عثمان بزدار دور میں 20 کروڑ کی مالی بے ضابطگی بے نقاب، سرکاری افسران ملوث قرار
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
لاہور:
عثمان بزدار دور میں 20 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگی بے نقاب ہو گئی، جس میں سرکاری افسران کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے دور حکومت میں ایک بڑی مالی بے ضابطگی کا انکشاف ہوا ہے، جس کے تحت ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی منڈی بہاالدین میں 200 ملین روپے (20 کروڑ) کی مبینہ مالی ہیر پھیر کی گئی۔
اس سلسلے میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تھری کے حکم پر باقاعدہ انکوائری عمل میں لائی گئی، جس کے بعد ممبر انکوائری نے تفصیلی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ کمیٹی کو ارسال کر دی ہے۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں محکمہ صحت نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر 200 ملین روپے کی خریداری کی۔ یہ مالی بے ضابطگی مالی سال 2021-22 کے آڈٹ میں سامنے آئی، جس کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تھری نے فوری طور پر سخت ایکشن لیتے ہوئے اس معاملے کی انکوائری کرائی۔
تحقیقات میں اعلیٰ سرکاری افسران کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے اور رپورٹ میں ان کے خلاف انضباطی کارروائی کے ذریعے مزید اقدامات اور جانچ پڑتال کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ تحقیقاتی افسر کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آئندہ ایسے معاملات میں محتاط رہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ محکمہ صحت ان لائن سسٹم کے ذریعے مزید چھان بین کرے تاکہ اصل ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔ ساتھ ہی تحقیقاتی افسر نے ڈی جی ہیلتھ کو بھی تاخیر کی وجوہات جاننے اور اس کی باقاعدہ تحقیقات کرنے کا کہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مالی بے ضابطگی
پڑھیں:
آئی ایم ایف کی ایک اورشرط پوری:ایف بی آر افسران کے اثاثہ جات ظاہر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251128-08-25
اسلام آباد(آن لائن)وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)کی ایک اور بڑی شرط پوری کردی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران کے اثاثہ جات ظاہر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی دفعہ 237 کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے شیئرنگ آف ڈیکلیریشن آف ایسیٹس آف سول سرونٹس رولز 2023ء میں اہم ترامیم متعارف کرا دی ہیں۔ مذکورہ ترامیم اس سے قبل 7 اکتوبر 2025 ء کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن 1912(I)/2025 کے تحت شائع کی گئی تھیں جنہیں قانون کے مطابق عوامی رائے کے بعد حتمی شکل دی گئی ہے۔ایف بی آر کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق نئے قواعد میں متعدد تبدیلیاں کی گئی ہیں، سب سے اہم ترمیم یہ ہے کہ قواعد میں جہاں کہیں بھی لفظ سول استعمال ہوا ہے وہاں پبلک کا لفظ شامل کردیا گیا ہے اور ایک کی ذیلی شق (1) میں بھی یہی تبدیلی منظور کی گئی ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے رول 2 میں ایک نئی شق(ii-a) شامل کی گئی ہے جس کے مطابق پبلک سرونٹ سے مراد وفاقی یا صوبائی حکومتوں، خود مختار اداروں، سرکاری کارپوریشنز یا حکومتی ملکیتی کمپنیوں کے ایسے افسران ہوں گے جن کا پے اسکیل 17 یا اس سے اوپر ہو اور اس تعریف میں وہ ملازمین بھی شامل ہوں گے جو سول سرونٹس ایکٹ 1973ء کے تحت آتے ہیں۔اس شق میں ایسے افراد شامل نہیں ہوں گے جنہیں قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ 5 کے کلاز (n) کی ذیلی شق (iv) میں استثنا دیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق ان ترامیم کا مقصد قواعد کو زیادہ جامع اور ہم آہنگ بنانا ہے تاکہ سرکاری و نیم سرکاری افسران کے اثاثوں کی معلومات کے تبادلے کا نظام مزید واضح، مؤثر اور شفاف بنایا جاسکے۔