پاکستان کے معدنی ذخائر عالمی معیار کے، سرمایہ کاری سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی: امریکی جریدہ فارن پالیسی
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
امریکی جریدےفارن پالیسی نے پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ذخائر نہ صرف اعلیٰ عالمی معیار کے ہیں بلکہ وسیع رقبے پر بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل تقریباً دو لاکھ تیس ہزار مربع میل پر محیط ہیں، جو کہ برطانیہ کے رقبے سے دوگنا بڑا علاقہ بنتا ہے۔
جریدے نے واضح کیا ہے کہ اگر پاکستان ان قیمتی قدرتی وسائل سے مؤثر انداز میں فائدہ اٹھائے اور اس شعبے میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دے، تو نہ صرف ملکی معیشت کو بڑا سہارا مل سکتا ہے بلکہ سماجی ترقی کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے معدنی وسائل کے بہتر استعمال کے لیے قومی معدنی پالیسی 2025 تیار کر لی ہے، جس کے تحت سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے گا اور اس کے ثمرات نہ صرف ملک بھر بلکہ خاص طور پربلوچستان کے عوام تک پہنچیں گے۔
فارن پالیسی کے مطابق معدنی شعبے میں بہتری سے پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے، انفراسٹرکچر ترقی کرے گا اور مقامی آبادی کو معاشی طور پر مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
یہ اعتراف عالمی سطح پر پاکستان کی معدنی اہمیت اور ممکنہ سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کی جانب ایک مثبت اشارہ ہے۔ کیا آپ اس پر مزید تفصیلات یا کسی مخصوص علاقے کے ذخائر کے بارے میں جاننا چاہیں گے؟
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سرمایہ کاری
پڑھیں:
’’ایئر انڈیا طیارہ دانستہ طور پر گرایا گیا‘‘ ٹیلیگراف رپورٹ میں بڑے انکشافات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عالمی جریدے دی ٹیلی گراف نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایئر انڈیا طیارہ دانستہ طور پر گرایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ایئر انڈیا کے احمد آباد فلائٹ حادثے سے متعلق پیدا ہونے والے اہم سوالات آج بھی میڈیا میں زیرگردش ہیں بلکہ نئی رپورٹوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
12 جون 2025 کے اس حادثے میں 260 جانیں ضائع ہوئیں، تاہم شواہد تک رسائی نہ دینے اور بین الاقوامی تفتیش کاروں کے ساتھ عدم تعاون کے الزامات نے اس سانحے کو ایک غیر معمولی اور غیر ذمہ دارانہ واقعے میں تبدیل کر دیا ہے۔
امریکی تحقیقاتی ٹیموں اور سابق سی آئی اے اہلکاروں نے پہلی مرتبہ تفصیل سے بتایا ہے کہ بھارت نے نہ صرف بلیک باکس کے مکمل ڈیٹا تک رسائی روک کر تفتیش کو محدود کیا بلکہ حادثے کے مقام سے ضروری مواد اکٹھا کرنے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
سابق سی آئی اے اہلکار اور امریکی صحافی سارہ ایڈمز نے اس معاملے پر انتہائی سنجیدہ خدشات کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکی ماہرین کی ابتدائی تحقیقات میں یہ اشارے ضرور ملے کہ پائلٹ کی ممکنہ غلطی حادثے کا سبب بن سکتی تھی، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت نے وہ تمام ڈیٹا فراہم کرنے سے گریز کیا جو اس تحقیق کی توثیق یا تردید کے لیے ضروری تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر حادثہ محض انسانی غلطی کا نتیجہ تھا تو بھارت کو شواہد چھپانے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے تھی۔ بلیک باکس ڈیٹا کو روکنے سے یہ شبہ گہرا ہو جاتا ہے کہ کہیں معاملہ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ تو نہیں۔
امریکی جریدے دی ٹیلی گراف نے اپنی نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ کئی ایرو اسپیس ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ طیارے کی تباہی میں ممکنہ طور پر انسانی مداخلت شامل تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلیک باکس ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ انجن کے فیول سپلائی سسٹم کو اندر بیٹھے کسی شخص نے خود بند کیا، جو کسی تکنیکی خرابی کے بجائے ایک دانستہ اقدام کی طرف اشارہ ہے۔
مزید یہ کہ امریکی تفتیش کاروں کو حادثے کے ملبے کی تصاویر لینے سے روکنا، اہم حصوں کا قبل از وقت غائب ہو جانا اور کاک پٹ وائس ریکارڈر تک رسائی نہ دینا معاملے کو مزید پراسرار بناتا ہے۔
دی ٹیلی گراف ہی نہیں، وال اسٹریٹ جرنل نے بھی اپنی رپورٹ میں یہی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ سانحہ محض اتفاقی یا پائلٹ کی غلطی کا نتیجہ نہیں بلکہ ممکنہ طور پر جان بوجھ کر کروایا گیا ہو سکتا ہے۔ دونوں اداروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کے موجودہ عدالتی اور تفتیشی نظام پر بین الاقوامی سطح پر پہلے ہی شکوک موجود ہیں اور شفافیت کی یہ کمی حادثے کے اصل اسباب تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔
امریکی ماہرین نے سفارش کی ہے کہ جب تک بھارت مکمل شفافیت اختیار نہیں کرتا، اس سانحے کی آزاد اور غیر جانبدار بین الاقوامی سطح پر تفتیش ضروری ہے۔ 260 افراد کی ہلاکت صرف ایک فضائی حادثہ نہیں بلکہ وہ المیہ ہے جس کی تہہ تک پہنچنے کے بغیر نہ متاثرہ خاندان مطمئن ہوں گے اور نہ ہی عالمی فضائی سیکورٹی کے اصول مکمل ہو سکیں گے۔