Jasarat News:
2025-11-23@16:09:06 GMT

دو ریاستی حل یا صرف فلسطینی ریاست؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

دو ریاستی حل یا صرف فلسطینی ریاست؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251009-03-5
متین فکری
امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ میں مستقل جنگ بندی اور پائیدار امن کے لیے اپنا 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تھا جس میں متعدد باتیں قابل قبول تھیں۔ جن نکات پر اختلاف رائے تھا ان پر مذاکرات ہوسکتے تھے اور انہیں قابل قبول بنایا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور ترکی سمیت تمام عرب ملکوں نے اسے بلا اکراہ قبول کرلیا تھا البتہ حماس کے جواب کا انتظار تھا کہ یہ امن منصوبہ منظوری کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے رفقا کو پیش کیا گیا۔ صدر ٹرمپ کا خیال تھا کہ انہوں نے یہ منصوبہ اپنے معاونین کی مدد سے اسرائیل کے تمام تر مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کیا ہے اس لیے اسے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا اور وہ باآسانی اس کی منظوری دے دے گا لیکن ہوا یہ کہ نیتن یاہو اور اس کے رفقا نے منصوبے کی منظوری دینے کے بجائے اس پر شق وار غور شروع کردیا اور جہاں ضرورت محسوس کی اس میں ترمیم کرتے چلے گئے اور آخر اس ترمیم شدہ منصوبے کی منظوری کا اعلان کردیا۔ یہ منصوبہ اب اسرائیل کا ہے امریکا کا نہیں لیکن عیاری ملاحظہ ہو کہ اسے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کا نام ہی دیا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی اسے اون کرلیا ہے تاہم عرب ممالک، پاکستان اور ترکی کے لیے یہ کہے بغیر چارہ نہیں رہا کہ یہ منصوبہ اس منصوبے سے مختلف ہے جو انہیں پہلے دیا گیا تھا۔ چونکہ صدر ٹرمپ کا پائوں ان ملکوں کی گردن پہ ہے اس لیے وہ بلا اکراہ اسے قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ اس منصوبے میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو گول کردیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل ایسے کسی حل کا قائل نہیں وہ فلسطینی ریاست کے نام پر اپنے وجود کے مدمقابل کسی اور وجود کا قائل نہیں۔ بلکہ دیکھا جائے تو وہ بحیثیت قوم فلسطینیوں کے وجود ہی کو نہیں مانتا۔

مسلمان ملکوں کے اس مغلوبانہ ردعمل کے مقابلے میں حماس کا ردعمل صبر و حکمت اور دانش کا آئینہ دار ہے۔ اس نے نہ تو منصوبے کو یکسر رد کیا ہے اور نہ ہی اسے من و عن قبول کیا ہے، اس نے فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی فوری رہائی سے اتفاق کیا ہے۔ منصوبے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے اور غزہ سے نکل جائے۔ حماس کی قیادت جانتی ہے کہ یہ اسرائیل کی شدید خواہش ہے جسے منصوبے کی شکل میں ٹرمپ کے منہ میں ڈالا گیا ہے۔ چنانچہ حماس نے اس کا بڑی حکمت سے جواب دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب غزہ ایک غیر جانبدار فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کردیا جائے گا اور اس میں کسی غیر فلسطینی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا یعنی نہ اس میں صدر ٹرمپ کی کچھ چلے گی نہ ٹونی بلیئر کو اس میں دخل اندازی کی اجازت دی جائے گی تو حماس اپنے ہتھیار اس فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کردے گی، البتہ غزہ میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گی کیونکہ اس کا تعلق فلسطین سے ہے اس میں کوئی غیر فلسطینی شامل نہیں۔ البتہ اسرائیل کو غزہ خالی کرنا ہوگا۔ حماس نے غزہ کے مستقبل کے لیے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا ہے جو اسرائیل کے بس میں نہیں ہے اور نہ ہی صدر ٹرمپ اس پر آمادہ ہوں گے۔ اس طرح دیکھا جائے تو حماس کی زیرک قیادت نے صدر ٹرمپ کے منصوبے پر ’’مثبت‘‘ ردعمل ظاہر کرکے امریکا اور اسرائیل دونوں کو گھیر لیا ہے اور ان کے لیے فرار کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے جبکہ مسلمان ملکوں نے منصوبے کو من و عن قبول کرکے اپنی سلامتی، اپنا وقار اور فلسطین کے بارے میں اپنے اصولی موقف کو دائو پر لگادیا ہے۔

پوری امت مسلمہ کا دیرینہ اور اصولی موقف تو یہی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اسے ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہ فلسطینیوں کا وطن ہے یہاں ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے لیکن مسلمان ملکوں نے متحد ہو کر کبھی اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ برطانیہ نے جب ’’اعلانِ بالفور‘‘ کے ذریعے سرزمین فلسطین پر اسرائیل کے قیام کو ممکن بنایا تھا تو یہی وقت تھا جب مسلمان ممالک متحد ہو کر میدان عمل میں آ کودتے اور اسرائیل کے قیام کو ناممکن بنادیتے۔ فلسطینی بھی شدید مزاحمت کا مظاہرہ کرتے اور اپنا گھر بار چھوڑنے سے انکار کردیتے لیکن انہوں نے بھی بزدلی کا مظاہرہ کیا اور اپنی زمینوں کی قیمت وصول کرکے بے دخل ہوتے رہے۔ فلسطینی گھر سے بے گھر ہوگئے اور یہودی آباد ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے اپنی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ دی۔ برطانیہ نے تو محض اسرائیل کا قیام ممکن بنایا تھا لیکن امریکا نے اس کی پرورش و پرداخت کی ذمے داری سنبھال لی اور اس حقیر وجود کو عسکری، فنی اور تکنیکی اعتبار سے ایک دیو بنا کر کھڑا کردیا۔

ایک ایسا دیو جس نے اپنے ہمسایہ عرب ملکوں کا ناطقہ بند کررکھا ہے جس نے مصر کو دھول چٹادی ہے، جس نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جس نے عراق کا ایٹمی پلانٹ تباہ کردیا تھا جو مسلسل ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، غزہ کی جنگ بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ وہ اقوام متحدہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور اس کی سلامتی کونسل کو بھی جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ سلامتی کونسل نے یہودی بستیوں کی توسیع کے خلاف کتنی ہی قراردادیں منظور کیں لیکن اسرائیل نے کسی ایک قرار داد پر بھی عمل نہیں کیا اور فلسطینیوں کو بے دخل کرکے یہودی بستیاں قائم کرنا چلا گیا۔ غزہ کی جنگ نے جہاں اقوام عالم کو اسرائیل کے آگے بے بس کردیا ہے وہیں مسلمان ملکوں کو بھی ان کی اوقات یاد دلا دی ہے۔

اب حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں اسرائیل کو نظر انداز کرکے ایک آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام پر اصرار کیا جائے اور مسلمان ممالک متحد ہو کر صدر ٹرمپ سے مطالبہ کریں کہ ان کا امن منصوبہ اسی وقت قابل قبول ہے جب آزاد فلسطینی ریاست کا باضابطہ اعلان کیا جائے اور اسے اقوام متحدہ کا رکن بنایا جائے۔ صدر ٹرمپ تو غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر اسے ایک تفریحی علاقہ بنانا چاہتے تھے لیکن مسلمان ملکوں کی دو ٹوک مخالفت کے سبب امریکی صدر کو اپنی پلاننگ سے دستبردار ہونا پڑا۔ اب یہی موقع ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنایا جائے اور اسی کے مطابق غزہ کی تعمیر نو کا نقشہ مرتب کیا جائے۔ اس وقت ایک سو پچاس ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں اب زمین پر بھی اس کا وجود قائم ہونا چاہیے۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست مسلمان ملکوں ان ملکوں کیا جائے ٹرمپ کے کے قیام بھی اس دیا ہے کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

سعودی سرمایہ اور امریکی دلال لابی

اسلام ٹائمز: لبنانی اخبار، الاخبار کے مطابق بن سلمان کے امریکی دورے سے خطے کے لیے کوئی بڑا تغیر ممکن نہیں، لیکن یہ دورہ دونوں فریقوں، ٹرمپ اور بن سلمان کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ سیدھی ہے کہ ٹرمپ کو پیسہ چاہیے اور بن سلمان کے پاس بے تحاشا پیسہ ہے۔ ٹرمپ ایک تاجر، قمارباز اور پیسے کا دیوانہ شخص ہے۔ بن سلمان اس کے لیے مثالی شراکت دار ہے۔ اگرچہ ٹرمپ خود براہِ راست معاہدوں میں شامل نہ ہو، لیکن اس کے بیٹے، داماد اور کاروباری پارٹنر سب کے مفادات خلیجی تیل سے مالا مال ریاستوں سے جڑے ہوتے ہیں، خاص طور پر سعودی عرب سے۔ ٹرمپ نے اپنے منصوبوں کو اپنے انتہائی مالدار رشتہ داروں اور دوستوں کے حوالے کیا ہے، جو اس کی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی ان منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہیں اور اسی چیز کی ٹرمپ کو شدید ضرورت ہے۔ خصوصی رپورٹ:

جب کئی ممالک میں ڈونلڈ ٹرمپ کی خوشامد اور اس کے خودپسند ذہن کو خوش کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں محمد بن سلمان کا واشنگٹن کا دورہ ہوا ہے۔ 18 نومبر 2025 کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محمد بن سلمان کا غیر معمولی گرمجوشی سے استقبال کیا، حتیٰ کہ صحافیوں کے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سخت سوالات پر بھی بن سلمان کا دفاع کیا۔ یہ ملاقات موسیقی، گھڑ سوار دستوں کے مارچ اور فوجی طیاروں کی پروازوں کے درمیان ہوئی اور اس موقعے پر بڑے معاشی و عسکری معاہدات کا اعلان کیا گیا، جن میں امریکہ میں سعودی عرب کی ایک ٹریلیَن ڈالر سرمایہ کاری اور ریاض کو ایف-35 جنگی طیارے دینے کے وعدے شامل تھے۔

اسٹریٹجک دوستی کے نام پر امریکی سود خوری؟
یہ دورہ امریکہ سعودیہ تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرنے سے زیادہ، امریکی پالیسی کی روایتی، یک‌ طرفہ اور مفاد پرستانہ نوعیت کو پھر نمایاں کرتا ہے، خصوصاً خلیجی ریاستوں کے ساتھ کیے جانے والے ہر سمجھوتوں اور تعلقات میں یہ زیادہ جھلکتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ سب ایسے ماحول میں ہو رہا ہے جہاں کئی "تابع" ریاستیں ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے حد سے زیادہ مبالغہ کر رہی ہیں۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ امریکہ اپنے خلیجی "اتحادیوں"،  چاہے انہیں ’’اہم غیر نیٹو اتحادی‘‘ کا لقب ہی کیوں نہ دے، ان کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ اپنے معاشی، عسکری اور جیوپولیٹیکل مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ عرب ممالک کو دیے جانے والے وعدے زیادہ تر علامتی اور کاغذی ہوتے ہیں، جن کا مقصد ان ممالک کو مزید امریکی انحصار میں جکڑنا ہے۔

قطر کی مثال: 
امریکہ کی اس پالیسی کی واضح مثال قطر ہے۔ 2022 میں واشنگٹن نے قطر کو اہم غیرنیٹو اتحادی قرار دیا تھا۔ یہ درجہ دوحہ کے لیے خاص عسکری و سلامتی فوائد کا وعدہ رکھتا تھا۔ لیکن ستمبر 2024 میں دنیا نے دیکھا کہ قطر نے اربوں ڈالر کے امریکی ہتھیار خریدے، خصوصی شاہانہ طیارہ ٹرمپ کو تحفے میں دیا، پھر بھی اسرائیل نے قطر کی سرزمین پر کھلم کھلا حملہ کیا اور امریکی دفاعی نظام پیٹریاٹ اور تھاڈ نے ایک بھی وارننگ سائرن نہیں بجایا۔ یہ اس لیے کہ یہ نظام مکمل کنٹرول امریکی افواج کے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ قطر کے پاس صرف ملکیت ہے، کنٹرول نہیں۔

یعنی سازوسامان قطر کا ہے لیکن یہ جدید مشینیں اس قدر ہوشیار ہیں کہ قطر کی بات نہیں مانتیں۔ امریکہ کی واحد مستقل پالیسی اسرائیل کی فوجی برتری ہے، جس کے تحت ہر بڑے ہتھیار کی فروخت میں امریکہ لازماً جانچتا ہے کہ کہیں اسرائیل کی عسکری برتری متاثر تو نہیں ہو رہی۔ اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن، تینوں حکومتوں نے اس اصول کی سختی سے پابندی کی۔ 2016 میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان 38 ارب ڈالر کی 10 سالہ فوجی امداد کا معاہدہ بھی اسی مقصد کے لیے تھا۔

سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی طرف دھکیلنا:
بن سلمان کے ساتھ ٹرمپ کی ملاقات کا ایک بڑا ہدف اسرائیل کے مفادات کو آگے بڑھانا ہے، خصوصاً سعودی عرب کو ابراہیمی معاہدوں میں شامل کرنے کی کوشش۔ ٹرمپ اپنے پہلے دور میں امارات اور بحرین کو اسرائیل سے معمول کے تعلقات پر مجبور کر چکا ہے۔ دوسرے دور میں اس کا سب سے بڑا ہدف سعودی عرب ہے۔ ٹرمپ نے کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ سعودی اسرائیلی نارملائزیشن مشرقِ وسطیٰ میں کامیابی کی کلید ہے۔ اور ایف-35 کی فروخت کو اسی ترقی سے مشروط قرار دیا۔ حال ہی میں جیرڈ کشنر اور دیگر امریکی اہلکاروں نے بھی سعودی حکام سے کئی خفیہ و علانیہ ملاقاتیں کیں تاکہ ریاض کو اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات کی طرف دھکیلا جا سکے۔ واشنگٹن میں طاقتور اسرائیلی لابیاں سعودی عرب کو اسرائیل کے فائدے کے لیے ایک ٹول کے طور پر دیکھتی ہیں، امریکی انہیں کوئی برابر کا شراکت دار نہیں سمجھتے۔

ٹرمپ لابی کے ذاتی مالی مفادات:
لبنانی اخبار، الاخبار کے مطابق بن سلمان کے امریکی دورے سے خطے کے لیے کوئی بڑا تغیر ممکن نہیں، لیکن یہ دورہ دونوں فریقوں، ٹرمپ اور بن سلمان کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ سیدھی ہے کہ ٹرمپ کو پیسہ چاہیے اور بن سلمان کے پاس بے تحاشا پیسہ ہے۔ ٹرمپ ایک تاجر، قمارباز اور پیسے کا دیوانہ شخص ہے۔ بن سلمان اس کے لیے مثالی شراکت دار ہے۔ اگرچہ ٹرمپ خود براہِ راست معاہدوں میں شامل نہ ہو، لیکن اس کے بیٹے، داماد اور کاروباری پارٹنر سب کے مفادات خلیجی تیل سے مالا مال ریاستوں سے جڑے ہوتے ہیں، خاص طور پر سعودی عرب سے۔ ٹرمپ نے اپنے منصوبوں کو اپنے انتہائی مالدار رشتہ داروں اور دوستوں کے حوالے کیا ہے، جو اس کی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی ان منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہیں اور اسی چیز کی ٹرمپ کو شدید ضرورت ہے۔

کھوکھلی سکیورٹی: 
سعودی عرب اربوں ڈالر دے گا لیکن اصل طاقت امریکہ کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔ سعودی عرب کے پاس پہلے سے موجود امریکی ہتھیار نہ تو یمن جنگ میں اس کا کام آئے، نہ ایران کے مقابلے میں۔ اسی لیے آخرکار بن سلمان نے ایران سے تعلقات بہتر بنائے۔ اگرچہ بن سلمان کا دورۂ واشنگٹن امریکی رہنماؤں کی گرمجوشی میں لپٹا ہوا ہے، اصل سوال یہ ہے، کیا یہ تعلقات خطے کے امن و استحکام کو بڑھائیں گے یا پھر صرف امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی خدمت کرتے رہیں گے؟۔ خلیجی ممالک سمجھتے ہیں کہ امریکہ سے اپنی حیثیت بڑھانے کے لیے انہیں بڑے مالیاتی وعدے کرنے ہوں گے۔ لیکن جب تک طاقت کا توازن یک‌طرفہ ہے، یہ ممالک اسٹریٹجک پارٹنر تو کہلائیں گے، مگر عالمی پالیسی سازی پر ان کا اثر ہمیشہ محدود ہی رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ: اسرائیلی حملوں میں بچوں سمیت 24 فلسطینی شہید، حماس کی ثالثوں سے مداخلت کی اپیل
  • اسرائیل نے مزید 24 فلسطینی قتل کر دیئے، حماس کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
  • روس ٹرمپ امن منصوبے سے متفق‘ رکاوٹ یوکرین ہے‘ صدر پیوٹن
  • اسرائیلی بمباری سے غزہ میں 20 فلسطینی شہید
  • روس ٹرمپ امن منصوبے سے متفق، یوکرین رکاوٹ ہے: صدر پیوٹن
  • یوکرین اور امریکا صدر ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے پر سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات کریں گے
  • اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ، امریکہ انسانیت کا کھلا دشمن ہے، حافظ نعیم
  • یوکرین سے جنگ بندی: روس نے ٹرمپ کے امن منصوبےکی حمایت کردی
  • سعودی سرمایہ اور امریکی دلال لابی
  • ولادیمیر پوتن کی روس یوکرین جنگ کے خاتمے کےلئے امریکی منصوبے کی حمایت