سندھ ہائیکورٹ کا کراچی چڑیا گھر سے مادہ ریچھ کو اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
کراچی:
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی زو میں مادہ ریچھ رانو کے لئے ناکافی انتظامات سے متعلق درخواست پر زو انتظامیہ کو 2 روز میں رانو کو اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے حوالے کرنے کا حکم دیدیا۔
سندھ ہائیکورٹ میں جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے کراچی زو میں مادہ ریچھ رانو کے لئے ناکافی انتظامات سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔ سیکریٹری وائلڈ لائف اور سینئر ڈائریکٹر کراچی زو عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ رانو کو سات برس سے ایک جگہ قید رکھا ہوا ہے۔ رانو کے سر میں کیڑے پڑ چکے ہیں۔
عدالت نے کے ایم سی انتظامیہ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایسی حالت میں رانو کو کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ آپ خود سے اپنے کام کیوں نہیں کرتے؟ ہر کام کے لئے عدالت کے حکم کا انتظار کیوں ہوتا ہے؟ ریچھ کو کہیں اچھی جگہ منتقل کیوں نہیں کرتے؟۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ 7 برس سے ایک جگہ قید رکھا گیا ہے، بے زبان جانور کا کیا قصور ہے؟ سیکریٹری وائلڈ لائف نے کہا کہ کراچی زو کے ایم سی کے زیر انتظام ہے، وائلڈ لائف کا اختیار نہیں ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ زو میں رانو کا علاج کیوں نہیں کیا جارہا؟، درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ رانو پنجرے پر اپنا سر مارتی ہے تو وہ اسٹریس میں ہوتا ہے۔ عدالت نے زو انتظامیہ کو 2 روز میں رانو کو اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے حوالے کرنے کا حکم دیدیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائلڈ لائف کراچی زو عدالت نے رانو کو
پڑھیں:
اے ٹی اے کے تحت سزا یافتہ قیدی معافی یا رعایت کے حقدار نہیں، بلوچستان ہائیکورٹ
کوئٹہ(نیوز ڈیسک) بلوچستان ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کے تحت سزا یافتہ قیدی کسی بھی قسم کی عام یا خصوصی معافی یا رعایت کے قانونی طور پر حقدار نہیں ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 21-ایف واضح طور پر دہشت گردوں کو کسی بھی قسم کی معافی یا سزا میں کمی کے حق سے خارج کرتی ہے، اس حوالے سے کسی تشریح یا نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔
جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس نجم الدین منگل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 2023 اور 2024 میں دائر کی گئی متعدد آئینی درخواستوں پر سماعت کے بعد فیصلہ سنایا اور تمام درخواستوں کو یکجا کر کے مسترد کر دیا۔
فیصلے کے مطابق، درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ انہیں آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدرِ مملکت کی معافی اور پاکستان پریزن رولز 1978 کے تحت عام یا خصوصی رعایت کا حق حاصل ہے۔
تاہم، عدالت نے قرار دیا کہ 2001 میں دفعہ 21-ایف کا اضافہ خاص طور پر دہشت گردی کے مجرموں کو معافی کے دائرہ کار سے مستقل طور پر خارج کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ یہ ترمیم ایک سوچا سمجھا قانون ساز اقدام تھا، جس کا مقصد بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں عوامی تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔
عدالت نے یہ بھی زور دیا کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے، جو عمومی قوانین مثلاً جیل ایکٹ 1894 پر فوقیت رکھتا ہے۔
عدالت نے یہ مؤقف بھی مسترد کر دیا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو رعایت نہ دینا آئین کے آرٹیکل 25 (قانون کے سامنے برابری) کی خلاف ورزی ہے، عدالت کے مطابق، دہشت گردی کے مجرم ایک منفرد قانونی طبقہ ہیں، اور اس طرح کی درجہ بندی معقول اور آئینی طور پر درست ہے۔
سپریم کورٹ کے مقدمات شروانی کیس، حکومت بلوچستان بنام عزیزاللہ، اور ڈاکٹر مبشر حسن بنام وفاقِ پاکستان کے حوالوں کا ذکر کرتے ہوئے بینچ نے قرار دیا کہ معقول درجہ بندی آئین کے تحت جائز ہے۔
عدالت نے محکمہ داخلہ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل خانہ جات اور متعلقہ سپرنٹنڈنٹس کو ہدایت کی کہ وہ فوراً تمام غیرقانونی رعایتیں، جو قانون کے منافی دی گئی ہیں، منسوخ کریں اور متاثرہ قیدیوں کی سزاؤں کا ازسرنو حساب لگائیں۔
مزید برآں، عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ کسی بھی معافی یا رعایت کو سختی سے قانونی دفعات کے مطابق دیا جائے، اور خبردار کیا کہ جو افسران اس قانون کی خلاف ورزی کریں گے، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔