پشاور: تعلیمی اداروں کی نجکاری کیخلاف اسلامی جمعیت طلبہ کا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور (صباح نیوز) اسلامی جمعیت طلبہ خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام پشاور پریس کلب کے سامنے تعلیمی اداروں کی آؤٹ سورسنگ اور صوبائی حکومت کی ناقص تعلیمی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں صوبے بھر کے مختلف سرکاری کالجز کے ناظمین اور طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکاء نے حکومت خیبرپختونخوا کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ تعلیم دشمن فیصلے فوراً واپس لیے جائیں۔ اسفندیار عزت نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ واپس نہ لیا تو اسلامی جمعیت طلبہ اگلے مرحلے میں وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کرے گی۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ناظم اسلامی جمعیت طلبہ خیبرپختونخوا اسفندیار عزت نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے تعلیمی شعبے کو تجربہ گاہ بنا دیا ہے۔ آؤٹ سورسنگ کے نام پر تعلیمی ادارے نجی کنٹرول میں دینے کی کوشش دراصل تعلیم کو کاروبار بنانے کی سازش ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے تعلیم کا نظام تباہ کر دیا ہے، نہ نصاب میں بہتری آئی اور نہ ہی اساتذہ کے مسائل حل ہوئے۔ صوبے میں امن و امان کی صورتحال بھی تعلیمی سرگرمیوں پر براہِ راست اثر انداز ہو رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم اقتدار کی لڑائی میں مصروف ہیں جبکہ تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ صوبائی حکومت کو شرم آنی چاہیے کہ تعلیم جیسے حساس شعبے کو بھی سیاسی مفادات کی نذر کیا جا رہا ہے۔
پشاور:اسلامی جمعیت طلبہ خیبر پختونخوا کے اراکین تعلیم مخالف پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلامی جمعیت طلبہ صوبائی حکومت
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں سرکاری و تعلیمی اداروں کے اطراف سیاسی اجتماعات پر پابندی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور: عدالت عالیہ نے خیبر پختونخوا میں سرکاری اور تعلیمی اداروں کے احاطوں اور ان کے آس پاس سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ ایسے مقامات کو سیاسی استعمال سے مکمل طور پر پاک رکھا جائے۔
قبل ازیں عدالت میں سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں منعقد ہونے والے غیر متعلقہ اجتماعات نہ صرف اداروں کے تقدس کو مجروح کرتے ہیں بلکہ سرکاری امور اور تعلیمی سرگرمیوں میں رکاوٹ بھی بنتے ہیں۔
ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سرکاری اداروں کا قیام کسی مخصوص اور رسمی مقصد کے لیے ہوتا ہے، اس لیے ان کا استعمال سیاسی جلسوں، جلوسوں یا کسی بھی قسم کی جماعتی سرگرمیوں کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔
تحریری فیصلے کے مطابق تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر اور انتظامی مقامات کے اندر یا ان کے آس پاس سیاسی اجتماعات کی اجازت نہیں دی جائے گی اور متعلقہ افسران اس بات کے ذمہ دار ہوں گے کہ اپنے اداروں کو اس قسم کی سرگرمیوں سے ہر صورت محفوظ رکھیں۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ غیر متعلقہ اجتماعات اداروں کے ماحول کو متاثر کرتے ہیں اور ان کے بنیادی مقصد سے توجہ ہٹاتے ہیں، اسی لیے ان کی روک تھام ناگزیر ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے تمام مقامات کو سیاسی استعمال سے بچانا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے ۔
5 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے جاری کیا، جس میں عدالت نے واضح کیا کہ سرکاری و تعلیمی مقامات کی اہمیت برقرار رکھنا لازم ہے اور کسی بھی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو ان کی نوعیت یا مقصد سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ صوبے میں تمام سرکاری اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران غیر متعلقہ اجتماعات کو ہر ممکن طریقے سے روکیں اور یقینی بنائیں کہ ان اداروں کے احاطے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز نہ بنیں۔