لاہور کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے‘ تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 اکتوبر ۔2025 ) پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ٹی ایل پی کے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر شہر کے تعلیمی اداروں کو وقت سے پہلے بند کردیا گیا ہے جبکہ دوپہر کے بعد شہرکی مرکزی شاہراﺅں کو بھی بند کیئے جانے کی اطلاعات ہیں تاہم سٹی ٹریفک پولیس کی جانب سے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا.
(جاری ہے)
اطلاعات کے مطابق جی ٹی روڈ پر مریدکے کے قریب ٹی ایل پی کے مرکزی قافلے کو منتشرکیئے جانے کے بعد تنظیم کے کارکناں کو ملتان روڈ پر واقع ٹی ایل پی کے مرکزمیں جمع ہونے کی ہدایات جاری کی گئیں تھیں صوبائی حکومت کی جانب سے شہر میں دفعہ 144نافذ ہے اور پارٹی کے مرکزکے گرد ونواح میں کئی کلومیٹرتک کا علاقہ جمعہ کے روز سے سیل ہے . نجی ٹی وی کے مطابق سکیم موڑکے قریب ٹی ایل پی کے مرکزکے گرد ونواح میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے تازہ دم دستے پہنچ گئے ہیں اسی طرح شہر کے اہم علاقوں‘عمارات اور تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے بھی پولیس اور رینجرزکے بھاری نفری تعینات ہے ‘رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کل تک شہر کے متعدد علاقوں کو مکمل طور پر کھول دیا جائے گا . رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملتان روڈ ٹھوکر سے لے کر یتیم خانہ چوک تک بند ہے تاہم درمیان میں کئی علاقوں میں شہریوں کی نقل وحرکت کے لیے راستے کھلے ہیں تاہم ان راستوں میں ٹریفک کا شدید دباﺅ ہونے کی وجہ سے چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں بھی گھٹنوں کا وقت لگ رہا ہے . رپورٹ کے مطابق ٹی ایل پی کے ساتھ حکومت کے مذکرات بھی جاری ہیں ‘ٹی ایل پی کی لیڈرشپ ہلاک ہونے کارکنان کی نمازجنازہ سبزہ زارکرکٹ اسٹیڈیم یا ملتان روڈ پر اپنے مرکزمیں اداکرنا چاہتی ہے تاہم حکومت کا موقف ہے کہ قانون کے مطابق ہلاک ہونے والے کارکنان کی لاشیں صرف ان کے لواحقین کے حوالے کی جائیں گی اور نمازہ جناز ہ کا انعقاد بھی قانون نافذکرنے والے اداروں کی نگرانی میں ان کے آبائی علاقوں میں کیا جائے . بتایا جارہا ہے کہ ٹی ایل پی کے کارکنان منتشرہیں اور مرکزی قافلے میں آخری وقت پر محض چند درجن کارکن ہی موجود تھے جبکہ باقی مریدکے شہر اور گردونواح کی آبادیوں کی جانب فرارہوگئے‘رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور سمیت اہم شہروں میں قانون نافذکرنے والے اداروں کی اضافی نفری جمعہ کے روز تک تعینات رہنے کا امکان ہے اور آئندہ ہفتے کے آغازپر زندگی معمول پر آجائے گی ‘لاہور اسلام آباد موٹروے ‘سیالکوٹ اور ملتان موٹروے گزشتہ روز ایک دن کے لیے کھولے جانے کے بعد دوبارہ بند کردیا گیا ہے لاہور کے جی پی او چوک‘ٹھوکر‘چونگی امرسدھو ‘شاہدرہ سمیت کئی علاقوں میں ٹی ایل پی کا احتجاج جاری ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹی ایل پی کے علاقوں میں کے مطابق گیا ہے
پڑھیں:
آن لائن حملوں میں اضافہ؛ حکومت کا سائبر سیکورٹی اتھارٹی قائم کرنے کا اہم فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے سائبر خطرات اور ڈیجیٹل جرائم کے پیش نظر وفاقی حکومت نے ملک بھر میں ایک مرکزی سائبر سیکورٹی اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو مستقبل میں قومی ڈیٹا، سرکاری اداروں اور حساس معلومات کے تحفظ میں بنیادی ستون کا کردار ادا کرے گی۔
مجوزہ ادارے کا مقصد نہ صرف جدید سیکورٹی نظام تشکیل دینا ہوگا بلکہ ایسے معیاری طریقہ کار بھی وضع کیے جائیں گے جو اہم قومی انفرا اسٹرکچر کو ممکنہ سائبر حملوں سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوں۔
اس حوالے سے وزارتِ آئی ٹی کی جانب سے تیار کیا گیا سائبر سیکورٹی ایکٹ کا ابتدائی مسودہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بھجوا دیا گیا ہے تاکہ مختلف اداروں کی تجاویز، خدشات اور سفارشات کو شامل کیا جاسکے۔
حکومت اس قانون کے لیے پیکا میں مزید ترامیم بھی تجویز کر رہی ہے، جن کے ذریعے سائبر جرائم کی مختلف اقسام، ڈیجیٹل نگرانی اور مواد کے ضابطہ کار کے معاملات کو بہتر طریقے سے منظم کیا جاسکے گا۔
مسودے کی اہم تجویز ’ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی‘ کے قیام سے متعلق ہے، جو ملک میں آن لائن مواد کی نگرانی، جعلی خبروں کے پھیلاؤ پر قابو اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غلط معلومات کے خلاف کارروائی کے اختیارات رکھے گی۔
اس مجوزہ اتھارٹی کے ذریعے ایک خصوصی تحقیقاتی ایجنسی بھی قائم کی جائے گی جو سائبر کرائم کی مختلف جدید اقسام، ہیکنگ حملوں، فراڈ اور ریاستی اداروں کے خلاف چلنے والی آن لائن سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔
حکام کے مطابق یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا جا رہا ہے جب پاکستان مسلسل شدید نوعیت کے سائبر حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ صرف 2025 کی پہلی 3 سہ ماہیوں میں ساڑھے 53 لاکھ سے زائد سائبر حملے رپورٹ ہوئے، جن میں سرکاری محکموں کے ڈیٹا سسٹمز، مالیاتی اداروں، صحت، توانائی اور دیگر شعبوں پر ہونے والی کوششیں بھی شامل تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اتھارٹی کے قیام سے پاکستان کے سائبر دفاعی ڈھانچے میں ایک اہم خلا پُر ہوسکے گا، تاہم آن لائن مواد کی ریگولیشن اور اختیارات کے دائرہ کار کے حوالے سے مختلف حلقوں کی تشویش بھی سامنے آ رہی ہے۔ آنے والے ہفتوں میں اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد قانون کا حتمی ڈرافٹ تیار کیے جانے کا امکان ہے، جس کے بعد اسے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔