وفاقی وصوبائی حکومتوں کی نا اہلی،عوام بجلی و پانی کے بحران،انفرا اسٹریکچر کے مسائل اور اسٹریٹ کرائم کا شکار ہیں،منعم ظفر خان
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈوکیٹ کے ہمراہ کراچی میں بد امنی،مسلح ڈکیتیوں کی بڑھتی وارداتوں میں شہریوں کی اموات اورعوام کے دیگر مسائل کے حوالے سے ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومتوں اور حکمران پارٹیوں کی نااہلی و ناقص کارکردگی کے باعث کراچی کے عوام لاقانونیت و بد امنی ، بجلی وپانی کے بحران ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں او ر انفرااسٹرکچر کی تباہ حالی سمیت بے شمار مسائل کا شکار ہیں ، 22 سال گزرنے کے باوجود کے فور منصوبہ مکمل نہ ہونا حکمرانوں کی نااہلی اور کراچی دشمنی کا کھلا ثبوت ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، ن لیگ اور پی ٹی آئی سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور اہل کراچی کے مسائل کی ذمہ دار ہیں ،جماعت اسلامی نے ریڈ لائن منصوبے پر ایکشن کمیٹی تشکیل اور کیمپ آفس بھی قائم کردیا گیا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ افسران سے رابطے میں ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ریڈ لائن منصوبے کے اطراف کے کاروباری افراد کو معاوضہ دیا جائے، ملحقہ سڑکوں کی فوری استر کاری، مناسب یوٹرن فراہم اور منصوبہ جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ وفاقی حکومت پچھلے 20 سال میں کے الیکٹرک کو 900 ارب روپے ادا کرچکی ہے، 20سال قبل کے الیکٹرک کی نجکاری اس معاہدے کے تحت کی گئی تھی کہ بجلی کی فراہمی بہتر بنائی جائے گی، مگر آج بھی شہری 18، 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ جھیلنے پر مجبور ہیں۔ بجلی چوروں کی سزا پوری آبادی کو دینا نیپرا کے قوانین اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔بجلی چوروں کو پکڑنا کے الیکٹرک کی ذمہ داری ہے، شہری تو بھاری بل دینے کے باوجود اندھیرے میں رہ رہے ہیں، کے الیکٹرک کی 50 ارب روپے کی بوگس بلنگ شہریوں پر ظلم ہے۔ رواں سال اسٹریٹ کرائم کی 47 ہزار سے زائد وارداتیں رپورٹ ہوئیں جن میں 34 ہزار موٹر سائیکل اور 13 ہزار موبائل چھیننے گئے ۔بہت سے متاثرہ شہری رپورٹ تک درج نہیں کراتے۔ شہر میں لاقانونیت اور اسٹریٹ کرائمز میں خطرناک اضافہ ہوچکا ہے۔عوام کی جان و مال کا تحفظ نہیں ،شارٹ ٹرم کڈنیپنگ میں خود پولیس اہلکار ملوث پائے گئے ہیں۔واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سمیت تمام بلدیاتی ادارے شہریوں کے لیے عذاب بن چکے ہیں۔ قابض میئر کا 60 دن میں اہم شاہراہوں کی استرکاری کا وعدہ بھی زبانی جمع خرچ ثابت ہوا ہے۔ جماعت اسلامی اہلِ کراچی کا مقدمہ ہر فورم پر لڑ رہی ہے ، کراچی کے عوام کو ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔جماعت اسلامی نیپرا اور سندھ ہائی کورٹ میں کے الیکٹرک کے خلاف بھی اہل کراچی کا مقدمہ لڑ رہی ہے، مگر عدالتوں میں کے الیکٹرک کے خلاف کیسز جان بوجھ کر تاخیر کا شکار بنائے جا رہے ہیں۔منعم ظفر خان نے مزیدکہاکہ جہانگیر روڈ، نئی کراچی 7000 فٹ روڈ اور ایم ایم عالم روڈ بدترین حالت میں ہیں، گاڑیاں الٹ رہی ہیں مگر سندھ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔کراچی کی آدھی سے زائد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں جبکہ حکمران طبقہ صرف وعدوں اور بیانات تک محدود ہے۔ تین روز قبل نارتھ ایسٹ پمپنگ اسٹیشن کی لائن پھٹنے سے صفورہ ٹاؤن، گلشن ٹاؤن، گلبرگ ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد اور لیاقت آباد کے وسیع علاقے پانی سے محروم ہوگئے ۔ حب کینال کے قیام کے باوجود ڈسٹرکٹ ویسٹ، کیماڑی، کورنگی، سائٹ اور نارتھ کراچی سمیت بیشتر علاقوں میں پانی کا بحران برقرار ہے۔انہوں نے کہاکہ کورنگی، آدم نگر، عمر کالونی، پی ای سی ایچ ایس، اورنگی ٹاؤن اور گلستانِ جوہر سمیت کئی علاقوں میں روزانہ طویل لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کو روزانہ 1200 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن شہر کو بمشکل 650 ملین گیلن یومیہ پانی میسر ہے، جس میں لائنوں کے پھٹنے اور رساؤ کے باعث مزید کمی آ جاتی ہے۔وفاق نے کے فور کے لیے 40ارب روپے کے بجائے صرف 3.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی کے الیکٹرک کا شکار رہے ہیں
پڑھیں:
بلوچستان شدید موسمیاتی چیلنجز کا شکار
--فائل فوٹوصوبہ بلوچستان شدید موسمیاتی چیلنجز کا شکار ہے۔ معمول سے کم بارشوں نے صوبے کے بیشتر اضلاع کو خشک سالی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے، آبی انتظام کے سنگین مسائل صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہے ہیں۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ڈویلپمنٹ ایشیا پلیٹ فارم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں قابلِ کاشت زمین سکڑ کر صرف 7.2 فیصد رہ گئی ہے۔
بلوچستان میں سیب، انگور، گندم، چاول سمیت 27 اجناس پیدا ہوتی تھیں، زرعی ماہرین کے مطابق پانی کی کمی کے باعث زرعی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔
ملک میں 62 فیصد تک معمول سےکم بارشیں ہوئیں، محکمہ...
بلوچستان میں کم بارشوں کے باعث زیرِ زمین پانی کی سطح ہر سال 3 سے 4 فٹ گر رہی ہے جس سے خشک سالی بڑھ رہی ہے اور دیہی علاقوں کی 75 فیصد آبادی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بلوچستان میں آبی قلت کے حل کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو قابلِ کاشت زمین مزید کم ہوجائے گی جس سے زرعی اجناس کی شدید قلت پیدا ہوسکتی ہے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق صوبے میں پانی کو محفوظ بنانے کے لیے آبی ذخائر میں اضافہ، وسائل کی بہتر مینجمنٹ اور مؤثر آبی انتظام ناگزیر ہو چکا ہے۔