گوگل کا بھارت میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اکتوبر 2025ء) گوگل کلاؤڈ کے سی ای او تھامس کیورین نے نئی دہلی میں ایک تقریب میں کہا، ''یہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا وہ سب سے بڑا ہب ہے جس میں ہم امریکہ کے باہر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔‘‘
بھارت میں کاروباری اداروں اور افراد کے درمیان اے آئی ٹولز کی مانگ میں تیزی آئی ہے، اور توقع ہے کہ رواں سال کے آخر تک ملک میں 900 ملین سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین ہوں گے۔
کیورین نے اعلان کیا کہ ''پانچ سالوں میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری‘‘ کی جائے گی اور آندھرا پردیش کے جنوب مشرقی ساحلی شہر وِشاکھاپٹنم میں ہب قائم کیا جائے گا۔ انہوں نے اس منصوبے کو ’’بھارت کے مختلف حصوں کو جوڑنے والی ڈیجیٹل ریڑھ کی ہڈی‘‘ سے تشبیہ دی اور کہا کہ اس مرکز کے متعدد گیگاواٹس تک پھیلائے جانے کا منصوبہ ہے۔
(جاری ہے)
عالمی سطح پر، ڈیٹا سینٹرز ایک شاندار ترقی کی حامل صنعت ہیں، جسے بڑی مقدار میں ڈیجیٹل ڈیٹا محفوظ کرنے اور توانائی خرچ کرنے والے اے آئی ٹولز کو چلانے کی ضرورت نے تقویت دی ہے۔
گوگل کے سربراہ سندر پِچائی نے ایکس پر کہا کہ انہوں نے وزیرِاعظم نریندر مودی سے "اہم پیش رفت" کے بارے میں بات کی ہے۔
انہوں نے لکھا،"یہ ہب گیگاواٹ اسکیل کمپیوٹ کی صلاحیت، ایک نیا بین الاقوامی سب سی گیٹ وے اور بڑے پیمانے پر توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو یکجا کرتا ہے۔
اس کے ذریعے ہم اپنی صنعت میں پیش ٹیکنالوجی بھارت کے اداروں اور صارفین تک پہنچائیں گے، اے آئی میں جدت کو تیز کریں گے اور ملک بھر میں ترقی کو فروغ دیں گے۔‘‘ ’ڈیٹا آج کے دور کی دولت ہے‘بھارت کے وزیرِ اطلاعات و ٹیکنالوجی اشونی ویشنو نے گوگل کی سرمایہ کاری کے لیے شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا، ''یہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بھارت کے اے آئی کے وژن کے اہداف کو حاصل کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو گا۔
‘‘آندھرا پردیش کے وزیراعلی چندرابابو نائیڈو نے اسے "بہت خوشی کا دن" قرار دیا۔ ریاست کے ٹیکنالوجی وزیر نارا لوکیش نے ایکس پر کہا، یہ معاہدہ "ایک سال کی سنجیدہ بات چیت اور مسلسل کوششوں" کے بعد ممکن ہوا۔
لوکیش نے کہا، ''ڈیٹا تیل کی طرح نئی دولت ہے اور ڈیٹا سینٹر نئے ریفائنری ہیں۔ یہ بھارت کو عالمی منظرنامے پر ایک اہم کردار ادا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
‘‘ بھارت میں امریکی اے آئی کمپنیوں کے بڑھتے قدمحالیہ دنوں میں امریکی اے آئی کمپنیوں نے بھارت میں صارفین کو راغب کرنے کے لیے کئی توسیعی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
رواں مہینے امریکی اسٹارٹ اپ اینتھروپک نے اعلان کیا کہ وہ اگلے سال بھارت میں دفتر کھولے گا، جس کے سی ای او داریو اموڈے نے وزیرِاعظم مودی سے ملاقات کی۔
اوپن آئی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سال کے آخر میں بھارت میں دفتر کھولے گا، اور اس کے سربراہ سیم آلٹمین نے کہا کہ پچھلے سال کے دوران چیٹ جی پی ٹی کے استعمال میں ملک میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔
بھارتی ٹیلیکوم کمپنی ایئرٹیل نے بھی جولائی میں اے آئی کمپنی پرپلیکسیٹی کے ساتھ ایک بڑے شراکت داری کا اعلان کیا، جس کے تحت کمپنی پرپلیکسیٹی پرو کے 360 ملین صارفین کو ایک سال کی مفت سبسکرپشن فراہم کی جائے گی۔
ادارت: کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرمایہ کاری بھارت میں اعلان کیا انہوں نے بھارت کے اے ا ئی
پڑھیں:
کارپوریٹ ٹیکس اورغیر ملکی سرمایہ کاری میں براہِ راست تعلق
کراچی:پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی اور جمودکی بڑی وجہ ملک میں بلند ترین کارپوریٹ ٹیکس ریٹ ہے، پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس 29 فیصد ہے،جس میں 10 فیصد سپر ٹیکس، 2 فیصد ورکرز ویلفیئر فنڈ، 5 فیصد ورکرز پارٹیسپیشن فنڈ اور منافع پر 15 فیصد ٹیکس بھی شامل ہے،یہ ٹیکس بوجھ نہ صرف کاروبارکیلیے مہنگا ماحول پیداکرتا ہے، بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو بھی متبادل اور سازگار ممالک کی طرف راغب کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں دستخط شدہ کئی مفاہمتی یادداشتیں عملی شکل اختیارکرنے میں ناکام رہیں،کئی بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان سے کاروبار سمیٹ چکی ہیں،عالمی سطح پر مقابلہ بازی کااصول صرف نجی شعبے تک محدود نہیں بلکہ حکومتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
ہر حکومت کو سرمایہ کاری کیلیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے،جس میں کم ٹیکس اور واضح ضوابط بنیادی کردار اداکرتے ہیں۔
2000 کے بعد سے تمام OECD ممالک نے کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی کی ، OECD ممالک کااوسط کارپوریٹ ٹیکس ریٹ اس وقت 23 فیصد ہے،جہاں ہنگری میں یہ صرف 9 فیصد،جبکہ فرانس میں سب سے زیادہ 34 فیصدہے۔
کارپوریٹ ٹیکس ریٹ نہ صرف سرمایہ کاروں کی ترجیحات پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ یہ ملکی معیشت کو رفتار دینے، روزگار بڑھانے اور ٹیکس آمدنی میں اضافے کامؤثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر اپنے ٹیکس ڈھانچے میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے، اصلاحات نہ کی گئیں تو نہ صرف سرمایہ کاری میں مزیدکمی واقع ہوگی، بلکہ معیشت مزید دباؤکاشکار ہو سکتی ہے۔
ایسے میں حکومت کافرض بنتا ہے کہ وہ عالمی مقابلے کے اصولوں کوسمجھے اور "ایڈم اسمتھ" کے مشہور تصور "نظر نہ آنیوالا ہاتھ" کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازی کرے، تاکہ پاکستان بھی عالمی معیشت کا مؤثر حصہ بن سکے۔