وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی کا علیمہ خان پر تنقید سے تعلق نہیں: علی ظفر
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
بیرسٹر علی ظفر—فائل فوٹو
پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی کے فیصلے کا علیمہ خان پر تنقید سے کوئی تعلق نہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی نے اورکزئی واقعے پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے، دہشت گردی کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
جے یو آئی ف کے امیر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کے پی کی تبدیلی پر ابھی کوئی بات نہیں کر سکتا، موجودہ صورتِ حال پر نظر ہے، صوبے میں بے امنی و کرپشن انتہا پر ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت مذاکرات کی پالیسی پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کرا سکی، وزیرِ اعلیٰ کو تبدیل کیا گیا تاکہ نئے وزیرِ اعلیٰ اس پالیسی پر عمل درآمد کرائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے مسائل بھی پاکستان کے مسائل ہیں، یہ کہنا کہ وزیرِاعلیٰ کابل سے احکامات لیں گے، یہ بہت غلط بات ہے ۔
پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ بھی غلط بات ہے کہ اسمبلی میں کی گئی بات باہر آئے تو اس پر کارروائی ہو سکتی ہے، قانون یہ ہے کہ اسمبلی میں خطاب پر ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بیرسٹر علی ظفر کی تبدیلی
پڑھیں:
سمجھ نہیں آیا ججوں نے درخواست سپریم کورٹ میں کیوں دی؟ بیرسٹر عقیل ملک
وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک : فائل فوٹووزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ججز نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی کوشش کی ہے، سمجھ نہیں آیا کہ ججوں نے درخواست سپریم کورٹ میں کیوں دی؟
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ ججز کی اس درخواست کے لیے سپریم کورٹ صحیح فورم نہیں، سپریم کورٹ کے رولز اپنا لیے گئے ہیں، وفاقی آئینی عدالت نے مکمل طور پر اپنا لیے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے 13 صفحات پر مشتمل استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا، انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر سنگین حملہ ہے۔
بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ آئینی عدالت قائم ہو چکی ہے، اب آئینی نوعیت کے تمام کیسز آئینی عدالت سننے کی مجاز ہوگی، سمجھ نہیں آیا کہ ججوں نے درخواست سپریم کورٹ میں کیوں دی؟
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز نے درخواست دی جس پر اعتراض لگا، 27ویں ترمیم کے بعد اس درخواست کو سننے کی مجاز آئینی عدالت ہی ہے، ججز کی یہ درخواست آئینی عدالت میں ہی دائر ہونی چاہیے تھی۔
بیرسٹر عقیل ملک نے مزید کہا کہ ججز کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا گیا، ججز کے ٹرانسفر کا جو اختیار صدر مملکت کو تھا وہ جوڈیشل کمیشن کو سونپ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ججز کا استعفیٰ دینا ان کا استحقاق ہے، ججز کے استعفوں سے متعلق غلط تاثر قائم کیا جا رہا ہے۔