دو ریاستی حل یا صرف فلسطینی ریاست؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251009-03-5
متین فکری
امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ میں مستقل جنگ بندی اور پائیدار امن کے لیے اپنا 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تھا جس میں متعدد باتیں قابل قبول تھیں۔ جن نکات پر اختلاف رائے تھا ان پر مذاکرات ہوسکتے تھے اور انہیں قابل قبول بنایا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور ترکی سمیت تمام عرب ملکوں نے اسے بلا اکراہ قبول کرلیا تھا البتہ حماس کے جواب کا انتظار تھا کہ یہ امن منصوبہ منظوری کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے رفقا کو پیش کیا گیا۔ صدر ٹرمپ کا خیال تھا کہ انہوں نے یہ منصوبہ اپنے معاونین کی مدد سے اسرائیل کے تمام تر مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کیا ہے اس لیے اسے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا اور وہ باآسانی اس کی منظوری دے دے گا لیکن ہوا یہ کہ نیتن یاہو اور اس کے رفقا نے منصوبے کی منظوری دینے کے بجائے اس پر شق وار غور شروع کردیا اور جہاں ضرورت محسوس کی اس میں ترمیم کرتے چلے گئے اور آخر اس ترمیم شدہ منصوبے کی منظوری کا اعلان کردیا۔ یہ منصوبہ اب اسرائیل کا ہے امریکا کا نہیں لیکن عیاری ملاحظہ ہو کہ اسے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کا نام ہی دیا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی اسے اون کرلیا ہے تاہم عرب ممالک، پاکستان اور ترکی کے لیے یہ کہے بغیر چارہ نہیں رہا کہ یہ منصوبہ اس منصوبے سے مختلف ہے جو انہیں پہلے دیا گیا تھا۔ چونکہ صدر ٹرمپ کا پائوں ان ملکوں کی گردن پہ ہے اس لیے وہ بلا اکراہ اسے قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ اس منصوبے میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو گول کردیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل ایسے کسی حل کا قائل نہیں وہ فلسطینی ریاست کے نام پر اپنے وجود کے مدمقابل کسی اور وجود کا قائل نہیں۔ بلکہ دیکھا جائے تو وہ بحیثیت قوم فلسطینیوں کے وجود ہی کو نہیں مانتا۔
مسلمان ملکوں کے اس مغلوبانہ ردعمل کے مقابلے میں حماس کا ردعمل صبر و حکمت اور دانش کا آئینہ دار ہے۔ اس نے نہ تو منصوبے کو یکسر رد کیا ہے اور نہ ہی اسے من و عن قبول کیا ہے، اس نے فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی فوری رہائی سے اتفاق کیا ہے۔ منصوبے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے اور غزہ سے نکل جائے۔ حماس کی قیادت جانتی ہے کہ یہ اسرائیل کی شدید خواہش ہے جسے منصوبے کی شکل میں ٹرمپ کے منہ میں ڈالا گیا ہے۔ چنانچہ حماس نے اس کا بڑی حکمت سے جواب دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب غزہ ایک غیر جانبدار فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کردیا جائے گا اور اس میں کسی غیر فلسطینی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا یعنی نہ اس میں صدر ٹرمپ کی کچھ چلے گی نہ ٹونی بلیئر کو اس میں دخل اندازی کی اجازت دی جائے گی تو حماس اپنے ہتھیار اس فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کردے گی، البتہ غزہ میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گی کیونکہ اس کا تعلق فلسطین سے ہے اس میں کوئی غیر فلسطینی شامل نہیں۔ البتہ اسرائیل کو غزہ خالی کرنا ہوگا۔ حماس نے غزہ کے مستقبل کے لیے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا ہے جو اسرائیل کے بس میں نہیں ہے اور نہ ہی صدر ٹرمپ اس پر آمادہ ہوں گے۔ اس طرح دیکھا جائے تو حماس کی زیرک قیادت نے صدر ٹرمپ کے منصوبے پر ’’مثبت‘‘ ردعمل ظاہر کرکے امریکا اور اسرائیل دونوں کو گھیر لیا ہے اور ان کے لیے فرار کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے جبکہ مسلمان ملکوں نے منصوبے کو من و عن قبول کرکے اپنی سلامتی، اپنا وقار اور فلسطین کے بارے میں اپنے اصولی موقف کو دائو پر لگادیا ہے۔
پوری امت مسلمہ کا دیرینہ اور اصولی موقف تو یہی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اسے ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہ فلسطینیوں کا وطن ہے یہاں ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے لیکن مسلمان ملکوں نے متحد ہو کر کبھی اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ برطانیہ نے جب ’’اعلانِ بالفور‘‘ کے ذریعے سرزمین فلسطین پر اسرائیل کے قیام کو ممکن بنایا تھا تو یہی وقت تھا جب مسلمان ممالک متحد ہو کر میدان عمل میں آ کودتے اور اسرائیل کے قیام کو ناممکن بنادیتے۔ فلسطینی بھی شدید مزاحمت کا مظاہرہ کرتے اور اپنا گھر بار چھوڑنے سے انکار کردیتے لیکن انہوں نے بھی بزدلی کا مظاہرہ کیا اور اپنی زمینوں کی قیمت وصول کرکے بے دخل ہوتے رہے۔ فلسطینی گھر سے بے گھر ہوگئے اور یہودی آباد ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے اپنی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ دی۔ برطانیہ نے تو محض اسرائیل کا قیام ممکن بنایا تھا لیکن امریکا نے اس کی پرورش و پرداخت کی ذمے داری سنبھال لی اور اس حقیر وجود کو عسکری، فنی اور تکنیکی اعتبار سے ایک دیو بنا کر کھڑا کردیا۔
ایک ایسا دیو جس نے اپنے ہمسایہ عرب ملکوں کا ناطقہ بند کررکھا ہے جس نے مصر کو دھول چٹادی ہے، جس نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جس نے عراق کا ایٹمی پلانٹ تباہ کردیا تھا جو مسلسل ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، غزہ کی جنگ بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ وہ اقوام متحدہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور اس کی سلامتی کونسل کو بھی جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ سلامتی کونسل نے یہودی بستیوں کی توسیع کے خلاف کتنی ہی قراردادیں منظور کیں لیکن اسرائیل نے کسی ایک قرار داد پر بھی عمل نہیں کیا اور فلسطینیوں کو بے دخل کرکے یہودی بستیاں قائم کرنا چلا گیا۔ غزہ کی جنگ نے جہاں اقوام عالم کو اسرائیل کے آگے بے بس کردیا ہے وہیں مسلمان ملکوں کو بھی ان کی اوقات یاد دلا دی ہے۔
اب حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں اسرائیل کو نظر انداز کرکے ایک آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام پر اصرار کیا جائے اور مسلمان ممالک متحد ہو کر صدر ٹرمپ سے مطالبہ کریں کہ ان کا امن منصوبہ اسی وقت قابل قبول ہے جب آزاد فلسطینی ریاست کا باضابطہ اعلان کیا جائے اور اسے اقوام متحدہ کا رکن بنایا جائے۔ صدر ٹرمپ تو غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر اسے ایک تفریحی علاقہ بنانا چاہتے تھے لیکن مسلمان ملکوں کی دو ٹوک مخالفت کے سبب امریکی صدر کو اپنی پلاننگ سے دستبردار ہونا پڑا۔ اب یہی موقع ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنایا جائے اور اسی کے مطابق غزہ کی تعمیر نو کا نقشہ مرتب کیا جائے۔ اس وقت ایک سو پچاس ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں اب زمین پر بھی اس کا وجود قائم ہونا چاہیے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست مسلمان ملکوں ان ملکوں کیا جائے ٹرمپ کے کے قیام بھی اس دیا ہے کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
دو ریاستی حل گریٹر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا ‘ملی یکجہتی کونسل سندھ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251009-08-23
کراچی (اسٹاف رپورٹر)ملی یکجہتی کونسل سندھ کے تحت ادارہ نورحق میں کونسل کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ کی زیر صدارت منعقدہ’’ یکجہتی فلسطین‘‘ سیمینار میںمقررین نے مسلم حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے نام نہاد امن معاہدے کے نام پر ٹریپ ہونے کے بجائے غزہ کے مظلوم مسلمانوں اور حماس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور 2 سال سے جاری جارحیت و دہشت گردی اور انسانیت سوز مظالم پر امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے دل اہل غزہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں احتجاج نے سب کی آنکھیں کھول دیں ہیں۔2 ریاستی حل گریٹر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا اورپھرکشمیر سے بھی دستبردارہونا پڑے گا۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، ریاست صرف ایک آزاد فلسطین ہے۔طوفان الاقصیٰ کامیاب اور حماس بیانیہ کی جنگ بھی جیت چکی ہے جس کے اثرات آج پوری دنیا میں نظر آنے لگے ہیں۔قوم اسرائیل کو کبھی تسلیم کرنے نہیں دے گی۔سیمینار سے کونسل کے صوبائی صدراسداللہ بھٹو،علامہ قاضی احمد نورانی ، علامہ ناظرعباس تقوی،مفتی اعجازمصطفی،ڈاکٹر صابر ابومریم ،مسلم پرویز،محمد حسین محنتی ،مولانا صادق جعفری،مولانا عبدالوحید اخوانی ،علامہ اصغرحسین شہیدی ،مہدی اسحاق،شیخ سجاد حسین حاتمی ،مولانا عبدالماجد فاروقی نے بھی خطاب کیا ۔ لیاقت بلوچ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ کیمپ ڈیوڈ، ابراہم اکاررڈ سے لے کر ٹرمپ کا 20 نکاتی امن معاہدہ اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کرانے کی کوشش ہے،اسرائیل ایک ناسور ہے، یہ جب تک قائم رہے گا اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ بانی پاکستان نے اس کو امریکا کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا۔ قطر پر حملے سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکا کسی کا دوست نہیں ہے وہ صرف اپنے مفادات اورخواہشات کا اسیر ہے۔لاہورکراچی میں تاریخی مارچ اورارض فلسطین میں شہادتوں سے امت میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوگئی ہے۔اسرائیل سمجھتا تھا کہ وہ امریکا وبرطانیہ کی سرپرستی اوراسلحہ وگولہ بارود کی طاقت سے سب کچھ مٹاکر اپنا قبضہ مستحکم کرے گا مگر حماس کے شاہینوں اورفلسطینی عوام کی قربانیوں سے وہ ناکام ہوگیا اب وہ ٹرمپ کے ذریعے خود کو دلدل سے نکالنے کی بھیک مانگ رہا ہے۔مسلم حکمرانوں کو حماس وحزب اللہ اوراخوان المسلمون سے خوف کھانے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔9اکتوبر لاہور اور14اکتوبر کواسلام آباد میں’’ یکجہتی فلسطین ‘‘سمینار کا انعقاد کیا جائے گا۔انہوں نے علما کرام سے اپیل کی کہ وہ جمعہ 10 اکتوبر کو منبرومحراب کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو اُجاگر اورغزہ میں انسانیت کے قتل عام پر مذمتی قراردادیں منظور کرائیں۔ کونسل کے صوبائی صدراسداللہ بھٹو نے کہاکہ مسلم وغیر مسلم پوری دنیا کے عوام یکجہتی ٔ فلسطین کر رہے ہیں۔مسلم حکمرانوں پراپنے عوام کا بڑا دباؤ ہے مگر وہ امریکا واسرائیل سے ڈرتے ہیں۔ان شاء اللہ عوام کی جدوجہد ضرور کامیاب ہوگی۔علامہ قاضی احمد نورانی نے کہاکہ ملی یکجہتی کونسل گلدستہ ہے جس نے امت کے ہرمسئلے پرآواز اٹھائی ہے۔طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ پر سفاکی اور درندگی کے2سال مکمل ہونے کے باوجود اقوام متحدہ سمیت عالمی ضمیر نیتن یاہو کو ناک میں نکیل ڈالنے میں ناکام رہے۔ علامہ ناظرعباس تقوی نے کہاکہ حماس مسئلہ فلسطین کو اُجاگرکرنے میں کامیاب اوراسرائیل ناکامی کے راستے پر ہے اب وہ اپنی بقا کے لیے سہارے تلاش کر رہا ہے۔پورا یورپ لاکھوں کی تعداد میں غزہ میں ظلم کے خلاف اورفلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہا ہے۔مفتی اعجازمصطفی نے کہاکہ صہیونیت کے منصوبے گریٹراسرائیل میں خانہ کعبہ بھی شامل ہے۔2ریاستی حل کا مطلب ہی گریٹر اسرائل کا راستہ ہموار کرنا ہے۔مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ڈاکٹر صابر ابومریم نے کہاکہ طوفان الاقصیٰ نے پوری دنیا کو مسئلہ فلسطین کے حق میں کھڑا کردیا ہے جو حماس کے بیانیے کی جیت ہے۔مسلم پرویز نے کہاکہ مزاحمت میں ہی زندگی ہے جہاد ہی عزیمت کا راستہ ہے فلسطینی عوام کی جدوجہد ضرور ایک دن رنگ لائے گی۔محمد حسین محنتی نے کہاکہ جہاد مومن کی معراج ہے حق وباطل کے معرکہ غزہ سے ظالم ومظلوم کا فرق دنیا کے سامنے آگیا ہے۔مولانا صادق جعفری نے کہاکہ کراچی میںجماعت اسلامی کا غزہ مارچ قابل تحسین اورسابق سینٹر مشتاق احمد خان کے ایمانی جذبہ قابل قدر ہے۔مولانا عبدالوحید اخوانی نے کہاکہ فلسطین کے حوالے سے پوری امت متحد ہے۔جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو نے غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے لیکن قحط ،پیاس اور بھوک کے باوجود سرفروشوں کا جذبہ جہاد ختم نہیں کرسکا ہے اب وہ اپنی ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے ٹرمپ کے ذریعے امن معاہدے کی باتیں کر رہا ہے۔علامہ اصغرحسین شہیدی نے کہاکہ مسلم حکمران غیروں کی غلامی کے بجائے اپنی تمام پالیسیاں عوام کے جذبات کے مطابق بنائیں۔مہدی اسحاق نے کہاکہ صہیونیوں نے فرعون سے بھی بڑھ کر غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم کیا ہے،مسلم حکمرانوں کی خاموشی بے حمیتی وبے حسی کی انتہا ہے۔شیخ سجاد حسین حاتمی نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ خون ناحق پرعالمی ضمیر کی خاموشی شرمناک ہے۔غزہ کے مظلوموں کا ساتھ دینے والے مشتاق احمد خان پاکستانی ہیرو اورایران کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔مولانا عبدالماجد فاروقی نے کہاکہ ہرکامیابی قربانی مانگتی ہے۔75ہزار شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
کراچی : مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے تحت ادارہ نورحق میں یکجہتی فلسطین سیمینار سے خطاب کررہے ہیں