’انہیں بھگتنا پڑے گا‘، روسی تیل خریدنے پر ٹرمپ کی بھارت کو پھر وارننگ
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ روسی تیل کی خریداری جاری رکھتا ہے تو اس پر بھاری محصولات عائد کیے جائیں گے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں ذاتی طور پر یقین دلایا تھا کہ بھارت روسی تیل کی خریداری بند کر دے گا، مگر اگر بھارت ایسا نہیں کرتا تو اسے ”وسیع“ ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایئر فورس ون میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ”مودی نے مجھے کہا تھا کہ ’ہم روسی تیل نہیں خریدیں گے‘، لیکن اگر بھارت نے تیل خریدنا جاری رکھا تو انہیں بڑے ٹیرف ادا کرنے ہوں گے۔“
جب بھارتی حکومت نے اس گفتگو کی تردید کی، تو ٹرمپ نے مزید کہا، ”اگر بھارت یہ کہنا چاہتا ہے تو پھر انہیں بھاری ٹیرف ادا کرنے ہوں گے، اور وہ ایسا نہیں چاہیں گے۔“
یہ بیان ٹرمپ کی جانب سے اوول آفس میں کی گئی ایک غیر متوقع گفتگو کے بعد آیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مودی نے انہیں یقین دلایا تھا کہ بھارت روس سے تیل کی خریداری بند کر دے گا۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ بھارت کی تیل کی ضروریات کا ایک تہائی حصہ روس سے آتا ہے، اور یہ خریداری روس کو یوکرین کی جنگ کے لیے مالی امداد فراہم کر رہی ہے۔
امریکہ نے روس کے ساتھ توانائی کے تعلقات برقرار رکھنے والے ممالک پر دباؤ بڑھایا ہے، اور کہا ہے کہ روس سے تیل خریدنا پوتن کی فوجی کارروائیوں کے لیے مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔
دوسری جانب، بھارت کی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات چیت کا کوئی علم نہیں ہے۔ وزارت کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ بھارت اور امریکا کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون جاری ہے، تاہم انہوں نے ٹرمپ کے بیان کی تصدیق نہیں کی۔
ٹرمپ کی دھمکی ایسے وقت میں آئی ہے جب بھارت امریکی ٹیرف کا سامنا کر رہا ہے، جنہیں اس سال کے شروع میں بڑھا کر 50 فیصد تک کر دیا گیا تھا، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور ادویات جیسے اہم شعبوں پر۔ ٹرمپ نے کہا کہ ان ٹیرف کا نفاذ جاری رہے گا یا انہیں مزید بڑھایا جائے گا، اگر بھارت روسی خام تیل کی خریداری جاری رکھتا ہے۔
روس نے حالیہ برسوں میں بھارت کا سب سے بڑا تیل فراہم کنندہ بن چکا ہے، اور بھارت کی توانائی کی ضروریات کا ایک تہائی حصہ روس سے آ رہا ہے۔ بھارت نے اس خریداری کو توانائی کی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا ہے، خاص طور پر جب روسی تیل سستے داموں فروخت ہو رہا ہے۔
بھارت نے بار بار کہا ہے کہ روس سے تیل خریدنا اس کی قومی مفاد میں ہے، نہ کہ کسی سیاسی وابستگی کے تحت، اور بھارت دنیا بھر سے تیل خریداری جاری رکھے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تیل کی خریداری اگر بھارت کہ بھارت روسی تیل رہا ہے کہا کہ تھا کہ سے تیل نے کہا
پڑھیں:
مودی اور ٹرمپ کی گلے ملنے کی حکمتِ عملی سرد خانے میں ہے، جے رام رمیش
امریکی دعووں کے برعکس مودی حکومت مسلسل یہ واضح کرتی رہی ہے کہ بھارت اپنے دو طرفہ تنازعات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرانے سے متعلق امریکی دعووں نے سیاسی منظرنامے میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر جئے رام رمیش نے وزیراعظم نریندر مودی پر سخت طنز کرتے ہوئے کہا کہ اب حیرت نہیں کہ مودی اور ٹرمپ ہگلومیسی یعنی گلے لگنے کی حکمت عملی سرد خانے میں ہے۔ ان کا یہ ردعمل امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے تازہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی عالمی تنازعات حل کرائے، جن میں بھارت اور پاکستان جیسا "بہت خطرناک" تنازع بھی شامل ہے۔
مارکو روبیو نے وائٹ ہاؤس میں کابینہ اجلاس کے دوران کہا کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو بنیادی طور پر تبدیل کیا ہے اور وہ متعدد پیچیدہ تنازعات کے خاتمے کے محرک رہے ہیں۔ ان کے مطابق "اگر کوئی قدم امریکہ کو مضبوط بناتا ہے تو ٹرمپ اس کے حامی ہوتے ہیں، ورنہ وہ اس کے خلاف رہتے ہیں"۔ مارکو روبیو نے خاص طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان مبینہ امن کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی تعریف کی۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری برائے مواصلات جے رام رمیش نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ 10 مئی 2025ء کو شام 5:37 بجے روبیو وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپریشن سِندور کی اچانک بندش کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سے صدر ٹرمپ کم از کم 61 بار 6 مختلف ممالک میں یہ دعویٰ دہرا چکے ہیں کہ ان ہی کی مداخلت کے باعث "آپریشن سندور" رکا تھا۔ جے رام رمیش نے مزید کہا کہ روبیو کا تازہ بیان اس امر کی دوبارہ توثیق ہے کہ صدر ٹرمپ ایک ہی دعوے کو بار بار پوری دنیا میں دہراتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ مودی اور ٹرمپ ہگلومیسی اب سرد خانے میں پڑی ہے۔ خیال رہے کہ صدر ٹرمپ کئی مواقع پر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 8 سے 9 ماہ کے اندر بھارت و پاکستان سمیت کم از کم 8 بین الاقوامی تنازعات حل کروائے۔ ان میں تھائی لینڈ - کمبوڈیا، آرمینیا - آذربائیجان، اسرائیل - ایران اور دیگر تنازعات شامل بتائے جاتے ہیں، وہ خود کو اسرائیل حماس تنازع کے خاتمے کا بھی کریڈٹ دیتے ہیں۔
امریکی دعووں کے برعکس، مودی حکومت مسلسل یہ واضح کرتی رہی ہے کہ بھارت اپنے دو طرفہ تنازعات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ 7 مئی کو ہندوستان نے پہلگام حملے کے جواب میں آپریشن سندور شروع کیا تھا، جس کا ہدف پاکستان میں دہشتگرد ڈھانچے تھے۔ چار دن کی شدید کارروائی کے بعد دونوں ممالک نے 10 مئی کو فائر بندی پر اتفاق کیا۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ امریکی بیانات ہندوستان کی خودمختاری اور دو طرفہ پالیسی کے اصولوں سے متصادم ہیں اور حکومت کو اس پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیئے۔