعی اعتبار سے اہمیت دی جاتی ہے جبکہ پندرہ مئی کو بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے افغان وزیر خارجہ سے بھی بذریعہ فون بات چیت کی۔ نئی دہلی کا دورہ کرنے سے قبل امیر متقی کو اقوام متحدہ سے سفری پابندیوں کی وجہ سے اجازت بھی لینا پڑی، اگر ہم دنیا میں تین ممالک بھارت، افغانستان اور اسرائیل کی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو یہ تینوں ممالک پاکستان کے خلاف ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے اور عملی طور پر طالبان اور بی ایل اے کو مالی طور پر مستحکم کرتا ہے جبکہ اسرائیل کا بھی اس میں تعاون شامل نظر آتا ہے اگرچہ پاکستان بھارت کو منہ توڑ جواب دے چکا ہے اور آ ئندہ بھی دیتا رہے گا لیکن اب افغان عوام کو بھی اس امر کا احساس کرنا ہوگا کہ افغان حکومت اگر ہندو نظریے کی حامل بھارتی حکومت کیساتھ تعلقات کو فروغ دے رہی ہے تو پاکستان کا را اور طالبان کے گٹھ جوڑ کا الزام حقیقت پر مبنی ہے۔ افغان اپنے برادر ملک پاکستان کی بجائے بھارت سے قربتیں بڑھانے کی افغان طالبان کی پالیسیوں پر غور کریں جبکہ عالمی سطح پر بھی اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ افغانستان اور بھارت کا گٹھ جوڑ خطے میں امن و سلامتی کیلئے خطرہ ہو گا۔ پاکستان تو ان مسائل سے نمٹنے کا ہنر جانتا ہے اور عنقریب ہم دہشتگردی کے جن کو قابو کر کے بھارت کو شکست سے دوچار کر ہی دیں گے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ عالمی طاقتیں بھی اس گٹھ جوڑ کے خلاف کارروائی کریں، افغان وزیر خارجہ کا دورہ بھارت خطے میں پاکستان اور چین کے اثرورسوخ کو کم کرنے کی سازش ہے تو پاکستان اور چین کو بھی اس حوالے سے اب اپنی پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا جو یقینی طور پر کی جائے گی، ایک طرف تو پاکستان، چین، روس اور ایران مشترکہ طور پر افغان طالبان پر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ پالیسی اختیار کر رہے ہیں جو پاکستان کی سفارتی فتح کے مترادف ہے تو دوسری جانب بھارت اور افغانستان نئی سازشیں تیار کر رہے ہیں جنہیں روکنا اب ضروری ہوگیا ہے اگر امریکہ بگرام ائیر بیس کی واپسی چاہتا ہے اور امیر متقی اس حوالے سے بھارت کے ساتھ مشاورت کرنا چاہتے ہیں تو امریکہ کو بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت امریکہ کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ کیوں ڈال رہے، نریندر مودی ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف نما غضب کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے بھارت کی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے لیکن بھارتی عوام کو گمراہ کرنے کیلئے نریندر مودی پاکستان مخالف نعرے لگا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھارتی عوام بھی سب جان چکی ہے اور اب نریندر مودی کی سازشیں کامیاب ہونے والی نہیں ہیں۔ افغان بھارت گٹھ جوڑ کا توڑ بھی تیار ہے اور ملک دشمن قوتوں کو سرپرائز ملے گا کیونکہ پاکستان کی فوج اور عوام متحد ہیں۔