افریقی ملک نیمبیا کو سائبر خطرات کی شدید لہر کا سامنا، حکومت نے کون سا سیکیورٹی پلان متعارف کرایا؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
افریقی ملک نیمبیا کو حالیہ مہینوں میں سائبر جرائم، آن لائن فراڈ اور سسٹم کی کمزوریوں کی غیر معمولی لہر کا سامنا ہے، جس کے بعد حکومت نے نیا قومی سائبر سیکیورٹی پلان شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نیمبیا کی وزیر اطلاعات و مواصلات ایما تھیوفیلس نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ 2025 کے پہلے 6 ماہ کے دوران ملک میں 10 لاکھ سے زائد سائبر خطرات اور تقریباً اتنی ہی سسٹم کمزوریاں ریکارڈ کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیے عالمی سائبر کرائم نیٹ ورک سے منسلک کارندے گرفتار، درجنوں ویب سائٹس بلاک
یہ تمام واقعات نیمیبین سائبر سیکیورٹی انسیڈنٹ ریسپانس ٹیم (NAMSIRT) نے رپورٹ کیے، جن میں
سم کارڈ فراڈ، آن لائن جعلسازی (scams)، شناخت چوری (impersonation)
جیسے حملے شامل ہیں۔
وزیر اطلاعات کے مطابق، حکومت نے نیشنل سائبر سیکیورٹی اسٹریٹجی اینڈ آگاہی مہم کا آغاز کیا ہے، جو درج ذیل اداروں کے اشتراک سے چلائی جا رہی ہے:
SALT Essential IT
لائف لائن چائلڈ لائن نیمبیا
یونیسف نیمبیا
یہ مہم شہریوں کو آن لائن تحفظ، فراڈ سے بچاؤ اور ڈیجیٹل شعور فراہم کرنے کے لیے مفت تربیتی پروگرامز (آن لائن و فزیکل) پیش کرے گی۔
نیمبیا میں بڑھتے حملے اور علاقائی صورتحالصرف 2024 میں بھی ملک پر 11 لاکھ سے زائد سائبر حملے رپورٹ ہوئے۔ ٹیلی کام نیمبیا پر بڑے ڈیٹا بریک کے دوران 626 گیگا بائٹس حساس معلومات لیک ہوئیں۔ سائبر سیکیورٹی ماہر میلانِی میرِنگ (Melanie Meiring) کے مطابق، ان حملوں نے کاروباری اداروں، سرکاری محکموں اور عام شہریوں سب کو متاثر کیا۔
افریقہ میں سائبر کرائم کا بڑھتا خطرہانٹرپول (Interpol) کی رپورٹ کے مطابق:
افریقہ کے دو تہائی ممالک نے سائبر جرائم کو درمیانے یا بلند خطرے کے طور پر درجہ بند کیا ہے۔ مشرقی اور مغربی افریقہ میں کل جرائم کا 30 فیصد سے زائد حصہ سائبر کرائمز پر مشتمل ہے۔
یہ بھی پڑھیے جدید ٹیکنالوجی کا جرائم اور دہشتگردی میں بڑھتا استعمال، سائبر کرائم کی روک تھام کے عالمی قوانین کے مسودے پر اتفاق
اگست 2024 میں انٹرپول نے 18 افریقی ممالک کے ساتھ “آپریشن سیرینگیٹی 2.
1,000 سے زائد مشتبہ افراد گرفتار ہوئے، 100 ملین ڈالر سے زائد غیرقانونی رقم برآمد ہوئی 88,000 متاثرین کی شناخت ہوئی یہ جرائم رینسم ویئر، بزنس ای میل کمپرو مائز، اور وراثتی اسکیموں سے متعلق تھے۔
عالمی تعاونگزشتہ سال روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے سینیگال میں سائبر سیکیورٹی سینٹر کے قیام کا اعلان کیا، جس کا مقصد افریقی ممالک کو تکنیکی معاونت فراہم کرنا اور اقوام متحدہ کی سطح پر عالمی سائبر اصول و ضوابط طے کرنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افریقہ سائبر کرائم نیمبیاذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افریقہ نیمبیا سائبر سیکیورٹی آن لائن
پڑھیں:
27ویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات، جے یو آئی (ف) کا حکومتی اقدامات سے اظہارِ لاتعلقی
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح اعلان کیا کہ ان کی جماعت 27ویں آئینی ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ ان کے مطابق یہ ترمیم نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ عوامی مفاد اور دستور کی بہتری کے تقاضوں پر بھی پورا نہیں اترتی۔
حکومت عدلیہ کو کنٹرول کرنا چاہتی ہےمولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے حکومت عدلیہ کو اپنے زیرِ اثر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایک سال قبل 26ویں آئینی ترمیم لائی گئی تھی جو تاحال عدالت میں زیرِ سماعت ہے، اور اس کے باوجود ایک نئی ترمیم سامنے لے آئی گئی۔
پیپلز پارٹی پر جمہوری روایات توڑنے کا الزامجے یو آئی (ف) کے سربراہ نے پیپلز پارٹی پر جمہوریت کی نفی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت نے بھی اپنی روایات برقرار نہیں رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 27ویں ترمیم کے بعد حکومت کی عوامی مقبولیت میں نمایاں کمی آئی ہے۔
ترمیم کی پیچیدگیاں: عدالت بھی سمجھنے سے قاصرانہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ترمیم میں ایسی پیچیدگیاں شامل ہیں جنہیں عدالت بھی پوری طرح سمجھ نہیں پا رہی۔ ان کے مطابق کسی ترمیم کی منظوری سے قبل ضروری ہے کہ تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے۔
آصف زرداری کو تاحیات استثنیٰ کا ذکرمولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس ترمیم کے تحت سابق صدر آصف علی زرداری کو تاحیات استثنیٰ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص کو سالوں جیل میں رکھا گیا، اس پر اب کوئی مقدمہ درج نہیں ہو سکے گا۔
پارلیمنٹ میں جے یو آئی کے ارکان نے اس ترمیم کی مخالفت کی اور مرکزی شوریٰ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی۔
حکومت کی مشاورت میں کمی اور ‘جعلی تعداد’ کا الزامجے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ 26ویں ترمیم باہمی مشاورت سے آگے بڑھی تھی، جسے متفقہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم 27ویں ترمیم میں ان کی جماعت کو نظر انداز کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جے یو آئی کے ساتھ ایک ماہ سے زائد مذاکرات کیے مگر بعد میں جماعت کے لوگوں کو جبراً توڑ کر ’جعلی تعداد‘ پوری کی گئی، جو پارلیمانی و جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
فورتھ شیڈول کی دھمکی اور مولانا کا ردِعملانہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جس پر انہوں نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول‘۔
پی ٹی آئی کی تجاویز بھی شامل کی گئیںمولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ 26ویں ترمیم کے دوران پی ٹی آئی کو بھی آن بورڈ لیا گیا تھا۔ ان کی تجاویز شامل کروانے کے لیے حکومت سے مذاکرات بھی کرتے رہے، مگر 27ویں ترمیم میں اس مشاورتی عمل کو نظر انداز کر دیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں