Islam Times:
2025-11-27@20:20:18 GMT

انصار اللہ کا اسرائیل کو الٹی میٹم 

اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT

انصار اللہ کا اسرائیل کو الٹی میٹم 

ایک سینئر عہدیدار نے کہاہے کہ یمن غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی صورت میں اسرائیلی اہداف کے خلاف "زیادہ سخت اور تباہ کن" ردعمل دیگا۔ اسلام ٹائمز۔ یمنی تحریک انصار اللہ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ یمن غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی صورت میں اسرائیلی اہداف کے خلاف "زیادہ سخت اور تباہ کن" ردعمل دیگا۔ انصار اللہ کے سیاسی ونگ کے ایک رکن حزام الاسد نے اسپوتنک نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرتا ہے تو ہم حملے بند کر دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن اگر تل ابیب اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہمارا ردعمل زیادہ سخت اور تباہ کن ہوگا۔ واضح رہے کہ انصار اللہ کے ایک رہنمانے کل بھی کہا تھا کہ کسی بھی طرح کی کارروائیاں بند کرنے کا انحصار غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے رویے پر ہے۔ انصار اللہ غزہ کی پٹی میں جنگ شروع ہونے کے بعدسے فلسطینیوں کے سب سے زیادہ فعال حامیوں میں سے ایک ہے۔ یمن نے جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کے خلاف متعدد میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں۔

یہ حملے فلسطینیوں کی حمایت اور غزہ کی جنگ اور ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے تل ابیب پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیے گئے۔ ان حملوں میں سے زیادہ تر جنوبی مقبوضہ فلسطین میں اہداف کو نشانہ بنایا گیا، خاص طور پر ایلات کے علاقے، لیکن کچھ میزائل مرکزی علاقوں پر بھی فائر کیے گئے، جن میں تل ابیب اور بین گوریون ایئرپورٹ شامل ہیں۔ ان حملوں کو اسرائیل کے لیے ایک سیکورٹی چیلنج کے طور پر دیکھا گیا اور اس نے یمن میں اہداف پر اسرائیلی فوجی ردعمل کا اظہار کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غزہ کی پٹی میں انصار اللہ

پڑھیں:

حزب اللہ کے پاس صہیونی حملوں کا جواب دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں، سید رضا صدر الحسینی

تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1701 کے باوجود اسرائیل نے مسلسل جنگ بندی توڑی ہے، لہٰذا لبنان کو حق حاصل ہے کہ اسرائیلی فوجی اور غیر فوجی اہداف کے خلاف کارروائی کرے۔ اسلام ٹائمز۔ مغربی ایشیا کے امور کے ایرانی ماہر سید رضا صدر الحسینی کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے پاس اسرائیلی دہشت گردانہ حملوں کا جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، اور یہ جواب عسکری ہو گا، اس حوالے سے فقط سیکورٹی نوعیت کی کارروائی کا امکان کم ہے۔ بین الاقوامی خبر ایجنسی تسنیم سے گفتگو میں سید رضا صدر الحسینی نے ایک سال سے زیادہ عرصے قبل لبنان اور اسرائیلی رجیم کے درمیان طے پانیوالی جنگ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معتبر علاقائی اور بین الاقوامی شواہد کے مطابق اس مدت میں اسرائیل نے جنگ بندی کی ایک ہزار سے زائد خلاف ورزیاں کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ سمیت وہ ممالک جو جنگ بندی کے ضامن تھے، انہوں نے نہ ان خلاف ورزیوں پر کوئی اقدام کیا، نہ لبنان کے رہائشی علاقوں پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی، بلکہ ان کے سکوت نے صہیونی رجیم کی عملی حمایت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حملوں میں متعدد لبنانی شہری شہید ہوئے ہیں، لیکن اقوامِ متحدہ جیسے عالمی اداروں نے ان جرائم کے مقابلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اقوامِ متحدہ نے صرف جنگ بندی کی خلاف ورزی سے متعلق فقط ایک رپورٹ پیش کی۔ صدرالحسینی نے لبنان کی صورتحال کو افسوسناک قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حالات صہیونی رجیم نے لبنان کی حکومت، عوام اور سرکاری و نجی اداروں پر مسلط کیے ہیں، اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ خطے میں مقاومت صہیونی حکومت کے خلاف عملی اقدام کرے، حالیہ حملوں میں حزب اللہ کے اہم اور مؤثر افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جن میں حال ہی میں شہید ہونے والی شخصیت ہَیثَم علی طباطبائی (ابوعلی) بھی شامل ہیں، جو حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈرز میں سے تھے۔، صہیونی رجیم صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے، یہ رجیم طاقت کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتی، اس کے خلاف سخت، عسکری اور جوابی کارروائی ہی واحد راستہ ہے۔

ان کے مطابق بیروت کی حکومت بھی اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ وہ صہیونی فوجی حملوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، اس لیے لبنانی شہریوں کی حفاظت کا واحد طریقہ یہی ہے کہ حزب اللہ ان حملوں کا جواب دے اور جوابی کارروائیوں کا منصوبہ بنائے، حزب اللہ کی عسکری کارروائیاں قابلِ پیش گوئی ہیں، اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1701 کے باوجود اسرائیل نے مسلسل جنگ بندی توڑی ہے، لہٰذا لبنان کو حق حاصل ہے کہ اسرائیلی فوجی اور غیر فوجی اہداف کے خلاف کارروائی کرے، لیکن بڑے سیکیورٹی آپریشن یا خفیہ کارروائی کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کی ممکنہ کارروائیوں کی سطح اور نوعیت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ مؤثر ثابت ہوں، لیکن لبنان میں یہ بھی بحث جاری رہے گی کہ غیر معمولی کارروائیوں کی صورت میں اسرائیل غیر متوقع اور شدید جرائم کا ارتکاب کر سکتا ہے، اس لیے جوابی کارروائی کا منصوبہ لبنانی عسکری و سیکیورٹی اداروں میں انتہائی محتاط طریقے سے زیرِ غور لایا جانا ضروری ہے، مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں نہ مقاومت، نہ اسرائیلی رجیم اور نہ ہی اس کے حامی، کسی کو بھی خطے میں بڑی جنگ بھڑکانے میں دلچسپی نہیں، امریکہ، جو یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا ضامن ہے، بھی جنگ کو وسعت نہیں دینا چاہتا، کیونکہ جنگ ان کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی، اور جنگ بندی کے ضامن ممالک کی سیاسی و قانونی ساکھ مزید متأثر ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی ہندو کمیونٹی کی بھارتی وزیر دفاع کیخلاف بھارتی ہائی کمیشن کے باہر دھرنے کی دھمکی، متنازع بیان واپس لینے کیلئے تین دن کا الٹی میٹم
  • بحریہ کا سمندری اور زمینی اہداف کو نشانہ بنانے والے بلیسٹک میزائل کا تجربہ
  • ایک بڑی کارروائی اور حزب اللہ کا فیصلہ!
  • حزب اللہ کے پاس صہیونی حملوں کا جواب دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں، سید رضا صدر الحسینی
  • بحریہ کا سمندری اور زمینی اہداف کو نشانہ بنانے والے بلیسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ
  • اسرائیلی خلاف ورزیوں پر مانیٹرنگ اداروں نے آنکھیں بند کرلیں ہیں، نبیہ بیری
  • مقبوضہ کشمیر میں خواتین کو سب سے زیادہ بھارتی ریاستی جبر کا سامنا ہے، حریت رہنما عبدالحمید لون
  • اسرائیلی حملے میں شہید حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈر کی نماز جنازہ ادا، ہزاروں افراد کی شرکت
  • غزہ میں قتل عام جاری، اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 4 فلسطینی شہید
  • غزہ میں اسرائیل کی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، پاکستان