پاکستان میں عالمی سب میرین کیبل، کیا اب انٹرنیٹ کی سست رفتار کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
کنیکٹیویٹی کو مضبوط بنانے کے لیے ایک نئی سمندری فائبر آپٹک کیبل SEA-ME-WE 6 کو فعال کر دیا گیا ہے،یہ کیبل تقریباً 19 ہزار 200 کلومیٹر طویل ہے اور سنگاپور سے فرانس تک پھیلی ہوئی ہے، جو پاکستان کو جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور مغربی یورپ کے ممالک سے براہِ راست جوڑتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیجیٹل اکانومی پاکستان کا معاشی سیاسی لینڈ اسکیپ بدل دے گی
یہ سسٹم Tbps100 سے زیادہ کی کل صلاحیت رکھتا ہے اور پاکستان کو اس میں سے Tbps13.
نئی کیبل میں پچھلی SEA-ME-WE کیبلوں کے مقابلے میں زیادہ فائبر جوڑے ہیں اور اس کی صلاحیت دُگنی ہے، جس سے نیٹ ورک کی مزاحمت، اسکلیبلٹی اور ریڈنڈنسی بہتر ہو گی۔
اس سے انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی میں کتنے فیصد تک بہتری آئی گی؟اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی کام کیبلز ایسوسی ایشن کے صدر شاہد اسماعیل کا کہنا تھا کہ SEA-ME-WE 6 سب میرین کیبل کا آغاز پاکستان کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے، جو ملک کی بین الاقوامی بینڈوڈتھ میں نمایاں اضافہ کرتے ہوئے ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ تک تیز رفتار اور کم تاخیر والے روابط فراہم کرے گی۔
ان کے مطابق اس نئی کیبل کے ذریعے فعال ہونے والی 4 ٹیرا بٹ فی سیکنڈ کی ابتدائی صلاحیت سے صارفین کو بہتر کنیکٹیویٹی، ہموار اسٹریمنگ، بہتر گیمنگ رسپانس اور مصروف اوقات میں کم انٹرنیٹ دباؤ کا فائدہ ملے گا۔
یہ بھی پڑھیں: مائیکروسافٹ کا کلاؤڈ پلیٹ فارم متاثر، کیبل کٹنے کے واقعات ہفتے میں کتنی بار ہوتے ہیں؟
انہوں نے مزید بتایا کہ انٹرنیٹ کے معیار میں مکمل بہتری کا دارومدار اس امر پر بھی ہے کہ مقامی آئی ایس پیز جیسے پی ٹی سی ایل، نایا ٹیل، اسٹارم فائبر، ٹرانس ورلڈ وغیرہ اپنے نیٹ ورکس، فائبر لائنز اور بنیادی انفراسٹرکچر کو کس حد تک جدید بناتے ہیں۔ مجموعی طور پر، ان کے مطابق یہ کیبل پاکستان کی عالمی ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کو مضبوط کرتی ہے، لیکن مقامی انٹرنیٹ خدمات کا معیار اب بھی علاقے اور فراہم کنندہ کے مطابق مختلف رہ سکتا ہے۔
آئی ٹی ماہرین کی رائےآئی ٹی امور کے تجزیہ کار اور پاکستان فری لانس ایسوسی ایشن کے صدر طفیل احمد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جب انٹرنیٹ کی رفتار اور کنیکٹیویٹی میں شدید مسائل پیدا ہوئے تھے، اُس وقت نہ صرف عوام بلکہ میڈیا نے بھی بھرپور آواز اٹھائی تھی، جس کے بعد وفاقی وزیرِ آئی ٹی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان مسائل کے حل کے لیے کام جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس دوران چینی کمپنیوں سمیت متعدد بین الاقوامی اداروں نے پی ٹی اے اور وزارتِ آئی ٹی کے ساتھ مشاورت بھی کی۔ طفیل احمد کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ چیلنجز کے باوجود پاکستان اس وقت فری لانسنگ کی عالمی رینکنگ میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ آئی ٹی ایکسپورٹس بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں عالمی معیار کی انٹرنیٹ سروس فراہم کر دیا جائے تو نہ صرف آئی ٹی کمپنیوں بلکہ لاکھوں فری لانسرز کی پروڈکٹیویٹی میں واضح اضافہ ہوگا۔ بہتر انٹرنیٹ کی بدولت ڈیڈ لائنز، کلائنٹ کمیونیکیشن اور بروقت ڈیلیوری میں بہتری آئے گی جس سے بین الاقوامی کلائنٹس کا اعتماد بھی بڑھے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈیجیٹل ترقی کے نئے دور کا آغاز، ٹیلی کام انفراسٹرکچر لگانے کی فیس کا بھی خاتمہ
طفیل احمد کے مطابق تیز رفتار انٹرنیٹ نہ صرف انفرادی سطح پر فائدہ دے گا بلکہ آئی ٹی سیکٹر، میڈیا اداروں، اور سرکاری محکموں کی آن لائن سرگرمیوں میں بھی نمایاں بہتری لائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ وہ واحد ذریعہ ہے جو پاکستان کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر متعارف کراتا ہے، اس لیے بہترین کنیکٹیویٹی ملک کی ڈیجیٹل ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
شراکت دار کون ہیں؟پروجیکٹ میں شراکت دار کنسورشیم میں پاکستان کی کمپنی Transworld Associates کے علاوہ بنگلہ دیش، بھارت، سنگاپور، مصر، ملائیشیا اور دیگر بین الاقوامی کمپنیاں شامل ہیں۔
ممکنہ اقتصادی و ڈیجیٹل اثراتماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے کلاؤڈ سروسز، ڈیٹا سینٹرز، فِن ٹیک، ای-کومرس، اسٹریمِنگ اور دیگر بینڈوڈتھ-ماتحت شعبے بہتر انداز میں کام کر سکیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انٹرنیٹ بنگلہ دیش بھارت پاکستان سمندر سنگاپور مصر ملائشیا نئی فائبر آپٹک کیبلذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹرنیٹ بنگلہ دیش بھارت پاکستان سنگاپور ملائشیا نئی فائبر ا پٹک کیبل بین الاقوامی پاکستان میں کے مطابق انہوں نے کا کہنا آئی ٹی کے لیے
پڑھیں:
ایک نئی تحقیق نے نوجوان نسل کو والدین کے لعن طعن سے بچالیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سڈنی :ایک تازہ ترین تحقیق نے عام تاثر کی نفی کی ہے کہ بچوں کا زیادہ اسکرین ٹائم صحت کے لیے نقصان دہ ہے، آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کے محققین نے 18 سال سے کم عمر تقریباً 1 لاکھ 33 ہزار بچوں اور نوجوانوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، جس سے حیران کن نتائج سامنے آئے۔
تحقیق کے مطابق ہیلتھ ایپس، فٹنس ٹریکرز اور دیگر آن لائن پروگرامز بچوں اور نوجوانوں کی جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کر رہے ہیں، ڈیجیٹل ٹولز استعمال کرنے والے بچے روزانہ 10 سے 20 منٹ اضافی جسمانی سرگرمی کرتے ہیں جبکہ کچھ پروگرامز کے استعمال سے بچوں کی بیٹھنے کی عادت میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آئی اور وہ روزانہ اوسطاً 20 سے 25 منٹ کم بیٹھے۔
مزید یہ کہ تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ڈیجیٹل پروگرامز استعمال کرنے والے بچوں کی غذائی عادات میں بہتری آئی، خاص طور پر پھل، سبزیاں اور کم چکنائی والی غذائیں زیادہ استعمال کی گئیں، جس کے نتیجے میں جسمانی وزن اور چربی میں مستقل بہتری دیکھی گئی، البتہ نیند کے معیار پر ان پروگرامز کے کوئی خاص اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔
محققین نے کہا کہ یہ نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بچوں کے اسکرین ٹائم کو مکمل منفی نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ موزوں اور صحت مند ڈیجیٹل ٹولز بچوں کی جسمانی سرگرمی اور غذائی عادات میں بہتری کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے والدین اور اساتذہ کو مشورہ دیا کہ بچوں کو مثبت ڈیجیٹل پروگرامز کی طرف راغب کیا جائے تاکہ وہ صحت مند طرز زندگی اپنا سکیں۔
یہ تحقیق بچوں کی صحت اور ٹیکنالوجی کے تعلق پر نئے انداز میں روشنی ڈالتی ہے اور والدین کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ کس طرح اسکرین ٹائم کو فائدہ مند بنایا جا سکتا ہے۔