پاک افغان تجارتی گزرگاہیں جلدکھلنےکا امکان، افغانستان میں پھنسے ٹرک واپس لوٹنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بند کے بعد 10 روز سے بند تجارتی گزرگاہیں جلد کھلنےکا امکان ہے۔چمن میں پاک افغان بارڈر باب دوستی تجارتی سرگرمیوں کےلیے بند ہے تاہم اسپین بولدک میں پھنسی 500 سے زائد خالی پاکستانی گاڑیوں کی واپسی ہو چکی ہے۔کسٹمز حکام کے مطابق آج سے صرف افغان باشندوں کو افغانستان لے جانے خالی پاکستانی گاڑیوں کو واپسی کی اجازت ہوگی، بندش سے دونوں طرف ویزا پاسپورٹ ٹریولنگ کرنے والوں کی بڑی تعداد پھنسی ہوئی ہے۔پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم 2000 سے زائد افغان باشندوں کو افغانستان منتقل کردیا گیا ہے۔دوسری جانب طورخم میں بھی تجارتی گزرگاہ کھولنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی، گاڑیوں کی کلیئرنس کے لیے اسکینر نصب کیے جاچکے ہیں۔ تجارتی گزرگاہ بند ہونےسے کارگو گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔جنوبی وزیرستان میں انگور اڈہ، شمالی وزیرستان میں غلام خان اور ضلع کرم میں خرلاچی سرحد بھی 10 روز سے بند ہے۔ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ بارڈر کی بندش سے 5 ہزار سے زیادہ پاکستانی افغانستان میں پھنسے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
پاک افغان کشیدگی سے پاکستانی کینو کے برآمدکنندگان بری طرح متاثر
کراچی:
پاک افغان کشیدگی، سرحدوں کی بندش سے افغانستان میں پھنسے ہوئے پاکستانی ٹرک ڈرائیورز پرتشدد حملوں کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر جنید ماکڈا نے ایکسپریس کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال سے پاکستانی کینو کے برآمد کنندگان، ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک آپریٹرز بری طرح متاثر ہیں۔ بہت سے لوگوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے جن کے ہاتھ میں نقدی نہیں ہے اور ان کے پاس تمام وسائل ختم ہوچکے ہیں۔
اسی نوعیت کا انسانی بحران پاکستان میں بھی برقرار ہے جہاں سیکڑوں ڈرائیور بغیر خوراک، پناہ گاہ یا ضروری امداد کے سرحدی مقامات پر محصور ہوچکے ہیں۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر نے کینو کی برآمدی بحران کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ وزارت تجارت کے طلب کردہ حالیہ اجلاس کے بعد، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ایران کے زمینی راستے سے ایران اور وسط ایشیاکے ممالک کو برآمدات کے لیے فنانشل انسٹرومنٹ کی ضرورت سے استثنیٰ دینے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے جس کے نتیجے میں کینو کے برآمد کنندگان اب کسی قابل عمل ادائیگی کے طریقہ کار کے بغیر رہ گئے ہیں۔