امریکی جریدےفارن پالیسی نے پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ذخائر نہ صرف اعلیٰ عالمی معیار کے ہیں بلکہ وسیع رقبے پر بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل تقریباً دو لاکھ تیس ہزار مربع میل پر محیط ہیں، جو کہ برطانیہ کے رقبے سے دوگنا بڑا علاقہ بنتا ہے۔
جریدے نے واضح کیا ہے کہ اگر پاکستان ان قیمتی قدرتی وسائل سے مؤثر انداز میں فائدہ اٹھائے اور اس شعبے میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دے، تو نہ صرف ملکی معیشت کو بڑا سہارا مل سکتا ہے بلکہ سماجی ترقی کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے معدنی وسائل کے بہتر استعمال کے لیے قومی معدنی پالیسی 2025 تیار کر لی ہے، جس کے تحت سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے گا اور اس کے ثمرات نہ صرف ملک بھر بلکہ خاص طور پربلوچستان کے عوام تک پہنچیں گے۔
فارن پالیسی کے مطابق معدنی شعبے میں بہتری سے پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے، انفراسٹرکچر ترقی کرے گا اور مقامی آبادی کو معاشی طور پر مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
یہ اعتراف عالمی سطح پر پاکستان کی معدنی اہمیت اور ممکنہ سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کی جانب ایک مثبت اشارہ ہے۔ کیا آپ اس پر مزید تفصیلات یا کسی مخصوص علاقے کے ذخائر کے بارے میں جاننا چاہیں گے؟

 

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سرمایہ کاری

پڑھیں:

معاندانہ امریکی پالیسی کیخلاف ایرانی سپریم لیڈر کے اصولی موقف کی عالمی سطح پر پذیرائی

غیر ایرانی سائبر صارفین نے رہبر انقلاب اسلامی کے گذشتہ روز کے اس بیان کیساتھ مکمل اتفاق کیا ہے کہ امریکہ کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے اسلام ٹائمز۔ عالمی سائبر صارفین کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایران سمیت دنیا بھر کے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ایرانی خبررساں ایجنسی فارس نیوز کے مطابق اس حوالے سے اپنے دلچسپ تبصروں میں عالمی صارفین نے امریکہ کی جانب سے جوہری بموں کے بے دریغ استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے، پرامن ایرانی جوہری پروگرام میں مداخلت سے متعلق اس کی "اہلیت" پر سوال اٹھایا ہے۔
  گذشتہ روز گولڈ میڈلسٹ ایرانی نوجوانوں کے ساتھ ملاقات کے دوران رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ تم کون ہوتے ہو کہ اگر کسی ملک کے پاس جوہری صنعت ہو تو تم اس کے لئے "کیا کرنا چاہیئے" اور "کیا نہیں کرنا چاہیئے" کا تعین کرو؟ 
اس بارے اپنے تبصروں میں عالمی صارفین کا لکھنا ہے: صفر قانونی حیثیت، درحقیقت

امریکہ کو خود امریکی نہیں چلاتے خودمختار ممالک (کے اندرونی معاملات) میں امریکی مداخلت؛ امریکی عوام کے وسائل کو تباہ کر ڈالنا ہے اور یہی وجہ ہے آج امریکہ تیسری دنیا کا ملک (بن چکا) ہے۔ دھوکہ و فریب پر مبنی دعووں اور عناوین تحت برائی، اخلاقی پستی اور انسانی فطرت سے دشمنی کے کلچر کو فروغ دینے اور پھیلانے کے لئے انہیں غنڈہ گردی اور دھوکہ دہی کے سوا، کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں! وائلڈ ویسٹ (جنگلی مغرب) کے قانون کے علاوہ کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی اخلاقی برتری، یہ بات یقینی ہے  وہ درست سوال اٹھا رہے ہیں، امریکہ کو اپنی حرکتوں کا خیال رکھنا چاہیئے ماضی کو دیکھو، حال کو دیکھو، مستقبل کو دیکھو۔ امریکہ اور اسرائیل کی تاریخ کیا ہے؟ تباہ کن قتل و غارت کی جنگیں اور فرقہ وارانہ و مذہبی تنازعات کے لئے انتہا پسند گروہوں کی حمایت۔ کیا اس تاریخ کے حامل ممالک کو دوسروں کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے؟ وہ مکمل طور پر درست کہتے ہیں، امریکی صیہونیوں؛ نازی فاشسٹوں کی تاریک دنیا کے لیڈر، آزاد دنیا کے ممالک کے بارے کبھی فیصلہ نہیں کریں گے۔ امریکہ وہ واحد ملک ہے کہ جس نے کبھی انسانوں کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کئے ہیں۔

امریکی سیاستدانوں نے جاپان میں معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔

ہیروشیما اور ناگاساکی میں

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے معدنی ذخائر اعلی عالمی معیار کے ہیں جو 2لاکھ مربع میل سے زائد پر پھیلے ہیں، امریکی جریدے کا اعتراف
  • پاکستان کے معدنی ذخائر اعلیٰ عالمی معیار کے ہیں جو  2 لاکھ 30 ہزار مربع میل پر محیط ہیں، امریکی جریدے کا اعتراف
  • پاکستان کے معدنی ذخائر دنیا کے بہترین معیار کے قرار، امریکی جریدے کی رپورٹ
  • پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت، امریکی جریدے فارن پالیسی کا اعتراف
  • معاندانہ امریکی پالیسی کیخلاف ایرانی سپریم لیڈر کے اصولی موقف کی عالمی سطح پر پذیرائی
  • ٹیرف اور قرضے دنیا کے بیشتر ممالک کی ترقی میں رکاوٹ، ریبیکا گرینسپین
  • سی پیک کی پائیدار ترقی کے حصول میں ڈیٹا ریسورسز کا اہم کردار
  • پاکستان عالمی اعتماد بحال کرنے میں کامیاب، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک مذاکرات مثبت رہے، وزیر خزانہ
  • بین الاقوامی سرمایہ کاری اور سی پیک؛ ترقی یا قرض کا جال؟