Islam Times:
2025-11-28@11:08:18 GMT

عراق انتخابات 2025ء، ایک سیاسی تجزیہ

اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT

عراق انتخابات 2025ء، ایک سیاسی تجزیہ

اسلام ٹائمز: عراق کے حالیہ انتخابات اور اسکے نتائج اس امر کے آئینہ دار ہیں کہ عراقی سماج فکری، سیاسی، مسلکی اور نسلی طور پر ہی منقسم نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی تقسیم کا شکار ہے۔ عراق معاشی طور پر غیر مستحکم، داخلی سکیورٹی اور غیر ملکی مداخلت جیسے مسائل سے دوچار ہے، جسے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ محسوس بھی کر رہا ہے اور اسکے خاتمے کیلئے کوشاں بھی ہے۔ تبدیلی کی یہ سوچ اگر اہلسنت، کرد اور شیعہ بلاک میں ایک جیسی ہو تو عراق کے سیاسی نظم کیلئے بہت مفید ہے، تاہم اگر فقط شیعہ بلاک ایسا سوچ رہا ہے تو اسکا واضح نتیجہ عالمی کرداروں میں سے ایک کردار کے تسلط پر منتہی ہوگا۔ ایسے حالات سے دوچار اکثر معاشرے انقلابات کیلئے ہموار زمین ہوتے ہیں۔ اکثر آمر ایسے حالات پر سواری کرتے ہوئے معاشروں پر مسلط ہوتے ہیں۔ تحریر: سید اسد عباس

عراق پر 2003ء میں امریکی حملے، صدام حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی جمہوری حکومت کا سیاسی سفر حالیہ انتخابات 2025ء کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ آئین کی تشکیل، فرقہ وارانہ تنازعات کا حل، داعش کا ظہور اور خاتمہ، خارجہ طاقتوں کی دخل اندازی اور مسلسل حکومت سازی کے بحران جیسے مشکل مراحل اس سفر کے دوران عراقی عوام اور قیادت نے دیکھے۔ ان مسائل کے ساتھ جڑے سماجی مسائل بے روزگاری، مہنگائی، کرپش، بنیادی انفراسٹرکچر کی عدم فراہمی وغیرہ اس پر مستزاد ہیں۔ حالیہ انتخابات نے ایک امر کو واضح کیا کہ عراق اب بھی ایران اور امریکہ کے مابین سیاسی توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا، تاہم اس کوشش میں داخلی کشمکش، طاقتور گروہوں کے اثرات اور بداعتمادی جیسے عوامل مسلسل رکاوٹ بن رہے ہیں۔

عراق کا جدید سیاسی نظام 2005ء کے آئین کے تحت قائم ہوا ہے۔ اس آئینی ڈھانچے میں وزیراعظم شیعہ ہوتا ہے،صدر کرد ہوتا ہے اور سپیکر اہل سنت مکتب فکر سے ہوتا ہے۔ یہ طاقت کی تقسیم بظاہر متوازن نظر آتی ہے، مگر عملی طور پر اس نے فرقہ وارانہ کوٹہ سسٹم کو جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں قومی منشور کے بجائے فرقہ وارانہ نمائندگی پر توجہ دینے لگتی ہیں، ایسے سسٹم میں خارجی قوتوں کو دخل اندازی کرنے کا بھرپور موقع میسر آتا ہے۔ امریکہ اہل سنت عربوں، کردوں اور ریاستی اداروں کی تشکیل نو کے ذریعے اپنا رسوخ قائم رکھتا ہے، جبکہ ایران کا میدان رسوخ عسکری گروہ اور مقاومتی تنظیمیں ہیں۔ 2006ء سے 2018ء تک عراق دہشت گردی، داعش کے عروج، جنگوں، فرقہ وارانہ فسادات اور معاشی بحرانوں سے دوچار رہا، جس کے سبب سیاسی سفر عملاً معطل رہا۔

2021ء کے انتخابات عراق کے لیے اہمیت رکھتے تھے، کیونکہ یہ عوامی احتجاج کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات تھے۔ عوامی احتجاجی لہر کے نتیجے میں حکومت گرا دی گئی، انتخابی اصلاحات کی گئیں اور قبل از وقت انتخابات کرائے گئے۔ 2021ء میں مقتدیٰ صدر کی جماعت پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ٹرن آؤٹ 41 فیصد رہا، جو سیاسی و عوامی بیزاری کی علامت سمجھا گیا۔ اس انتخاب میں آزاد امیدواروں اور تشرین تحریک کے کارکنان نے کچھ نشستیں حاصل کیں، تاہم حکومت سازی 11 ماہ تک تعطل کا شکار رہی۔ مقتدیٰ الصدر نے اکثریتی حکومت بنانے کی کوشش کی، تاہم ان کو وہ مینڈیٹ حاصل نہ تھا کہ وہ تنہاء حکومت بنا سکتے۔ دیگر گروہوں سے ان کا  فکری، مسلکی اور نسلی اختلاف آڑے آیا۔ نتیجتاً مقتدیٰ صدر نے اپنے اراکین پارلیمنٹ کو مستعفی ہونے کا کہا، جو عراق کی سیاسی تاریخ کا غیر معمولی اقدام تھا۔

2025ء کے انتخابات کے نتائج، عراق میں تین واضح بلاکس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مزاحمتی اور منظم بلاک، اس بلاک میں بدر آرگنائزیشن (ہادی العامری)، عصائب اہل الحق/صادقون، نوری المالکی کا قانونِ ریاست اور حشد الشعبی سے وابستہ سیاسی گروہ شامل ہیں۔ اس بلاک نے اس انتخاب میں بھی نشستوں کی تعداد اور سیاسی اثر کے لحاظ سے واضح برتری حاصل کی۔ یہ بلاک عراق کی سلامتی کی پالیسی، اقتصادی ترجیحات، خارجہ تعلقات، شام اور خطے کی سکیورٹی حکمت عملی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، تاہم ان کا اثر عراق کو بعض خطوں میں امریکہ، اہلسنت اور کردوں سے تناؤ کی کیفیت میں لے جاتا ہے۔

دوسرا اہم بلاک اہل سنت مکتب اور کردوں کا بلاک ہے، جس میں صلاح الدین، محمد الحلبوسی، خمیس الخنجر سمیت دیگر اہم اہل سنت قائدین کی جماعتیں شامل ہیں۔ اس گروہ نے مرکز سے اختیارات لینے، ملکی اداروں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور ترقی کے وعدوں پر انتخابات لڑے، جو واضح طور پر امریکی لائن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مسعود بارزانی نے اربیل اور دهوک میں اپنی اکثریت برقرار رکھی۔ یہ بھی عراقی سیاست میں امریکی رسوخ کو برقرار رکھنے کا ایک اہم عامل ہیں۔ تیسری اہم قوت جو عراقی سیاست میں ظاہر ہو رہی ہے، وہ جدید قوم پرستی کی تحریک ہے، جو اگرچہ فی الحال منتشر ہے، تاہم اس نے موجودہ انتخابات میں قوت حاصل کی ہے۔ اس کا آغاز تشرین تحریک سے ہوا۔

یہ گروہ عراق کے لیے متوازن خارجہ پالیسی، مسلح گروہوں کے رسوخ کے خاتمہ، داخلی سیاست میں خارجہ قوتوں کی دخالت کے خاتمہ، معاشی بدعنوانی پر گرفت، ریاستی اداروں کی خود مختاری جیسے اہداف کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فی الحال یہ آواز منظم ڈھانچے، سیاسی قیادت، وسائل اور انتخابی اتحاد سے محروم ہے۔ یہی سبب ہے کہ حالیہ انتخابات میں کوئی نمایاں کامیابی نہ حاصل کرسکی، مگر سماجی سطح پر اس کا اثر بڑھ رہا ہے۔ حالیہ انتخابات میں مقتدیٰ الصدر کی جماعت کا بائیکاٹ اور  غیر موجودگی، 2025ء انتخابات کا سب سے بڑا سیاسی واقعہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کا سیاسی نظام بدعنوانی پر مبنی ہے نیز شفاف نہیں ہے۔

ایک طرح سے وہ مزاحمتی گروہوں کے رسوخ کے بھی مخالف ہیں، ان کا انتخابی کمیشن پر اعتماد نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ عراق کو غیر ملکی اثرات کے رسوخ سے باہر نکالا جائے۔ اگر صدر انتخابات میں شریک ہوتے تو شائد نتائج کا ڈی این اے مختلف ہوتا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو تشرین تحریک اور مقتدیٰ صدر کا بیانیہ کافی حد تک ہم آہنگ ہے۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ ووٹنگ ٹرن آؤٹ جو ظاہر کیا گیا، حقیقی نہیں ہے، ملک میں اہل ووٹرز کی ایک بڑی تعداد رجسٹرڈ ہی نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ ووٹوں کی خریداری، سیاسی دباؤ اور بڑی کمپینز کے دعوے بھی سامنے آرہے ہیں۔

عراق کے حالیہ انتخابات اور اس کے نتائج اس امر کے آئینہ دار ہیں کہ عراقی سماج فکری، سیاسی، مسلکی اور نسلی طور پر ہی منقسم نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی تقسیم کا شکار ہے۔ عراق معاشی طور پر غیر مستحکم، داخلی سکیورٹی اور غیر ملکی مداخلت جیسے مسائل سے دوچار ہے، جسے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ محسوس بھی کر رہا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے کوشاں بھی ہے۔ تبدیلی کی یہ سوچ اگر اہل سنت، کرد اور شیعہ بلاک میں ایک جیسی ہو تو عراق کے سیاسی نظم کے لیے بہت مفید ہے، تاہم اگر فقط شیعہ بلاک ایسا سوچ رہا ہے تو اس کا واضح نتیجہ عالمی کرداروں میں سے ایک کردار کے تسلط پر منتہی ہوگا۔ ایسے حالات سے دوچار اکثر معاشرے انقلابات کے لیے ہموار زمین ہوتے ہیں۔ اکثر آمر ایسے حالات پر سواری کرتے ہوئے معاشروں پر مسلط ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حالیہ انتخابات انتخابات میں فرقہ وارانہ ایسے حالات شیعہ بلاک سے دوچار ہوتے ہیں کہ عراق اہل سنت عراق کے اور اس ہیں کہ کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

جی بی میں جدید مالیاتی اصلاحات کیلئے تین قانون منظور کرائے، محکمہ خزانہ

بل کے تحت فنڈ مینجمنٹ کا مقامی اور ادارہ جاتی نظام، ملازمین کی جمع رقم کو قانونی تحفظ، آڈٹ اور ادائیگی کے سخت ضابطے اور ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کی جائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ محکمہ خزانہ گلگت بلتستان سے جاری ایک بیان کے مطابق صوبے میں مالیاتی نظم و نسق کو نسق کو جدید خطوط پر استوار کرنے، شفافیت بڑھانے اور سرکاری ملازمین کے مالی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تین اہم قوانین گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور کروائے گئے ہیں، جن میں سے ایک گلگت بلتستان جنرل پروویڈنٹ فنڈ (جی پی فنڈ) بل 2025ء شامل ہے، یہ بل سول سرونٹس کے جی پی فنڈ کے لیے ایک خودمختار، شفاف، اور قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ بل کے تحت فنڈ مینجمنٹ کا مقامی اور ادارہ جاتی نظام، ملازمین کی جمع رقم کو قانونی تحفظ، آڈٹ اور ادائیگی کے سخت ضابطے اور ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کی جائے گی۔ بیان کے مطابق یہ اصلاح سرکاری ملازمین کی مالی حفاظت اور اعتماد کو مضبوط بناتی ہے۔ ایک اور بل پبلک فنانس مینجمنٹ (PFM) ایکٹ 2025ء بھی منظور ہوا۔ پی ایف ایم ایکٹ 2025ء عوامی فنڈز کے شفاف اور موثر انتظام کے لیے ایک جامع قانونی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ اسمبلی سے مظور شدہ پنشن بل 2025ء کو گلگت بلتستان کونسل کو ارسال کیا گیا ہے۔ پنشن بل 2025ء سرکاری ملازمین کے لیے ایک جدید، منصفانہ، اور محفوظ پنشن نظام قائم کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب اور امارات کی جانب سے عراق کے سنی بلاک کے اتحاد کے لیے بننے والی "قومی سیاسی کونسل" سے عدم توجہی
  • میانمر : فوجی حکومت کا ہزاروں قیدیوں کی رہائی کا اعلان
  • پولیو کا خاتمہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، نورمصطفیٰ لغاری
  • ناصر عباس شیرازی کا مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • جی بی میں جدید مالیاتی اصلاحات کیلئے تین قانون منظور کرائے، محکمہ خزانہ
  • اقوامِ متحدہ نے 2025ء کو ’’عالمی سالِ کوانٹم سائنس و ٹیکنالوجی‘‘ قرار دے دیا
  • ضمنی انتخابات کا سیاسی سبق
  • کوانٹم سالِ 2025ء
  • نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی