پیپلزپارٹی کا حکومت کو تحفظات دور کرنے کیلیے ایک ماہ کا الٹی میٹم
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے ایک بار پھر سیلاب متاثرین کی مدد کیلیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو تحفظات دور کرنے کیلیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کونسل کا اجلاس ہوا جس میں چاروں صوبوں سے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں حکومت کے ساتھ اتحاد، پنجاب میں سیلاب متاثرین کی بحالی، افغانستان کی دراندازی سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ بلاول بھٹو نے شرکا کو وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات پر بریفنگ بھی دی جس پر سب نے اطمینان کا اظہار کیا۔
اجلاس کے بعد شرجیل میمن اور ندیم افضل چن کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنماء سینٹر شیریں رحمان نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے طے کیا ہے کہ ن لیگ کی وفاقی حکومت ایک ماہ میں پیپلز پارٹی کے تحفظات کو دور کرے ، اگر ہمارے مطالبات اور تحفظات حل نہیں ہوتے تو اس مدت کے بعد پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس دوبارہ منعقد ہوگا اور اس میں اہم سیاسی فیصلے کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاسی صورتحال کی بہتری کے لیے اہم سیاسی کردار ادا کرے گی جبکہ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہورہی ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ وفاقی حکومت سیلاب متاثرین کی فوری بحالی کے اقدام کرے ، گندم کی امدادی قیمت مقرر کی جائے۔ سیلاب متاثرین کی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فوری مدد کی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کی سی ای سی نے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی اور کہا ہے کہ مودی افغانستان کو اپنے عزائم کے لیے استعمال کررہا ہے ۔افغانستان ۔بھارت یا کوئی بھی ملک ہو یا خوارج اگر وہ ہماری فوج اور عوام پر حملہ کریں گے تو ان کو منہ توڑ جواب ملے گا۔
قائدین نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پوری قوم دہشت گردی کے خاتمے اور ملک دفاع کے لیے قربانیاں دینے پر مسلح افواج اور سیکورٹی اداروں کو خراج تحسین پیش کرتے اور مسلح افواج کے ساتھ ہیں۔
پی پی رہنماؤں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمان کی مضبوطی کے لیے پیپلز پارٹی اپنا کردار ادا کرتی رہے گی، پیپلز پارٹی تمام معاملات کو بات چیت سے حل کرے گی جبکہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف متنازع بیان بازی نہیں ہوگی تاہم پیپلزپارٹی عوام کے مسائل کے لیے آواز اٹھائے گی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ 18اکتوبر کا دن ہمارے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے، 18اکتوبر 2007 کو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، جس پر بزدلانہ حملہ کیا گیا، شہدا کا قرض ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی پر یہ سب سے بڑا حملہ تھا، انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں اس وقت سیکورٹی کا مسئلہ ہے سی ای سی نے یک زبان ہوکر دہشت گردی کی مذمت کی ہے ہم اپنی مسلح افواج کےساتھ شانہ بشانہ کھڑےہیں اورصدر زرداری شہدا کےلواحقین کےپاس ذاتی طور پر خود جاتے ہیں۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی اپنا بھرپور سیاسی کردار ادا کرنےکو تیار ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ سینٹرل کمیٹی نے سیلاب متاثرین کےلئے ریلیف کا مطالبہ بھی کیا اجلاس کو بتایا گیا کہ پارٹی نے متاثرین کو خود بھی ریلیف کا سامان پہنچایا ہے۔ اجلاس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متاثرین کو فوری امداد پہنچائی جائے
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت چیئرمین بلاول بھٹو کی تجاویز مانے اور بجلی بل معاف کرتے ہوئے کلائمٹ ایمرجنسی لگائی گئی۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ کاشت کار زرعی زمینوں لائیواسٹاک نقصان ہونے سے بہت پریشان ہیں، ہمیں امید ہے کہ انشااللہ وفاقی حکومت مان جائےگی کہ گندم کی امدادی قیمت ہو اور کسان کو یوریا ڈی اے پی ملے۔
انہوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ سندھ کے تجربے سے وفاقی حکومت استفادہ کرے، دنیا بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جانتی پہنچانتی ہے انہوں نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ سیاسی گولہ باری کے بجائےحکومت نظرثانی کرکے بی آئی ایس پی سے امداد دے۔
سینیٹر شیری رحمان نے بتایا کہ آج کے اجلاس میں ملکی حالات اور سیاسی معاملات کا بھی جائزہ لیاگیا ۔ اجلاس نے دفاع وطن کے حوالے سے کہا کہ ہماری افواج نے ہندوستان کو ہر سطح پر شکست دی اور پوری قوم اپنی افواج کے شانہ بشانہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ متاثرین ہمارے لیے ریڈ لائن ہیں، متاثرین کےلیے بات کرنےکا سب حق رکھتے ہیں اور غریب لوگوں کے لیے ریلیف کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اپنےتحفظات پر ن لیگ کےساتھ بات ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے بلاول بھٹو کو مدعو کیا تھا وزیراعظم کی یقین دہانیوں کے بارے میں سی ای سی کو بلاول بھٹو نےآگاہ کیا۔
سینیٹر شیری رحمان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کا ساتھ دیا ہےم ہم نےمراعات نہیں مانگیں بلکہ ہمیشہ اتفاق رائے پیدا کیا ہے، حکومت سازی کے وقت ہم سے جو وعدے کیےگئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے نا مکمل وعدوں پر ہم نے حکومت کو ایک ماہ کا وقت دیا ہے تاکہ وعدوں پر عمل ہو۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ حکومت سازی کے وقت بہت سی باتیں طے ہوئی تھیں، پنجاب میں بلدیاتی نظام قابل قبول نہیں وہاں بجلی مہنگی ہونے کے سبب ٹیکسٹائل صنعت بند ہورہی ہیں۔
اس موقع پر ندیم افضل چن نے کہا کہ آئی ایم ایف کا بہانہ بناکر گندم نہیں خریدی گئی.
انہوں نے کہا کہ ایک تہائی پاکستان زیر آب ہے، بی آئی ایس پی غربت مکاو کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھتے ہیں اور کسی کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا کا اظہار نہیں کیا۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ہم اپنےنظریے کے مطابق بات کرتے ہیں، مسائل و بحران میں ہی لوگوں کی صلاحیت استعداد جانچی جاتی ہے، ہم پارلیمان میں کورم برقرار رکھتے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی عہدوں کی دوڑ میں نہیں رہتی۔
شرجیل میمن نے کہا کہ نائب وزیراعظم چل کر نوابشاہ آئے روایات ہیں کہ کوئی چل کر آئے تو اس کی بات کو مان دیا جاتا ہے، دونوں جانب سے سیز فائر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی پر ہوا ہے تاہم لوگوں کی شکایتیں ہیں تو بات کریں گے کیونکہ ہم لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ انکم سپورٹ پروگرام سیلاب متاثرین کی انہوں نے کہا کہ کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت نے بتایا کہ بلاول بھٹو کا مطالبہ کرتے ہوئے پارٹی کی ایک ماہ کے لیے
پڑھیں:
ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی پاور شیئرنگ کمیٹی کا 8 ماہ سے اجلاس نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان پنجاب میں پاور شئیرنگ کے فارمولے پر سیاسی کشمکش شدت اختیار کرگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ن لیگ اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے، صہیب بھرتھ کا ندیم افضل چن کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ
دونوں جماعتوں کی جانب سے قائم کی گئی پاور شئیرنگ کمیٹی کی میٹنگز پچھلے 8 ماہ سے معطل ہیں حالانکہ ابتدائی معاہدے کے تحت ہر ماہ باقاعدہ اجلاس کا انعقاد طے ہوا تھا۔
پچھلے سال 10 دسمبر کو دونوں جماعتوں کی پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی تھی جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔
اس کے بعد کمیٹی کے 5 اجلاس ہو چکے ہیں جن میں نئی نہروں کی تعمیر، پولیس کی ضلعی سطح پر کوآرڈینیشن، افسران کی تقرریوں اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم جیسے اہم ایشوز زیر بحث آئے۔
آخری میٹنگ اپریل2025 میں ہوئی تھی جس میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری احمد رضا سرور بھی شریک تھے۔
مزید پڑھیے: وفاقی وزرا کی صدر زرداری سے اہم ملاقات، پیپلز پارٹی اور ن لیگ بیان بازی روکنے پر متفق
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکریٹری حسن مرتضیٰ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ن لیگ کے کمیٹی ممبران ہمارے مطالبات تسلیم کرتے ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز پنجاب میں پاور شئیرنگ فارمولے پر چلنے کو تیار نہیں دکھائی دیتیں۔
حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 8 ماہ سے کوئی اجلاس نہیں ہوا حالانکہ طے تھا کہ ماہانہ میٹنگز ہوں گی۔
حسن مرتضیٰ نے مزید بتایا کہ کمیٹی کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ بھی واضح نہیں کی جا رہی۔ پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کو دیا گیا ایڈیشنل سیکریٹری احمد رضا سرور کو ہٹا دیا گیا جبکہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایسی کارروائیاں اختلافات بڑھاتی ہیں، کم نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں سیلاب آیا تو پنجاب حکومت کی جانب سے پیپلزپارٹی کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔
کچھ عرصہ قبل پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بریف کیا گیا کہ پاور شئیرنگ کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
بلاول بھٹو نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت سے دوبارہ بات ہوگی۔
حسن مرتضیٰ نے بتایا کہ بلاول بھٹو، وزیر اعلیٰ مریم نواز کے رویے سے شدید نالاں ہیں۔
مزید پڑھیں: ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے
پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی، کچھ عرصہ پہلے وی نیوز کو بتایا تھا کہ تحریری معاہدے کے باوجود ن لیگ خصوصاً ملتان اور رحیم یار خان جیسے اضلاع میں منتقلیوں اور پوسٹنگز پر پیچھے ہٹ رہی ہے۔
پاور شئیرنگ فارمولا پر عمل ہونے پر ن لیگ کا موقف کیا ہے؟مسلم لیگ ن کی قیادت نے پی پی پی کے مطالبات کو ‘غیر معقول اور غیر عملی’ قرار دیا ہے۔ ن لیگ کے ایک سینیئر رہنما نے کہا کہ ہم اتحاد کی پاسداری کر رہے ہیں لیکن پنجاب کی انتظامیہ کو کمزور کرنے والے مطالبات قبول نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کچھ روز قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پی پی پی ہماری اتحادی ہے لیکن ان کی بعض مطالبات صوبے کی مجموعی ترقی کے منافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سنہ 2024 میں ایک معاہدہ کیا تھا جس میں ترقیاتی فنڈز کی 30 فیصد شیئرنگ، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی سرچ کمیٹی میں نمائندگی اور ضلعی ڈویلپمنٹ کمیٹیوں میں شمولیت شامل تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس پر عمل جاری ہے پیپلزپارٹی کے ساتھ جو معاملات طے گئے تھے ان پر عمل ہورہا ہے۔
عظمیٰ بخاری نے مزید کہا تھا کہ مریم نواز کی حکومت پنجاب کی عوام کی خدمت پر فوکس کر رہی ہے نہ کہ سیاسی دباؤ پر۔
مزید پڑھیں: سیاسی کشیدگی: مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل حل کرنے پر اتفاق
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ن لیگ کی طرف سے اس طرح پاور شئیرنگ فارمولے کے معاملات میں فقدان رہا تو آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے سیاسی اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب میں پاور شیئرنگ پی پی اور پنجاب پیپلز پارٹی ن لیگ ن لیگ اور پی پی اختلافات ن لیگ اور پی پی پاور شیئرنگ