کراچی میں لیڈی ایم ایل او کی کمی خواتین کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی بڑی وجہ قرار
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
کراچی میں خواتین کی 47 فیصد (ایک کروڑ سے زائد) کی آبادی پر صرف 20 لیڈی ایم ایل او تعینات ہیں، لیڈی ایم ایل او کا کام مختلف حادثات اور واقعات میں زخمی ہوکر اسپتال آنے والی خواتین کے زخموں کا تعین کرنا ہوتا ہے جس کے بعد متعلقہ عدالتوں میں ان لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ کے مطابق کیس چلائے جاتے ہیں۔
ان لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ پر ریپ کیسز کا بھی تعین کیا جاتا ہے اور انہی کی رپورٹ پر ملوث افراد کو سزا دی جاتی ہے، ریپ کیسز کی تصدیق کے لیے متاثرہ خاتون کے نمونے کراچی یونیورسٹی میں قائم سندھ فارنزک ڈی این اے لیبارٹری میں بھیجے جاتے ہیں۔
کراچی کے 7 اضلاع میں یومیہ درجنوں کیس ڈومیسٹک وائلینس کے رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ یومیہ درجنوں ریپ کیسز سرکاری اسپتالوں میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ اسپتالوں میں لیڈی ایم ایل او کی کمی کی وجہ سے متاثرہ خواتین کو بروقت قانونی امداد نہیں مل پاتی جبکہ ریپ کیس کی رپورٹ میں تاخیر ہونے پر اکثر ملزمان settlement بھی کر لیتے ہیں۔
ریپ کیس ہو یا ڈومیسٹک وائلینس ان کے مقدمات متعلقہ لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ پر چلائے جاتے ہیں اور فیصلے بھی انہی لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ کی روشنی میں کیے جاتے ہیں لیکن رپورٹ میں غیر معمولی تاخیر ہونے پر ملوث افراد صلح صفائی کر لیتے ہیں، اگر کراچی کے تمام سرکاری اسپتالوں میں میڈیکو لیگل سیکشن فعال کر دیے جائیں اور ان سیکشن میں لیڈی ایم ایل او کی تعیناتی کر دی جائے تو متاثرہ خواتین کو بروقت انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔
واضع رہے کہ کراچی کے صرف تین سرکاری اسپتال جناح، سول اور عباسی اسپتال میں میڈیکولیگل سیکشن فعال ہے جبکہ لیاری جنرل اسپتال، سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال، سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال سمیت دیگر ضلعی اسپتالوں میں میڈیکولیگل سیکشن کاغذات پر موجود ہیں لیکن عملی طور پر ان اسپتالوں میں یہ سیکشن قائم نہیں اور نہ ہی ان اسپتالوں میں خواتین کے لیے کوئی پوسٹ مارٹم کی سہولت موجود ہے۔
کراچی کے جناح اسپتال میں یومیہ 8 سے 9 ریپ کیسز جبکہ ڈومیسٹک وائلینس میں 22 سے 25 خواتین ایم ایل او سیکشن سے رجوع کرتی ہیں۔ اس طرح جناح اسپتال میں ایک ماہ میں 240 ریپ کیس جبکہ 750 ڈومیسٹک وائلینس کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ سول اسپتال کراچی میں یومیہ 6 سے 7 ریپ کیسز جبکہ ڈومیسٹک وائلینس کے 17 سے 20 کیس رپورٹ ہوتے ہیں، اس طرح ایک ماہ میں 210 ریپ کیسز جبکہ ڈومیسٹک وائلینس کے 600 کیسز رپوٹ ہوتے ہیں۔ عباسی اسپتال کراچی میں یومیہ 7 سے 8 ریپ کیسز جبکہ ڈومیسٹک وائلینس کے 25سے 30 کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ماہ میں 240 ریپ کیس جبکہ ڈومیسٹک وائلینس کے 900 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
ڈومیسٹک وائلینس کا شکار ایک خاتون (ر) نے بتایا کہ میں ناظم آباد میں رہتی ہوں، گھریلو ناچاکیوں کی وجہ سے میرا شوہر مجھ پر تشدد کرتا تھا، علاج کے لیے عباسی اسپتال پہنچی، میں مذکورہ اسپتال کے ایم ایل او سیکشن پہنچی تو معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی لیڈی ایم ایل او موجود نہیں، وہاں موجود مرد ایم ایل او نے بتایا کہ لیڈی ایم ایل On call کال ہوتی ہیں، خاتون ایم ایل او نہ ہونے کی وجہ سے میری ایم ایل رپورٹ فوری طور پر درج نہیں کی جا سکی تاہم میں وہاں موجود مرد ایم ایل او کو اپنا مدعا مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر رہی، اگر اس وقت اسپتال میں لیڈی ایم ایل او موجود ہوتی تو وہ خاتون ہونے کے ناطے میرے احساسات کو سمجھ پاتی۔
متاثرہ خاتون نے بتایا کہ تشدد کے بعد میرے احساسات جارحانہ تھے اور میں مشتعل اور جذباتی تھی، میں نے اپنے شوہر پر مقدمے کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا تھا لیکن لیڈی ایم ایل او نہ ملنے کی وجہ سے مرد ایم ایل او سے اپنے احساسات کا اظہار نہ کر سکی، میڈیکو لیگل رپورٹ لکھی گئی لیکن رپورٹ ریزوف کرلی گئی۔
خاتون نے بتایا کہ اگر بروقت کسی بھی متاثرہ خاتون کی ایم ایل رپورٹ درج کر لی جائے تو اسے انصاف کی فراہمی جلد ہو سکے گی کیونکہ ڈومیسٹک وائلینس کے مقدمات کے فیصلے ایم ایل او کی رپورٹ کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے شوہر نے مجھے سے معافی تلافی کرلی اور میں نے مقدمہ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر سمعیہ طارق نے بتایا کہ کراچی کی خواتین کی آبادی پر ہمارے پاس کراچی میں 20 لیڈی ایم ایل او تعینات ہیں، انہوں نے کہا کہ تشدد کے واقعات ہونے کی صورت میں عوام ان تین اسپتالوں میں قائم میڈیکو لیگل شعبے کا رخ کرتے ہیں کیونکہ عوام کے ذہنوں میں یہی تین اسپتال ہیں جہاں پر تربیت یافتہ لیڈی ایم ایل او تعینات ہیں اور ان تینوں اسپتالوں کے میڈیکو لیگل شعبے مکمل فعال اور تمام تر سہولیات میسر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی میں 20 لیڈی ایم ایل او جبکہ 24 مرد ایم ایل او تعینات ہیں۔ وزیر صحت کے ہدایت پر سندھ میں پہلی بار ایم ایل او شعبے کو ڈیجیٹلائز کرنے پر کام شروع کر دیا گیا ہے جس کے بعد ایم ایل رپورٹ فوری طور پر کمپیوٹر کے ذریعے پولیس اور متعلقہ عدالتوں کو بھیجی جا سکے گی تاکہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدموں میں تاخیر نہ ہو اور فوری طور پر متاثرہ خواتین کو انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے۔
ڈاکٹر سمعیہ طارق نے کہا کہ مینوئل میڈیکو لیگل رپورٹ بنانے اور اس میڈیکو لیگل رپورٹ کی کاپیاں پولیس اور عدالتوں تک پہنچانے میں بہت تاخیر ہوتی تھی جس کی وجہ سے زیر سماعت مقدمات میں تاخیر کا سامنا ہوتا تھا، ڈیجیٹلائز کے بعد یہ تاخیر ختم ہو جائے گی اور متاثرہ خواتین کو فوری اور بروقت انصاف مل سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ریپ کیس میں تاخیر کا سامنا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم متاثرہ خاتون کا ڈی این اے اور دیگر ٹیسٹ کے نمونے کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (ICCBS) کے تحت چلنے والے سندھ فارنزک ڈی این اے لیبارٹری بھیجتے ہیں جس کی رپورٹ آنے کے بعد لیڈی ایم ایل او کی جانب سے متعلقہ پولیس اور عدالتوں کو بھیجے جاتے ہیں، ان رپورٹ کے آنے میں تاخیر کا سامنا ہوتا ہے تاہم جیسے ہی ہمارے شعبے میں یہ رپورٹ آتی ہے تو ہم فوری طور پر رپورٹ متعلقہ عدالتوں میں بھیج دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ MLO سیکشن ڈیجیٹلائز ہونے کے بعد رپورٹس فوری طور پر عدالتوں کو بھیجی جائیں گی۔ سندھ میں 2023 میں پہلی بار سندھ میڈیکو لیگل ایکٹ متعارف کروایا گیا تاہم اس ایکٹ کے تحت اس کے رولز اور پروسیجر کو حتمی شکل دی جا رہی ہے جس کے بعد اس شعبے میں مزید آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔
پوسٹ مارٹم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کے سہولت کراچی سے صرف تین اسپتالوں جناح، سول اور عباسی میں موجود ہے، ہم لیاری سمیت دیگر اسپتالوں میں قائم میڈیکو لیگل شعبے کو بھی فعال کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر سمعیہ طارق نے مزید بتایا کہ 2024 میں ریپ اور خواتین پر تشدد کے 730 کیسز رپوٹ ہوئے تھے، 2025 کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ابھی اس سال کے اعدادوشمار دسمبر میں جاری کیے جائیں گے۔
عابد زمان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ خواتین پر ہونے والے تشدد، ریپ کیس اور قتل میں میڈیکو لیگل کی رپورٹ بہت اہمیت کے حامل ہے اور اسی رپورٹ کی روشنی میں عدالتوں میں فیصلے دیے جاتے ہیں۔ لیڈی ایم ایل او ہو یا مرد ایم ایل او ان کی رپورٹس پر ہی عدالتوں میں مقدمات چلائے جاتے ہیں، خواتین پر تشدد اور ریپ کیس کی تصدیق لیڈی ایم ایل او ہی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گھریلو تشدد میں آنے والے زخموں کا تعین بھی میڈیکو لیگل رپورٹ میں کیا جاتا ہے جبکہ ریپ یا کسی واقع میں قتل کیے جانے کی وجوہ موت کا تعین بھی میڈیکو لیگل رپورٹ میں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ریپ کیس ہو یا تشدد کا کوئی بھی واقع ہو میڈیکو لیگل افسران اس کے زخموں کا تعین کرنے کے لیے متاثرہ خاتون کے مخصوص اور حساس حصوں کے نمونے لے کر لیبارٹری بھیجتے ہیں جہاں پر ان نمونوں کی تصدیق کی جاتی، ان نمونوں میں زیادتی کرنے والا فرد اور متاثرہ خاتون کے نمونے اس مخصوص ٹیسٹ کے ذریعے میچ کیے جاتے ہیں جس سے زیادتی کی تصدیق کی جاتی ہے، متاثرہ لڑکی virgin ہو یا شادی شدہ لیڈی ایم ایل او ہی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔
ایڈووکیٹ عابد زمان نے کہا کہ میڈیکو لیگل رپورٹ ریپ کیس میں انتہائی اہم حیثیت رکھتی ہے، عدالت میں یہ رپورٹ بنیادی شہادت کے طور پر پیش کی جاتی ہے جو کیس کے فیصلے پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریپ کیس میں گواہوں کے بیانات کے ساتھ ساتھ ایم ایل او رپورٹ سب سے مضبوط ثبوت کے طور پر کام آتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایم ایل او تعینات ہیں متاثرہ خواتین کو انصاف کی فراہمی انہوں نے کہا کہ رپورٹ ہوتے ہیں مرد ایم ایل او سندھ گورنمنٹ متاثرہ خاتون اسپتالوں میں عدالتوں میں نے بتایا کہ فوری طور پر اسپتال میں کہ ریپ کیس میں تاخیر رپورٹ میں کراچی میں میں یومیہ کی وجہ سے کے نمونے کراچی کے رپورٹ کی جاتے ہیں کی تصدیق کا تعین کو بھی کے لیے کے بعد میں یہ
پڑھیں:
شاہِ ہمدان کی تعلیمات ہر زمانے کے لیے مشعلِ راہ ہیں، میر واعظ
ذرائع کے مطابق میر واعظ عمر فاروق نے دارالعلوم قاسمیہ، لال بازار، سرینگر میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہِ ہمدان نے حکمت، محبت اور اخلاق کے ساتھ وادی کشمیر میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے عظیم صوفی، عالم اور مصلحِ ملت امیرِ کبیر میر سید علی ہمدانی کی اسلام، ثقافت اور تہذیب پر گہرے اثرات کو اجاگر کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق میر واعظ عمر فاروق نے دارالعلوم قاسمیہ، لال بازار، سرینگر میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہِ ہمدان نے حکمت، محبت اور اخلاق کے ساتھ وادی کشمیر میں اسلام کا پیغام پہنچایا اور تعلیم، سماجی اصلاح اور ہنر و دستکاری کے فروغ کے ذریعے لوگوں کی فکری، اخلاقی اور معاشی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ شاہِ ہمدان ایک روحانی رہنما، سماجی مصلح اور مردم ساز شخصیت تھے جن کی تعلیمات ہر زمانے کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ شاہِ ہمدان کی مشہور تصنیف ذخیر الملوک کا ذکر کرتے ہوئے میر واعظ نے کہا کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کی پی ایچ ڈی کی تحقیق اسی عظیم تصنیف پر ہے۔ انہوں نے اسے نہ صرف حکمرانوں کے لیے بلکہ ہر اس فرد کے لیے رہنما قرار دیا جو کسی بھی طرح کی ذمہ داری کا حامل ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ کتاب قرآن و سنت کی روشنی میں انصاف، جوابدہی، رحمدلی اور نیک حکمرانی کے ایسے اصول بیان کرتی ہے جو آج بھی عوامی زندگی کے لیے ایک اخلاقی رہنما ہے۔ میر واعظ نے کہا کہ شاہِ ہمدان کی صوفیانہ فکر نے سیاست کو باطن کی اصلاح سے جوڑا۔ شاہِ ہمدان کا غیر مسلموں کے بارے میں نظریہ، عدل و انصاف، رحمدلی اور رواداری پر مبنی تھا۔ ذخیر الملوک میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق، ان کی عزتِ نفس اور مذہبی آزادی پر زور دیا گیا ہے اور یہی اسلام کی اصل روح ہے۔ انصاف، رحم اور ہر انسان کے ساتھ برابری کا سلوک، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ آخر میں میر واعظ نے کہا کہ شاہِ ہمدان کا پیغام جو ایمان، علم، اخلاق اور خدمتِ خلق پر مبنی ہے اور عشقِ الہی کی روشنی سے منور ہے آج بھی عدل و انصاف پر مبنی پرامن اور بااخلاق معاشرے کی تشکیل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔