2 سال قبل غم میں ڈوبی تصویر میں دکھائی دینے والی غزہ کی خاتون مزید مصائب کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
دو سال سے جاری اسرائیلی بمباری نے غزہ کی بے گھر فلسطینی عورت اناس ابو معمر کے دکھ مزید بڑھا دیے ہیں۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق جنگ کے ابتدائی دنوں میں ایک تصویر سامنے آئی تھی، جس میں ابو معمر ہسپتال کے مردہ خانے میں اپنی 5 سالہ بھتیجی کی کفن میں لپٹی لاش کو گود میں لیے ہوئے تھیں، اُس وقت سے لے کر اب تک اسرائیلی فضائی حملوں اور ٹینکوں کی گولا باری نے ان کے کئی قریبی رشتہ داروں کو مار ڈالا ہے، اور وہ خود دکھ، بھوک اور بے گھری کی حالت میں اپنے کمسن یتیم بھانجے کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔
بھتیجی کی شہادت
سالی اُس وقت جاں بحق ہوئی تھی، جب ایک اسرائیلی میزائل نے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں واقع ان کے خاندانی گھر کو نشانہ بنایا تھا، فوٹوگرافر محمد سالم نے 17 اکتوبر 2023 کو خان یونس کے نصیر ہسپتال کے مردہ خانے میں ابو معمر کو سالی کی لاش کو گلے لگائے ہوئے پایا تو تصویر کھینچ لی تھی۔
اس دھماکے میں ابو معمر کی پھوپھی، چچا، بھابھی، کزنز اور سالی کی ننھی بہن سبا بھی شہید ہوئے تھے، اس سال کے موسمِ گرما میں ان کے والد اور بھائی رامز (سالی کے والد) اُس وقت مارے گئے جب وہ خاندان کے لیے کھانا لانے جا رہے تھے۔
ابو معمر اب اپنے بھتیجے احمد کی پرورش کر رہی ہیں، جو رامز کا بیٹا اور سالی کا چھوٹا بھائی ہے، احمد نے اپنی والدہ، دونوں بہنوں اور نانی، نانا کو جنگ کے صرف 10 دن بعد کھو دیا تھا، اور جون میں جب خوراک ختم ہو گئی تھی تو کھانا لانے کے دوران وہ اپنے والد اور دادا سے بھی محروم ہو گیا تھا۔
یہ سب اُن 67 ہزار سے زائد فلسطینیوں میں شامل ہیں، جنہیں مقامی صحت حکام کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں شہید کیا جا چکا ہے، مزید ہزاروں افراد ملبے تلے دبے پڑے ہیں، جنہیں سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا جاسکا۔
38 سالہ ابومعمر نے کہا کہ جنگ نے ہم سب کو تباہ کر دیا، اس نے ہمارے خاندان کو برباد کر دیا، ہمارے گھر اجاڑ دیے اور ہمارے دلوں میں درد اور محرومی چھوڑ دی ہے۔
خیمہ بستی میں زندگی
ابو معمر اور ان کے باقی رشتہ دار پچھلے 2 برسوں میں کئی بار اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں سے بچنے کے لیے اپنا ٹھکانا بدل چکے ہیں، اور اب وہ سمندر کے قریب ریت پر قائم ایک گنجان خیمہ بستی میں رہ رہے ہیں۔
حالات نہایت سخت ہیں, بیماریاں عام ہیں, کھانے پینے اور صاف پانی کی شدید قلت ہے, اسرائیلی بمباری سے خوف زدہ آبادی مسلسل دہشت کے سائے میں جی رہی ہے۔
ابو معمر کی سب سے بڑی فکر اپنے بھتیجے احمد کے لیے ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس کا باپ اسے ساتھ لے جاتا، اس کے ساتھ کھیلتا، اسے سمندر پر لے جاتا، اپنی بہنوں سے ملواتا تھا، لیکن اب اس کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی ہے، وہ خیمے میں 24 گھنٹے بند رہتا ہے۔
اپنے والد کی موت کے بعد احمد اکثر ایک بلی کے ساتھ وقت گزارتا تھا، جس کا نام اس نے لوز رکھا تھا، ابو معمر کے مطابق وہ بلی بھی اگست میں مر گئی۔
جنگ کے خاتمے کا انتظار
جب خبر رساں ادارے نے ایک سال قبل ابو معمر سے بات کی تھی، تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ خون کی اس ندی کے رکنے کا انتظار کر رہی ہیں، آج بھی وہ انتظار میں ہیں، اور انہیں خدشہ ہے کہ جنگ ختم کرنے کی تازہ کوششیں بھی ناکام ہو جائیں گی، جب تک ٹرمپ اسرائیل پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالتے۔
انہوں نے کہا کہ بس بہت ہو گیا، جو ہم نے کھو دیا، وہ کافی ہے۔ ہمارے بہت سے پیارے چلے گئے، ہم ان کے ساتھ اپنے گھروں سے نکلے تھے، اب ان کے بغیر واپس جائیں گے۔
میرا واحد خوف یہ ہے کہ جنگ جاری رہے، ہم نہیں چاہتے کہ یہ جنگ مزید چلے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل نے گریٹا تھنبرگ سمیت مزید 170 رضاکاروں کو ملک بدر کر دیا
اسرائیل نے غزہ میں خوراک اور ادویہ لے جانے کی کوشش پر گرفتار کیے گئے 500 رضاکاروں میں مزید 170 کو ان کے ملک واپس بھیج دیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق ان افراد کو جنوبی اسرائیل کے رامون انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے یونان اور سلواکیہ بھیجا گیا۔
آج جن رضاکاروں کو ملک بدر کیا ہے ان میں سویڈن کی عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل ہیں۔
گریٹا تھنبرگ سمیت کئی رضاکاروں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ انھیں غیر قانونی حراست اور غیر انسانی حالات میں رکھا گیا اور ان کی بنیادی آزادیوں کو سلب کیا گیا۔
ادھر اسرائیلی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ حراست کے دوران ایک ہسپانوی رضاکار نے جیل میں ایک طبی عملے کو کاٹ لیا تھا۔
اسرائیلی حکام نے بتایا کہ اب تک مجموعی طور پر 341 رضاکار ملک بدر کیے جا چکے ہیں جبکہ 138 اب بھی زیر حراست ہیں۔
ملک بدر کیے جانے والوں کا تعلق یونان، اٹلی، فرانس، آئرلینڈ، سویڈن، پولینڈ، جرمنی، بلغاریہ، لتھوانیا، آسٹریا، لگزمبرگ، فن لینڈ، ڈنمارک، سلواکیہ، سوئٹزرلینڈ، ناروے، برطانیہ، سربیا اور امریکا سے ہے۔
یاد رہے کہ ’’صمود فلوٹیلا‘‘ 43 کشتیوں پر مشتمل قافلہ تھا جو 27 ستمبر 2025 کو ترکیہ اور یونان کے بندرگاہوں سے روانہ ہوا۔
ان کشتیوں میں المہ، سیریئس، فریڈم، الکریم اور ہوپ شامل تھیں، جن پر یورپ اور امریکا سمیت 20 سے زائد ممالک کے 500 سے زیادہ کارکن سوار تھے۔
ان کا مقصد غزہ کے لیے انسانی امداد پہنچانا اور اسرائیلی محاصرے کے خلاف عالمی توجہ مبذول کرانا تھا۔
یہ سفر تقریباً ایک ہفتے جاری رہا لیکن اسرائیلی بحریہ نے یکم اکتوبر 2025 کو بحیرۂ روم میں ان کشتیوں کو روک لیا اور سب رضاکاروں کو حراست میں لے کر قید خانوں میں منتقل کر دیا۔