پروفیسر شاداب احمد صدیقی
نوبیل انعام میں ٹرمپ کی ناکامی سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے سالوں بے مثال جدوجہد کرنی پڑتی ہے اس کے پس منظر میں نوبیل امن کا لالچ نہیں ہوتا ہے ۔یہ وقت ثابت کرتا ہے کہ کس نے امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ٹرمپ کے لیے تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
امن انعام خواہشات کا پابند نہیں ہے ۔دنیا کی سیاست میں نوبیل امن انعام محض ایک اعزاز نہیں بلکہ ایک علامت ہے ایسی علامت جو
عالمی ضمیر، انسانی وقار اور امن کے استحکام کی نمائندگی کرتی ہے ۔ 2025کے نوبیل امن انعام کا فیصلہ اسی علامتی طاقت کا مظہر ثابت ہوا
جب ناروے کی نوبیل کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ایوارڈ سے محروم رکھا۔ ان کی تمام تر مہم، بیانات اور امن کے
دعووں کے باوجود، کمیٹی نے واضح پیغام دیا کہ نوبیل کا معیار کسی سیاسی دباؤ، عوامی تاثر یا میڈیا مہم سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ صرف میرٹ،
استحکام اور دیرپا امن کے اصولوں پر قائم ہے ۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگیوں کا سلسلہ ہر سال 31 جنوری کو بند ہو جاتا ہے ، جبکہ 2025میں ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو اپنی دوسری مدتِ صدارت کے لیے حلف اٹھا چکے تھے ۔ اس کا
مطلب یہ ہے کہ ان کے وہ حالیہ اقدامات، جنہیں وہ اپنی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہیں، جیسے اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ
جنگ بندی یا وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا مچاڈو کی حمایت، اس سال کے نوبیل انعام کے دائرے میں شامل نہیں ہو سکے ۔ اس
حقیقت نے ٹرمپ کی امیدوں کو ابتدا ہی سے محدود کر دیا تھا، تاہم انہوں نے اپنی روایتی سیاسی حکمتِ عملی کے مطابق نوبیل انعام کے لیے
کھلے عام مہم چلائی، جسے مبصرین نے ان کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ قرار دیا۔ہنری جیکسن سوسائٹی سے وابستہ تجزیہ کار تھیئو زینو کے مطابق،
نوبیل امن انعام محض چند مہینوں کی سرگرمی یا کسی تازہ سیاسی معاہدے کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ برسوں کی تحقیق، تصدیق اور عالمی اثرات کے
گہرے جائزے کے بعد دیا جاتا ہے ۔ ان کے مطابق، نوبیل کمیٹی آخری لمحات میں کسی نئے معاہدے یا میڈیا مہم کی بنیاد پر اپنے فیصلے میں
تبدیلی نہیں کرتی۔ زینو نے یہ بھی کہا کہ نوبیل کمیٹی اپنی خودمختاری پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کرتی، اور یہی وجہ ہے کہ کسی امیدوار کی جانب
سے ایوارڈ حاصل کرنے کی مہم یا تشہیر الٹا اثر ڈال سکتی ہے ۔
ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو موکھیفی ایشٹن نے اس فیصلے کو ایک محتاط اور سوچے سمجھے عالمی سیاسی توازن کا حصہ قرار دیا۔ ان
کے مطابق، نوبیل کمیٹی نے یہ فیصلہ نہ صرف اپنے معیار کی حفاظت کے لیے کیا بلکہ ایک ایسے پیغام کے طور پر بھی جس سے دنیا کے طاقتور
رہنما یہ سمجھ سکیں کہ امن انعام کسی طاقت، معاہدے یا بیانیے کی مرہونِ منت نہیں بلکہ یہ انسانیت کے مفاد میں پائیدار عمل کا اعتراف ہے ۔
انہوں نے کہا کہ نوبیل انعام کا نہ ملنا ٹرمپ کے لیے صرف ایک ذاتی ناکامی نہیں بلکہ ایک اخلاقی سبق بھی ہے کہ امن کو محض الفاظ یا وقتی
معاہدوں سے نہیں، بلکہ پائیدار انسانی بھروسے اور سماجی انصاف سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
نوبیل کمیٹی کے سربراہ یورگن واٹنے فرائیڈنس نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ فیصلہ الفریڈ نوبیل کی وصیت اور ان کے بنیادی اصولوں
کے عین مطابق کیا گیا۔ ان کے مطابق، کمیٹی ہر فیصلے میں میرٹ کو اولین حیثیت دیتی ہے ، نہ کہ کسی سیاسی یا سفارتی دباؤ کو۔ اس بیان نے
ٹرمپ کی اس دلیل کو بھی غیر مؤثر کر دیا کہ کمیٹی جانبداری سے کام لے رہی ہے ۔ ٹرمپ بارہا نوبیل نظام کو اشرافیہ نواز اور غیر منصفانہ قرار
دے چکے ہیں، خاص طور پر 2009 میں جب ان کے سیاسی حریف باراک اوباما کو صدر بننے کے فوراً بعد یہ اعزاز دیا گیا۔ اسی لمحے سے
ٹرمپ کے دل میں نوبیل انعام کے حصول کی خواہش ایک ذاتی جنون کی شکل اختیار کر گئی، جسے وہ اپنی عالمی ساکھ کے ساتھ جوڑتے آئے
ہیں۔تاہم 2025 کا نوبیل امن انعام وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا مچاڈو کے حصے میں آیا، جنہیں جمہوریت، آزادیِ اظہار، اور
آمریت سے جمہوری انتقالِ اقتدار کے لیے پُرامن جدوجہد پر سراہا گیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف وینزویلا بلکہ دنیا بھر میں جمہوری اقدار کے احیاء
کا مظہر سمجھا گیا۔ مچاڈو کی کامیابی اور ٹرمپ کی ناکامی کا تقابل عالمی سیاست کے لیے ایک علامتی پیغام بن گیا کہ نوبیل امن انعام طاقتوروں
کے لیے نہیں بلکہ اصولوں کے لیے دیا جاتا ہے ۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق، نوبیل کمیٹی نے اس برس ریکارڈ تعداد میں نامزدگیاں موصول کیں، لیکن حتمی انتخاب اُن شخصیات کے
لیے تھا جنہوں نے حقیقی معنوں میں امن، برداشت اور انسانی مساوات کے لیے عملی قربانیاں دی تھیں۔ کمیٹی کے ایک رکن کے بقول، نوبیل
کا مقصد دنیا کے ضمیر کو جگانا ہے ، نہ کہ سیاسی شہرت کی توثیق کرنا۔ اس جملے نے ایک بار پھر یہ طے کر دیا کہ کسی بھی رہنما کی ذاتی شہرت یا
میڈیا اثر نوبیل کے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک، ٹرمپ کے لیے یہ فیصلہ ان کی دوسری مدتِ صدارت
میں اشرافیہ اور عالمی اداروں کے ساتھ بڑھتی ہوئی خلیج کی علامت بھی ہے ۔ وہ بارہا یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ بین الاقوامی ادارے
امریکہ کے اندرونی مفادات کے مخالف ایجنڈے پر چلتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نوبیل انعام کا ادارہ ہمیشہ عالمی امن کے طویل مدتی
اثرات کو دیکھتا ہے ، نہ کہ کسی رہنما کی وقتی مقبولیت یا پالیسی تبدیلی کو۔یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر ٹرمپ کے حالیہ امن اقدامات خاص طور
پر مشرقِ وسطیٰ میں ممکنہ جنگ بندی مستقل اور پائیدار ثابت ہوئے تو 2026 کا نوبیل انعام ان کے لیے ایک نیا موقع بن سکتا ہے ۔ نوبیل
کمیٹی کسی فرد کو مستقل بنیادوں پر خارج نہیں کرتی؛ معیار صرف ایک ہے امن کی پائیداری۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں کئی رہنماؤں نے اپنے
سابقہ اقدامات کے بعد دوبارہ نامزدگی حاصل کی، بشرطیکہ ان کے فیصلوں نے انسانی فلاح پر مثبت اثر ڈالا ہو۔اگر اس ساری صورتِ حال
کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو نوبیل کمیٹی کا یہ فیصلہ ایک عالمی اصول کی یاددہانی ہے کہ طاقت یا دولت نہیں، بلکہ نیت، مستقل مزاجی اور
انسانی وقار ہی امن کی بنیاد ہیں۔ ٹرمپ جیسے طاقتور رہنماؤں کے لیے یہ لمحہِ غور ہے کہ امن کے میدان میں کامیابی ٹویٹس یا بیانات سے نہیں
بلکہ تحمل، اعتماد اور مسلسل سفارتی عمل سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اس فیصلے نے دنیا بھر کے سیاسی قائدین کو یہ پیغام دیا کہ نوبیل انعام کی
منزل اُن کے لیے نہیں جو امن کا نعرہ سیاسی فائدے کے لیے لگاتے ہیں، بلکہ اُن کے لیے ہے جو خطرات کے باوجود انصاف اور انسانیت
کے اصولوں پر قائم رہتے ہیں۔آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ نوبیل کمیٹی نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ امن کا تصور وقتی جذبات یا سیاسی دباؤ سے
نہیں جیتا جا سکتا۔ نوبیل امن انعام ایک مقدس امانت ہے جو صرف اُن ہاتھوں میں دی جاتی ہے جنہوں نے انسانیت کے لیے قربانی،
برداشت اور انصاف کا راستہ اپنایا۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی عالمی امن کے خواہاں ہیں تو انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ نوبیل جیتنے کا راستہ خود نوبیل کے
اصولوں سے ہو کر گزرتا ہے ، نہ کہ اُن کے خلاف۔ یہی دنیا کے ضمیر اور نوبیل روایت کا اصل پیغام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: نوبیل امن انعام نوبیل کمیٹی نے نوبیل انعام نہیں بلکہ ہیں بلکہ یہ فیصلہ کہ نوبیل کے مطابق انعام کے نہیں ہو ٹرمپ کے ٹرمپ کی کے لیے امن کے بلکہ ا اور ان کہ امن دیا کہ کہ کسی
پڑھیں:
نوبیل انعام کے اصل حقدار آپ تھے، — ٹرمپ کا ماچاڈو کی کال کا دعویٰ
امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ نوبیل امن انعام جیتنے والی وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچاڈو نے انہیں فون کرکے کہا کہ اصل میں یہ انعام آپ کو ملنا چاہیے تھا۔ ٹرمپ کے مطابق، ماریا ماچاڈو نے فون پر کہا،میں یہ ایوارڈ آپ کے نام کر رہی ہوں، کیونکہ اس کے اصل حقدار تو آپ ہیں۔ ٹرمپ یہ بات وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہہ رہے تھے، جب ان سے نوبیل انعام کے حالیہ فیصلے سے متعلق سوال کیا گیا۔
ناروے کی نوبیل کمیٹی نے چند روز قبل وینزویلا میں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے لیے طویل جدوجہد کرنے والی ماریا کورینا ماچاڈو کو نوبیل امن انعام سے نوازنے کا اعلان کیا تھا۔ وہ وینزویلا میں آمریت کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتی رہی ہیں اور انہیں وہاں جمہوری تحریک کی ایک توانا علامت سمجھا جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ نوبیل انعام کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں دیا جائے، تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے دورِ صدارت میں پاک بھارت سمیت آٹھ ممکنہ جنگیں رکیں اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ان کے اقدامات سے اربوں انسانوں کی جانیں بچیں۔
ادھر ماریا کورینا ماچاڈو نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ یہ انعام وینزویلا کے مصیبت زدہ عوام کے نام کرتی ہیں، اور ساتھ ہی ان عالمی رہنماؤں کے لیے بھی ہے جنہوں نے ان کی جدوجہد کی حمایت کی، جن میں صدر ٹرمپ کی حمایت کو انہوں نے فیصلہ کن قرار دیا۔
یہ سارا معاملہ نوبیل انعام جیسے باوقار اعزاز اور عالمی سیاست کے درمیان دلچسپ تعلق کو اجاگر کرتا ہے، جہاں اعتراف، حمایت، اور ذاتی دعوے ایک ساتھ سامنے آتے ہیں۔