امریکا میں آنے والے سمندری طوفان اور دل کی بیماریوں کے درمیان کیا تعلق ہے؟ تحقیق میں ہوشربا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ سمندری طوفان سینڈی سے متاثر ہونے والے بزرگ افراد میں دل کے امراض کا خطرہ طویل عرصے تک برقرار رہا۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ارناب گھوش نے بتایا کہ نیویارک میں طوفان کے دوران اسپتالوں میں بجلی بند ہونے اور علاج رک جانے سے مریضوں کی صحت بری طرح متاثر ہوئی، جس کے اثرات برسوں تک رہے۔
یہ بھی پڑھیے: سمندری طوفان ملٹن فلوریڈا سے ٹکرا گیا، 16 افراد ہلاک سیکڑوں زخمی
نتائج کے مطابق، نیو جرسی کے سیلاب زدہ علاقوں میں رہنے والوں میں دل کے دورے، فالج یا دل کی ناکامی کا خطرہ طوفان کے بعد 5 سال تک زیادہ رہا اور تقریباً ہر 20 میں سے 1 شخص متاثر ہوا۔
ڈاکٹر گھوش نے کہا کہ سیلاب، مالی نقصان اور رہائشی مشکلات جیسے دباؤ دل کی بیماریوں کو بڑھا سکتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ اسپتالوں اور حکام کو قدرتی آفات کے دوران مریضوں کی طویل المدتی صحت کو بھی ترجیح دینی چاہیے۔
ماہرین کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسم کے واقعات بڑھ رہے ہیں، لہٰذا آفات سے نمٹنے کے منصوبوں میں طویل المدتی صحت کے خطرات کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امراض دل سمندری طوفان طوفان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سمندری طوفان طوفان سمندری طوفان
پڑھیں:
لندن میں گزشتہ سال اربوں روپے مالیت کے 80 ہزار فون چوری ہونے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن میں گزشتہ سال موبائل فون چوری اور چھیننے کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جہاں 80 ہزار سے زائد فونز کا سراغ نہیں ملا، جن کی مالیت اربوں روپے بنتی ہے۔
میٹروپولیٹن پولیس کی تازہ تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ صرف مقامی سطح پر ہونے والی چھوٹی وارداتیں نہیں بلکہ ایک منظم بین الاقوامی نیٹ ورک کے تحت کیے جا رہے ہیں، جو چوری شدہ فونز کو ہانگ کانگ، چین اور الجزائر جیسی عالمی منڈیوں میں فروخت کرتا ہے۔
پولیس نے شمالی لندن میں حالیہ چھاپوں کے دوران تقریباً 2 ہزار چوری شدہ موبائل فونز اور 2 لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 7 کروڑ 49 لاکھ روپے) نقدی برآمد کی۔ یہ کارروائیاں اُن دکانداروں اور درمیانے درجے کے خریداروں کے خلاف کی گئیں جو اس نیٹ ورک کا حصہ تھے۔
یہ نیٹ ورک اُس وقت سامنے آیا جب ایک خاتون نے اپنے چوری شدہ آئی فون کی لوکیشن ٹریک کر کے ہیتھرو ایئرپورٹ کے قریب ایک گودام تک پولیس کی رہنمائی کی، جہاں سے ہانگ کانگ روانہ ہونے والے کنٹینرز میں 1000 سے زائد چوری شدہ آئی فونز برآمد ہوئے۔
سینئر ڈیٹیکٹو مارک گوئن کے مطابق یہ کسی اکا دکا چور کا کام نہیں بلکہ ایک صنعتی سطح پر منظم کاروبار ہے۔ چوری شدہ فونز بیرون ملک بعض اوقات 5000 ڈالر تک فروخت ہو سکتے ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ نیٹ ورک تین درجوں پر مشتمل ہے: نچلی سطح پر وہ چور جو ای بائیکس پر سوار ہو کر فون چھینتے ہیں، درمیانی سطح پر وہ لوگ جو ان فونز کو خرید کر آگے فروخت کرتے ہیں، اور اعلیٰ سطح پر وہ ایکسپورٹرز جو انہیں غیر ملکی منڈیوں میں بھیجتے ہیں۔
2023 میں 64 ہزار فونز چوری ہونے کی اطلاع ملی تھی، جب کہ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر 80 ہزار تک جا پہنچی۔ مارچ 2024 سے فروری 2025 کے دوران ایک لاکھ سے زائد چوری کے کیسز رپورٹ ہوئے، مگر صرف 495 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی—یعنی ہر 200 میں سے صرف ایک کیس میں قانونی کارروائی ممکن ہو سکی۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے پچھلے مہینے 40 ہزار پاؤنڈ کی نقدی اور 5 چوری شدہ فون برآمد کیے، جب کہ دسمبر سے اب تک مجموعی طور پر 4 ہزار آئی فونز برآمد کیے گئے ہیں، جو جنوب مغربی لندن کے پٹنی میں واقع اسٹور روم میں رکھے گئے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ جرم نہ صرف انتہائی منافع بخش ہے بلکہ اس میں خطرہ بھی نسبتاً کم ہے۔ ایک چور اوسطاً فی فون 300 پاؤنڈز کماتا ہے، جو کہ کم از کم اجرت سے تین گنا زیادہ ہے۔