اپنے ایک بیان میں علی ابو شاھین کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل کسی شرط اور ضمانت کے بغیر اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "جہاد اسلامی" كے پولیٹیكل بیورو "علی ابوشاهین" نے اعلان کیا کہ موجودہ مرحلے میں مزاحمت کی اولین ترجیح غزہ کے خلاف جنگ اور نہتے شہریوں کے قتل عام كا خاتمہ ہے۔ علی ابو شاھین نے غزہ اور اسرائیل کے درمیان غیر مستقیم مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا كہ ان مذاکرات میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل کسی شرط اور ضمانت کے بغیر اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ البتہ استقامتی محاذ کا اس بات پر اصرار ہے کہ بنیادی شرط کے طور پر کسی بھی معاہدے تک پہنچنے کے لئے ہر طرح کے صیہونی حملے بند کئے  جائیں۔ واضح رہے کہ آج شرم الشیخ میں ثالثین کی مدد سے فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے تیسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔

یہ مذاکرات مصر کے مقامی وقت صبح 11 بجے شروع ہوئے، جس میں قیدیوں کے تبادلے، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی عدم تکرار کو یقینی بنانا، قابض فورسز کے انخلاء اور غزہ میں امداد کی ترسیل کے عمل پر تبادلہ خیال جاری ہے۔ مذاکرات کے اس مرحلے میں مصری انٹیلی جنس ایجنسی چیف "حسن رشاد"، قطری وزیر اعظم و وزیر خارجہ "محمد بن عبدالرحمن آل ثانی"، ترکیہ كے سیكورٹی و انٹیلی جنس ایجنسی چیف "ابراہیم کالین" اور ڈونلڈ ٹرامپ کے دو ایلچی "اسٹیو ویٹکاف" و "جیرڈ کشنر" موجود ہیں۔ اس پیشرفت كے بارے میں مصری مصنف اور صحافی "سمیر عمر" نے کہا كہ گزشتہ دو دنوں کے دوران شرم الشیخ میں ہونے والے مذاکرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین غزہ میں جنگ بندی کے لئے ڈونلڈ ٹرامپ کے منصوبے کو نتیجہ خیز بنانے اور نافذ کرنے کے لئے سخت محنت کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

غزہ امن منصوبے پر عملدرآمد کیلئے حماس، اسرائیل اور امریکا کے درمیان مذاکرات

قاہرہ(نیوز ڈیسک) فلسطینی تنظیم حماس، اسرائیل اور امریکا کے وفود غزہ منصوبے پر عملدرآمد کے لیے مصر میں مذاکرات کے لیے آج جمع ہو رہے ہیں، تینوں فریقین کے نمائندے شرم الشیخ میں بات کریں گے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ پٹی میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ ختم کرنے کے لیے جلدی کریں۔

حماس اور اسرائیل دونوں نے لڑائی ختم کرنے اور غزہ میں قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی سے متعلق ٹرمپ کے روڈ میپ پر مثبت ردِعمل دیا ہے، اگرچہ تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔

ایک سینئر حماس عہدے دار نے بتایا کہ تنظیم جنگ ختم کرنے کے معاہدے تک پہنچنے اور زمینی حالات کے مطابق قیدیوں کے فوری تبادلے کے عمل کے آغاز کے لیے بہت پرعزم ہے۔

دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ انہیں امید ہے قیدیوں کی رہائی چند دنوں میں ممکن ہو جائے گی۔

ٹروتھ سوشل پر پوسٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے حوالے سے حماس اور دیگر فریقوں کے ساتھ بہت مثبت بات چیت ہوئی ہے، مذاکرات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور مزید بتایا کہ پہلا مرحلہ اسی ہفتے مکمل ہو جانا چاہئے اور میں سب سے کہہ رہا ہوں کہ تیزی دکھائیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ ہماری کچھ بہت اچھی ملاقاتیں ہوئی ہیں، دنیا کے ممالک، اسرائیل کے ارد گرد بہت سے ممالک واضح طور پر مسلم، عرب اور بہت سے دوسرے حماس کے ساتھ بہت اچھی ملاقاتیں کر چکے ہیں اور لگتا ہے کہ یہ طریقہ کام کر رہا ہے۔

ٹرمپ نے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مدد کے لیے دو نمائندے بھیجے ہیں جن میں ان کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر شامل ہیں۔

حماس نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اس کے مرکزی مذاکرات کار خلیل الحیہ اتوار کی شب وفد کی قیادت میں مصر پہنچے، نیتن یاہو کے مطابق اسرائیلی وفد آج مصر روانہ ہو گا۔

امریکہ، مصر اور قطر کی مہینوں کی ثالثی کی ناکام کوششوں کے بعد متعدد ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں تازہ سفارتی پیش رفت پر امید ظاہر کرتے ہوئے مذاکرات کو ایک ’حقیقی موقع‘ قرار دیا ہے تاکہ پائیدار جنگ بندی ممکن ہو سکے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مذاکرات سے قبل اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ پر بمباری روک دے، آپ فضائی حملوں کے دوران یرغمالیوں کو رہا نہیں کرا سکتے۔

ایک فلسطینی ذریعے جو حماس کے قریب ہے، کے مطابق عسکریت پسند اپنی عسکری کارروائیاں روکنے کے لیے تیار ہیں جب اسرائیل اپنی کارروائیاں روک دے گا۔

ٹرمپ نے کہا ہے کہ جب قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہو جائے گا تو ہم اگلے مرحلے یعنی اسرائیلی فوج کے انخلا کے لیے حالات پیدا کریں گے، امریکی منصوبے کے تحت نہ صرف لڑائی روکنے کی بات گئی ہے، اس میں 72 گھنٹے کے اندر زندہ قیدیوں اور مردہ قیدیوں کی لاشوں کی حوالگی شامل ہے۔

فلسطینی حریت پسندوں نے اپنے سات اکتوبر کے حملے میں 251 اسرائیلیوں کا قیدی بنایا جن میں سے 47 اب بھی غزہ میں ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے 25 جان سے جا چکے ہیں۔

قیدیوں کے بدلے اسرائیل سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ عمر قید پانے والے 250 فلسطینی قیدیوں اور جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے غزہ کے 1700 سے زیادہ قیدیوں کو رہا کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات میں پیش رفت، حماس اور اسرائیل کے مابین قیدیوں و یرغمالیوں کی فہرستوں کا تبادلہ
  • قاہرہ مذاکرات میں اہم پیشرفت، اسرائیل اور حماس میں قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ
  • مصر میں امن مذاکرات کا دوسر ا روز: قیدیوں کے تبادلے پر حماس اور اسرائیل میں اتفاق نہ ہو سکا
  • صیہونی بربریت کے دو سال مکمل، ہزاروں شہید، لاکھوں زخمی، لاکھوں بے گھر، آج بھی 24 جنازے
  • نتین یاہو کی اولین ترجیح اس کا ذاتی مفاد ہے، سابق صیہونی وزیراعظم
  • غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے کو ایک ہفتے میں مکمل کرلیا جائے؛ ٹرمپ
  • غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے کو ایک ہفتے میں مکمل کرلیا جائے، ٹرمپ
  • غزہ امن منصوبے پر عملدرآمد کیلئے حماس، اسرائیل اور امریکا کے درمیان مذاکرات
  • غزہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘قیدیوں کی رہائی ترجیح ہے‘ امریکی وزیر خارجہ