وینزویلا : امریکی سفارتخانے کو دھماکے سے اُڑانے کی کوشش
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراکس (انٹرنیشنل ڈیسک) وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں موجود امریکی سفارت خانے پر فالس فلیگ بم دھماکے کی سازش ناکام بنا دی۔ صدر مادورو نے دعویٰ کیا کہ ملکی سیکورٹی فورسز نے امریکی سفارتخانے میں بم دھماکے کی ایک مبینہ سازش کو ناکام بنا دیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ امریکی سفارت خانوں پر حملہ کرکے الزام حکومت پر لگایا جاتا ، تاکہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو مزید خراب کیا جا سکے۔وینزویلا کے صدر نے مزید کہا کہ اس سازش کے بارے میں حکومت کو ایک ملکی اور ایک بین الاقوامی ذریعہ سے اطلاع ملی تھی کہ مقامی دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر امریکی سفارتخانے میں بم نصب کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ صدر مادورو نے مزید بتایا کہ اس اطلاع کے بعد فورسز کو فوری طور پر سفارتخانے کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا۔ اس سازش کے پیچھے کون لوگ تھے، ان کے نام جلد سامنے لائے جائیں گے۔ یاد رہے کہ 2019 ء میں امریکا اور وینزویلا کے درمیان سفارتی تعلقات ٹوٹنے کے بعد سے امریکی سفارتخانہ بند ہے اور وہاں صرف حفاظتی عملہ موجود ہے۔ یہ خبر ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکا اور وینزویلا کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل کو ہدایت دی ہے کہ وینزویلا کے ساتھ تمام مذاکرات روک دیے جائیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: وینزویلا کے
پڑھیں:
بگرام ایئربیس واپس لینے کی امریکی کوشش قبول نہیں، ماسکو فارمیٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اکتوبر 2025ء) روسی دارالحکومت میں منگل کے روز منعقدہ ساتویں ماسکو فارمیٹ اجلاس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیے میں افغانستان میں اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل بگرام ایئر بیس کا کنٹرول حاصل کرنے کی کسی بھی طرح کی کوششوں کی مخالفت کی گئی ہے۔
اجلاس میں افغانستان، بھارت، ایران، قازقستان، چین، کرغزستان، پاکستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے خصوصی نمائندوں اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
اجلاس میں افغانستان کے وفد نے پہلی بار بطور رکن شرکت کی، جس کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی۔ماسکو فارمیٹ مشاورت برائے افغانستان کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں امریکہ کا نام لیے بغیر افغانستان یا اس کے پڑوسی ممالک میں کسی بھی ملک کی جانب سے اپنی فوجی تنصیبات قائم کی کوششوں کو ناقابل قبول قرار دیا گیا، کیونکہ یہ خطے میں امن اور استحکام کے مفاد میں نہیں۔
(جاری ہے)
‘‘یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اعلان کے پس منظر میں سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے افغانستان کے سب سے بڑے فضائی اڈے یعنی بگرام ایئر بیس کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
طالبان حکومت پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ وہ کسی غیر ملکی طاقت کو اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دے گی۔
پاکستان نے کیا کہا؟اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی سفیر محمد صادق نے کی۔
ایکس پر جاری ایک بیان میں محمد صادق کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایک پرامن، مستحکم اور محفوظ افغانستان کے لیے اپنی غیر متزلزل وابستگی کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہا، ''میں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور افغان سرزمین سے کام کرنے والے تمام دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے کے لیے مشترکہ علاقائی کوششیں ناگزیر ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''میں نے سیاسی و معاشی تعاون کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف اور منشیات کے انسداد میں علاقائی تعاون کو بڑھانے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔
‘‘محمد صادق نے بتایا، ''اجلاس میں ان چیلنجز سے نمٹنے اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مسلسل مکالمہ، تعاون اور مربوط اقدامات کو ناگزیر قرار دیا گیا۔‘‘
روس کا بیانروس کا طالبان حکومت کو رواں سال کے اوائل میں تسلیم کرنے کے بعد افغانستان کے ساتھ یہ پہلا باضابطہ اجلاس تھا۔ اس موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مغربی پابندیوں کی مذمت کی اور افغانستان کی جنگ کے بعد بحالی کے لیے عالمی حمایت کی اپیل کی۔
لاوروف نے طالبان کی تعریف کی کہ وہ خطے میں موجود داعش کے دھڑے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے مغرب کو اس کی "تصادم کی پالیسی" پر تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں افغان ریاستی اثاثوں کو منجمد رکھنا اور اس کے بینکاری نظام پر پابندیاں شامل ہیں۔
لاوروف نے مغربی ممالک سے ضبط شدہ افغان اثاثے واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا، ''ہم مغربی ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسی درست کریں، ضبط کیے گئے افغان اثاثے واپس کریں اور افغانستان کی تعمیرِ نو کی ذمہ داری قبول کریں۔‘‘روسی وزیر خارجہ نے افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک میں غیر ملکی فوجی اڈے قائم کرنے کے خلاف بھی خبردار کیا۔
انہوں نے کہا، ''تاریخ نے ہمیں غیر ملکی فوجی مداخلت کے تباہ کن نتائج دکھائے ہیں۔
ہم یہ غلطیاں دوبارہ دہرانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘مذاکرات کے دوران روس کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ماسکو کا افغانستان میں فوجی اڈے قائم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
طالبان کا اظہار تشکراجلاس میں شریک ممالک نے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان اور خطے کے ممالک کے درمیان اقتصادی و تجارتی تعلقات، سرمایہ کاری کے تعاون اور ترقیاتی منصوبوں کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ صحت، غربت میں کمی، زراعت اور قدرتی آفات سے بچاؤ جیسے شعبوں میں مسلسل پیش رفت کے ذریعے افغانستان کو جلد از جلد آزاد اور پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے افغان عوام کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ہنگامی انسانی امداد کی فراہمی کو مزید تیز کرے، ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ اس امداد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اجلاس میں افغانستان کو رکن کے طور پر مدعو کرنے پر روس کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا،''خوش قسمتی سے افغانستان اور خطے کے درمیان تعلقات مضبوط ہوئے ہیں اور استحکام کی طرف گامزن ہیں۔ یہ امر اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ عالمی برادری میں افغانستان کے بارے میں فہم، اعتماد اور خیر خواہی میں اضافہ ہوا ہے۔
‘‘متقی نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام کے وقت افغانستان کو جن سکیورٹی چیلنجز کا سامنا تھا، جنہوں نے افغانستان کو خطے اور دنیا سے الگ تھلگ کر دیا تھا، یہ چیلنجز بڑی حد تک قابو میں آچکے ہیں۔ افغانستان اب خطرے کا نہیں بلکہ خطے کے استحکام اور معاشی ترقی کا ضامن اور شریک کار بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین پر کوئی ایسا گروہ موجود نہیں جو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہو رہا ہو۔
متقی نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا، ''ہم ان ممالک کے حکام سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے داخلی مسائل کی ذمہ داری خود قبول کریں۔‘‘
ادارت: عدنان اسحاق