سینیٹ کا اجلاس شور شرابے اور اپوزیشن کے احتجاج کی نذر
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
سینیٹ کا اجلاس ایک بار پھر شور شرابے اور اپوزیشن کے احتجاج کی نذر ہوگیا۔ پی ٹی آئی ارکان نے قائم مقام چیئرمین کے طرزِ عمل پر سخت احتجاج کیا۔ ایوان میں ہنگامہ آرائی کے باعث کارروائی وقفۂ سوالات تک محدود رہی، جس کے بعد اجلاس جمعہ کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
قائم مقام چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی زیر صدارت اجلاس کے آغاز پر ہی ایوان میں شور شرابہ شروع ہوگیا۔ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ اجلاس میں قائم مقام چیئرمین نے ایک رکن سے ’ شٹ اپ’ کہہ کر اراکین کی توہین کی، جو جانبداری کا مظہر ہے۔
ان کے بیان کے بعد پی ٹی آئی کے دیگر ارکان بھی احتجاج میں شامل ہوگئے اور ایوان کا ماحول کشیدہ ہوگیا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر طاہر خلیل سندھو نے اپوزیشن کے رویے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسی اجلاس میں قائم مقام چیئرمین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔
وقفۂ سوالات کے دوران بھی اپوزیشن کا احتجاج جاری رہا۔ سینیٹر عبدالقادر نے کورم کی نشاندہی کی تاہم حاضری پوری نکلی۔
ایوان میں مسلسل شور شرابے پر چیئرمین نے کارروائی ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آج دہشت گردی پر بحث ہونی تھی مگر آپ لوگ ہنگامہ آرائی کو ترجیح دے رہے ہیں، دھمال جاری رکھیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: قائم مقام چیئرمین
پڑھیں:
ایوان بلوچستان میں وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کے مخالف کون؟
بلوچستان کی سیاست ایک بار پھر شدید بے یقینی کا شکار ہے اور وزیر اعلیٰ میر سرفراز احمد بگٹی کی کارکردگی، طرز حکمرانی اور فیصلوں پر نہ صرف حکومت کے اندر بلکہ اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن میں بھی ناراضی بڑھتی نظر آ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کا کوئی معاہدہ نہیں دیکھا، رہنما ن لیگ سلیم کھوسہ
گزشتہ چند دنوں میں سامنے آنے والی سیاسی سرگرمیوں نے اس سوال کو تقویت دی ہے کہ کیا بلوچستان میں ایک اور سیاسی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے؟
پیپلز پارٹی میں بڑھتی ناراضیوزیر اعلیٰ بگٹی کے خلاف سب سے نمایاں اختلافات پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر ابھرے ہیں۔
پارلیمانی سیکریٹری میر لیاقت علی لہڑی نے سب سے پہلے کھل کر وزیراعلیٰ کے طرز حکمرانی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں ایسا وزیراعلیٰ ہو جو عوامی مفاد میں فیصلے کرے اور صوبے کے مسائل کو سنجیدگی سے سمجھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے زیادہ تر اراکین تبدیلی چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟
صوبائی وزیر علی حسن زہری نے بھی اسی نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا اور بتایا کہ پیپلز پارٹی کے کئی اراکین موجودہ حکومتی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں۔
پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر سینیٹر سردار عمر گورگیج نے بھی اختلافات کے وجود کا بالواسطہ اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے 3 سے 4 ایم پی ایز کو تحفظات ہیں مگر یہ گھر کے اختلافات ہیں جو گھر کے اندر ہی حل ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں تبدیلی کی ہوا، سرفراز بگٹی کتنے مضبوط ہیں؟
تاہم ذرائع کے مطابق اصل مسائل ترقیاتی فنڈز کی غیر مساوی تقسیم، اہم فیصلوں میں مشاورت کی کمی اور وزیراعلیٰ کے مرکزیت پسند طرز حکمرانی ہیں جنہوں نے پارٹی میں بے چینی بڑھا دی ہے۔
صورتحال مزید سنگین اس وقت ہوئی جب مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور سینیٹر میر دوستین ڈومکی نے میڈیا پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بیڈ گورننس کے باعث سرفراز بگٹی کو ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے پیپلز پارٹی نئے وزیراعلیٰ کے نام پر مشاورت کر رہی ہے۔
دوستین ڈومکی سابق نگراں وزیراعلیٰ علی مردان ڈومکی کے بھائی ہیں اور صوبائی سیاست میں اہم اثر رکھتے ہیں اس لیے ان کا یہ بیان معمولی نہیں سمجھا جا رہا۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی سیاست میں ہلچل، کیا وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی تبدیلی قریب ہے؟
مسلم لیگ (ن) کے رکنِ اسمبلی نوابزادہ چنگیز مری نے بھی کھل کر وزیراعلیٰ سے ناراضی ظاہر کی اور اعلان کیا کہ اگر بگٹی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آتی ہے تو میں سب سے پہلے ووٹ دوں گا۔
پیپلز پارٹی کی وضاحتیں اور زمینی حقائق میں تضاداگرچہ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر صادق عمرانی اور صوبائی صدر عمر گورگیج مسلسل یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ کو ہٹانے کی کوئی بات نہیں، یہ سب افواہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: ملک کے پسماندہ ترین علاقوں کی فہرست جاری، بلوچستان کے کتنے اضلاع شامل ہیں؟
لیکن دوسری جانب حقائق کچھ اور منظرنامہ پیش کر رہے ہیں۔ اسمبلی کے اندر ناراض اراکین کا حلقہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے جبکہ اتحادی جماعتوں کے رہنما کھل کر میڈیا میں اپنے تحفظات بیان کر رہے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ناراض گروپ باقاعدہ منظم ہو گیا تو اگلے چند ہفتے حکومت کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان کی سیاست پہلے ہی غیر یقینی اور اندرونی اختلافات کا شکار رہی ہے اور اتحادی حکومتیں اکثر ایسے ہی دباؤ میں کمزور پڑتی رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : وزیراعلیٰ بلوچستان کا گوادر میں پانی کے بحران کا نوٹس، ٹینکرز کے ذریعے سپلائی کا حکم
موجودہ حالات جن میں اتحادی جماعتوں کی بے چینی، ن لیگ کی سخت تنقید، وزرا اور ایم پی ایز کے کھلے بیانات سب اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی پر سیاسی دباؤ اپنے عروج پر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان اسمبلی پیپلز پارٹی سرفراز بگٹی کی مخالفت وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی