data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251020-08-26
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی حکومت نے گندم پالیسی 2025-26 کی منظوری دے دی۔ ا علامیے کے مطابق نئی گندم پالیسی کے تحت کسانوں کو مناسب قیمت دی جائے گی، حکومت مستحکم ذخائر اور کسانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اسٹریٹجک اسٹاک خریدے گی۔ اجلاس کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تقریباً 6.

2 ملین ٹن کے اسٹریٹجک ذخائر حاصل کریں گی، خریداری 3500 روپے فی من، گندم کی بین الاقوامی درآمدی قیمت کے مطابق کی جائے گی، یہ اقدام مارکیٹ کی مسابقت کو برقرار رکھتے ہوئے کسانوں کو منصفانہ قیمت و منافع کو یقینی بنائے گا، گندم کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی نہیں ہوگی۔ بریفنگ کے مطابق وفاقی وزیر گندم کی نگرانی کی ایک قومی کمیٹی کی صدارت کریں گے، کمیٹی میں تمام صوبوں کے نمائندے شامل ہوں گے، کمیٹی پالیسی اقدامات پر عمل درآمد اور ہم آہنگی کی نگرانی کرے گی اور کمیٹی ہفتہ وار اجلاس کرے گی اور براہ راست وزیراعظم کو رپورٹ کرے گی۔ بریفنگ میں کہا گیا ہے کہ کسانوں کو گندم کی مناسب قیمت دی جائے گی، حکومت مستحکم ذخائر اور کسانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کافی اسٹاک خریدے گی۔ اس حوالے سے وزیراعظم کا کہناتھاکہ پاکستان ایک زرعی معیشت اور گندم کی فصل کلیدی اہمیت کی حامل ہے، گندم پاکستان کے لوگوں کی بنیادی خوراک ہے اور ملک کے کسانوں کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے، کسانوں کی فلاح و بہتری کے لے ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں، کسان پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھاکہ گندم پالیسی کے لیے تمام صوبائی حکومتوں، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی، کسان تنظیموں، صنعتکاروں اور کاشتکار برادری کے ساتھ بھی تفصیلی مشاورت کی گئی اور مشاورت کی بنیاد پرحکومت قومی گندم پالیسی 2025-26 کا اعلان کر رہی ہے۔ پالیسی کا مقصد عوامی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کسانوں کے منافع کو یقینی بنانا ہے، اتفاق رائے پرمبنی پالیسی تیار کرنے میں صوبائی حکومتوں کے تعاون کو سراہتے ہیں، یہ پالیسی زرعی ترقی کو فروغ دے گی، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، پالیسی پاکستانی عوام کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

سیف اللہ

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: گندم پالیسی کسانوں کے کسانوں کو کو یقینی گندم کی کرے گی کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کے بڑے ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ G2G ماڈل پر غیر یقینی کے سائے۔ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ؟

پاکستان کے 3 بڑے ایئرپورٹس ’اسلام آباد، لاہور اور کراچی‘ کی آؤٹ سورسنگ پچھلے 2 سال سے حکومت کی پالیسیوں کا مرکزی موضوع بنی ہوئی ہے۔

لیکن ابو ظہبی انویسٹمنٹ گروپ کی مسلسل خاموشی نے پورا منصوبہ ایک بار پھر غیر یقینی کی گہری دھند میں دھکیل دیا ہے۔ یہ وہی منصوبہ ہے جسے حکومت نے بارہا ’گیم چینجر‘ قرار دیا، مگر اب عملی حقیقت یہ ہے کہ نہ تو سرمایہ کار سے جواب آ رہا ہے، نہ حکومت کے پاس کوئی متبادل حکمتِ عملی موجود ہے۔

 ابو ظہبی انویسٹمنٹ گروپ کی خاموشی اصل خطرے کی گھنٹی:

رپورٹ کے مطابق، پاکستانی حکام کی متعدد سرکاری ای میلز اور خطوط کے باوجود ابو ظہبی انویسٹمنٹ گروپ کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

یہ خاموشی صرف ’عدم دلچسپی‘ نہیں، بلکہ ایک واضح پیغام ہے کہ یا تو گروپ اب پہلے کی طرح پُرجوش نہیں، یا وہ پاکستان کے معاشی، قانونی اور انتظامی خطرات کو دیکھ کر پیچھے ہٹ رہا ہے۔

یہ صورت حال G2G معاہدے کی بنیادیں متزلزل کرتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب پورا عمل ’ایک ہی پارٹی‘ کی دلچسپی پر کھڑا کیا گیا تھا، جو کہ خود ایک سنگین پالیسی غلطی تھی۔

حکومت کی جلدبازی اور 3 بڑے ایئرپورٹس کو ایک ہی ٹوکری میں ڈالنے کی غلطی

پوری حکومتی مشینری نے گزشتہ سال سے اس منصوبے کو ایک ’سیاسی کامیابی‘ کے طور پر بیچا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے پاکستان کے ایئرپورٹس مالی اور انتظامی طور پر مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔

ملک کا مستقبل صرف بیرونی آپریٹر کے ہاتھوں میں دینے میں ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کے ایئرپورٹس گزشتہ 10 سال میں نہ صرف اپنی لاگت پوری کر رہے ہیں، بلکہ کارگو، لینڈنگ فیس، گراؤنڈ ہینڈلنگ اور لیزنگ سے خاطر خواہ آمدنی بھی پیدا کر رہے ہیں۔

Emirates گروپ سے متعلق خدشات؛ کیا یہ بھی پیچھے ہٹ جائیں گے؟

ذرائع کے مطابق اگر ابو ظہبی گروپ نے رسمی طور پر ’عدم دلچسپی‘ ظاہر کر دی تو پورا G2G ڈھانچہ بیٹھ جائے گا۔ کیونکہ عمل مکمل طور پر ’خلیجی تعاون‘ کے تصور پر بنایا گیا تھا، نہ کہ اوپن مارکیٹ کمپیٹیشن یا عالمی سرمایہ کاروں کی شمولیت پر۔

اسی لیے اب یہ خدشہ حقیقی شکل اختیار کر رہا ہے کہEmirates  گروپ بھی پاکستان کے ساتھ معاہدے میں وہ دلچسپی برقرار نہ رکھ سکے،

کیونکہ معاشی استحکام، پالیسی تسلسل اور قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی کسی بھی عالمی آپریٹر کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ پاکستان نے خود کو ہائی رسک زون کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

اس صورت حال میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر ابو ظہبی گروپ پیچھے ہٹتا ہے تو Emirates سمیت باقی ادارے بھی ’ڈیفالٹ انٹرسٹ‘ پر چلے جائیں گے۔ سوال ھے کہ کیا یہ سب ایک پالیسی فیلئر ہے؟ جواب ہاں میں ہی ہو سکتا ہے۔

پاکستان کی پالیسی؛ سازوں نے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے 3 بڑے ایئرپورٹس کو ایک ہی ماڈلایک ہی مدت ایک ہی سرمایہ کارایک ہی G2G سیاسی دباؤ کے تحت آگے بڑھایا، جو کہ بنیادی طور پر ناقص منصوبہ بندی تھی۔ دنیا میں ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ ایسے نہیں ہوتی۔ ترکی نے علامیاتی مقابلہ کھلا رکھا۔

سعودی عرب نے مرحلہ وار نجکاری کی

سنگاپور اور قطر نے ریجنل ماڈل اپنایا بھارت نے ملٹی انویسٹر ماڈلز استعمال کیے، مگر کسی ملک نے 3 بڑے اسٹریٹیجک ایئرپورٹس ایک ہی پارٹی یا ایک ہی ملک کے حوالے نہیں کیے۔ پاکستان نے سیاسی جلد بازی میں ایک ایسا منصوبہ بنا لیا جو معروضی حقائق کے خلاف تھا۔

CCOP کی میٹنگ، داخل بے دروازہ، خارج بے دروازہ:

28  نومبر کو ہونے والی CCOP میٹنگ میں جب  مبینہ طور پر سرکاری حکام نے بتایا کہ سرمایہ کار جواب ہی نہیں دے رہا، تو سارا کمرہ خاموش ہو گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے حکومت کے بیانیے سے پردہ اٹھا دیا۔

ایوی ایشن کے ایک افسر نے نام نہ بنانے کی شرط پر بتایا کہ  دراصل ان کے پاس کوئی باضابطہ پلان بی موجود نہیں، کوئی دوسرا سرمایہ کار موجود نہیں، نہ ہی ان 3 ایئرپورٹس کے لیے علیحدہ کاروباری ماڈلز تیار کیے گئے۔ ہم جو پلان دیتے ہیں، وہ ردی میں چلا جاتا ھے۔ یہ وہی غلطی ہے جسے ھم  گزشتہ 2 سال سے بار ہا نشاندہی کرتے آرہے ہیں کہ ’تکنیکی اسٹڈیز کے بغیر صرف سیاسی خواہشات پر ایئرپورٹس نہیں چل سکتے‘۔

اوت سورسنگ پراسس سے منسلک ایک افسر  کہتے ہیں کہ  یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے ایئرپورٹس فروخت نہیں کیے جا رہے مگر سوال یہ ہے کہ  کیا انہیں غلط ہاتھوں میں دے دیا جائے گا؟ حکومت بار بار یقین دہانی کراتی رہی کہ ایئرپورٹس صرف ’آپریشنز‘ میں دیے جا رہے ہیں، نہ کہ آؤٹ رائٹ فروخت لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر سرمایہ کار ہی دلچسپی نہیں رکھتا اگر قانونی ماڈل ہی واضح نہیں اگر رِسک اینالیسز موجود ہی نہیں۔

اگر مالی سچویشن بے یقینی کا شکار ہے تو پھر کس بنیاد پر ایئرپورٹس کو ایک بیرونی ادارے کے حوالے کیا جا رہا ہے؟

ایوی ایشن سیکیورٹی، اصل نکتہ جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے:

دنیا کے کسی ملک میں دفاعی اہمیت کے حامل ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ ایک پیچیدہ عمل ہے۔

پاکستان کے ایئرپورٹس:

 VIPموومنٹ  فوج آپریشنز، حساس کارگواسٹریٹیجک اور  سفارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک غیر ملکی آپریٹر کے حوالے کرنا کسی بھی ملک کے لیے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اگر معاہدہ شفاف نہ ہو تو یہ فیصلہ قومی سلامتی پر بھی سوال اٹھا سکتا ہے۔

حل کیا ہے؟ حقیقت پسندانہ روڈ میپ: تینوں ایئرپورٹس کے لیے علیحدہ بزنس ماڈل بنایا جائے

ہر ایئرپورٹ کی مختلف ضروریات اور امکانات ہیں

G2G سے باہر نکل کر اوپن انٹرنیشنل ٹینڈرنگ کی جائے یہ دنیا کا آزمودہ، شفاف اور کامیاب طریقہ ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت ضروری ہے۔ ایئرپورٹ آپریشنز صرف ایک وزارت کا کام نہیں CAA، ASF، FIA، کسٹمز، ائرفورس سب اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ Emirates یا کسی ایک گروپ پر انحصار ترک کیا جائے۔ متبادل سرمایہ کاروں کو شامل کرنا ضروری ہے۔ قومی ایوی ایشن پالیسی 2025 کی فوری ازسرنو تدوین غیر واضح قوانین کسی بھی سرمایہ کار کو دور بھگا دیتے ہیں۔

اب جبکہ ابو ظہبی انویسٹمنٹ گروپ کا جواب نہ آنا (اگر سچ ھے تو ) ایک سنگین جھٹکا ثابت ہو رہا ہے، حکومت کے پاس 2 راستے ہیں یا تو ملک کے 3 بڑے اور حساس ایئرپورٹس کو ’سیاسی جلد بازی‘ میں ایک غیر فعال G2G معاہدے کے تحت آگے بڑھایا جائے یا پھر ایک منظم، شفاف اور بین الاقوامی معیار کے مطابق نئی حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔

راقم اپنے 28 سالہ ایوی ایشن کے تجربے کے ساتھ اور بڑی زمہ داری سے کہتا ہے، اوٹ سورسنگ کا عمل ایک بہترین عمل ہے اگر اس میں شفافیت لائی جا اے بصورت دیگر سول ایوی ایشن اتھارٹی (PAA اور  REGULATORY دونوں) کی موجودہ ٹیم کو مکمل فری ھیند دے دیا جائے تو ایئرپورٹس سونا اگلیں گے۔

اس سلسلے مین صرف ادارے کے اندر تبدیلی (reshuffling ) لائ جائے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایئرپورٹس منیجرز کو حکومت پاکستان کے جاری کردہ نوٹیفکیشن اور قانون کے مطابق کام کرنے دئیا جائے، اور اس قانون کے مطابق سابقہ طریقہ کار کے تحت تمام ایجنسیوں کو ایئرپورٹس مینیجر ز کو ہوابدی بنایا جائے بصورت دیگر اگر یہ معاملہ اسی طرح سیاسی دباؤ اور جلد بازی کے تحت چلایا گیا تو پاکستان نہ صرف 3 قیمتی سونا اگلنے والے ایئرپورٹس کھو دے گا, بلکہ بین الاقوامی سرمائے کا اعتماد بھی ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

سینئر قانون دان کالم نگار اور فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلی پنجاب نے امام مسجد اعزازیہ کارڈ کی منظوری دیدی،یکم جنوری سے ادائیگی کا حکم
  • پارلیمنٹ سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بل کی منظوری تاریخی قدم
  • عمران خان وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے مکمل خوش ہیں,محمود خان اچکزئی کو تحریک کا قائد اور احکامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کاکہاہے،بہن عظمیٰ خان
  • مدھیہ پردیش اسمبلی میں کسانوں کی مشکلات پر کانگریس کا احتجاج
  • پاکستان کے بڑے ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ G2G ماڈل پر غیر یقینی کے سائے۔ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ؟
  • سوچ بدلنی ہوگی، حکومت کا کام نوکریاں دینا نہیں،و وفاقی  زیر خزانہ
  • پیوٹن نے چینی شہریوں کو روس میں 30 روز تک ویزا فری انٹری کی منظوری دیدی
  • کراچی میں رینجرز کی تعیناتی میں مزید ایک سال کی توسیع، سندھ کابینہ نے منظوری دیدی
  • آئندہ سیزن گندم کا سرکاری ریٹ 3500 روپے من مقرر کیئے جانے کا امکان
  • سندھ کابینہ نے کراچی میں رینجرز کی تعیناتی مزید ایک سال کیلئے بڑھانے کی منظوری دیدی