ہم نہ سوویت یونین ہیں نہ امریکا، نہ نیٹو، ہم پاکستان ہیں، طاہر اشرفی
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں بیٹھ کر افغان وزیر خارجہ پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں، لیکن وہ یہ یاد رکھیں کہ نہ ہم سوویت یونین ہیں، نہ امریکا، نہ برطانیہ اور نہ ہی نیٹو — ہم پاکستان ہیں۔
علامہ طاہر اشرفی نے بھارت کے دورے پر موجود امیر خان متقی کے اشتعال انگیز بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے نہ کبھی افغانستان میں مداخلت کی ہے اور نہ ہی قبضے کا ارادہ رکھتا ہے، ہمارا صرف یہی مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح پاک فوج نے سخت جواب دیا، یہ صرف شروعات ہے۔ افغان طالبان کو چاہیے کہ وہ بھارت کے خلاف پاکستان کی تاریخ سے سبق سیکھیں۔
انہوں نے ایک بار پھر دوہرایا کہ بھارت میں بیٹھ کر دھمکیاں دینا ناقابل قبول ہے۔ ہم ایک خودمختار اور مضبوط ملک ہیں، اور کسی بھی قسم کی دھمکی کا مناسب جواب دینا جانتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کیا امریکیوں پر حملہ آور افغان دہشتگرد سی آئی اے کے لیے خدمات انجام دیتا رہا؟
وائٹ ہاؤس کے قریب 3 نیشنل گارڈ اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے میں گرفتار افغان شہری رحمان اللہ لکانوال کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق 29 سالہ لکانوال افغانستان میں امریکی حکومت کے مختلف اداروں، خصوصاً سی آئی اے، کے ساتھ بطور ’پارٹنر فورس‘ کام کر چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:وائٹ ہاؤس کے نزدیک نیشنل گارڈز پر فائرنگ کرنیوالا رحمان اللہ لکنوال کون ہے؟
فوکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق لکانوال ستمبر 2021 میں ’آپریشن الائز ویلکم‘ کے تحت امریکا پہنچا، جو افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر منتقلی کا پروگرام تھا۔ انٹیلی جنس ذرائع نے تصدیق کی کہ لکانوال نے قندھار میں امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ قریبی طور پر خدمات انجام دیں۔
RAW’s overseas influence web is getting exposed layer by layer.
Rahmanullah Lakanwal; a former ANA officer who moved to the U.S. in 2021 became one of RAW’s key handlers, funding PTM and pushing Afghan groups into anti-Pakistan protests across Europe.
From Sikh killings in… pic.twitter.com/EoEvpoGVtZ
— Dr Irum Khan (@IKViews) November 27, 2025
سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے فوکس نیوز کو بتایا کہ یہ فرد اور اس جیسے کئی دیگر لوگوں کو امریکا نہیں لایا جانا چاہیے تھا۔ ریٹکلف نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان سے انخلا کے بعد جن افراد کو امریکا منتقل کیا، ان کی سیکیورٹی جانچ میں سنگین کمزوریاں سامنے آ رہی ہیں۔
ایف بی آئی نے واقعے کی تحقیقات سنبھال لی ہیں اور حکام کے مطابق فائرنگ کو ’بین الاقوامی دہشت گردی‘ کے زاویے سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔ دونوں زخمی ویسٹ ورجینیا نیشنل گارڈ اہلکاروں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
بدھ کی شب قوم سے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے کو ’سفاکانہ اور گھات لگا کر کیا گیا دہشتگردانہ اقدام‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے فوجیوں اور پوری قوم کے خلاف جرم ہے‘ اور یقین دلایا کہ ’اس حملے کے ذمہ دار کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔‘‘
واشنگٹن کی میئر موریئل باؤزر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ حملہ ’ٹارگٹڈ شوٹنگ‘ تھی اور حملہ آور نے خاص طور پر گارڈز کو ہی نشانہ بنایا۔ پولیس کے مطابق مشتبہ شخص کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔
واقعے نے امریکا میں افغان پناہ گزینوں کی سیکیورٹی اسکریننگ اور 2021 کے انخلا کے بعد نافذ کیے گئے پروگراموں پر نئی بحث چھیڑ دی ہے، جبکہ انٹیلی جنس حلقے اس معاملے کو امریکی داخلی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان دہشتگرد امریکا رحمان اللہ لنکوال سی آئی اے واشنگٹن