پختونخوا کے حساس اضلاع میں خدمات انجام دینے والے جوڈیشل افسران کو مراعات دینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
اس حوالے سے پشاور ہائیکورٹ نے مراسلہ جاری کر دیا جس میں حساس اضلاع میں خدمات سر انجام دینے والے جوڈیشل افسران کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے حساس اضلاع میں خدمات انجام دینے والے جوڈیشل افسران کو مراعات دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پشاور ہائیکورٹ نے مراسلہ جاری کر دیا جس میں حساس اضلاع میں خدمات سر انجام دینے والے جوڈیشل افسران کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مراسلے میں بتایا گیا کہ 15 جولائی 2025 کو ہائیکورٹ کے انتظامی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں حساس اضلاع میں ڈیوٹیاں سر انجام دینے والے جوڈیشل افسران کی حوصلہ کی منظوری ہوئی۔ ٹانک، جنوبی وزیرستان، کرم اور تحصیل میران شاہ میں جوڈیشل افسران کو سہولیات دینے کا فیصلہ ہوا۔ حساس اضلاع میں خدمات انجام دینے والے جوڈیشل افسران کو سہولیات کے ساتھ سرکاری رہائش فراہم کی جائے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حساس اضلاع میں خدمات جوڈیشل افسران کو
پڑھیں:
چونکا دینے والے انکشافات
اسلام ٹائمز: گذشتہ چند دہائیوں کے برعکس، جب مزاحمتی مجاہدین کی آزادی کی پکار کو خوفناک صہیونی جیلوں میں دبا دیا گیا، آج ہم دنیا بھر خاص طور پر مغربی دنیا میں تل ابیب کے جبر کیخلاف ایک بین الاقوامی بغاوت کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جسکی وجہ نوجوان نسل میں فکری بیداری کی لہر ہے۔ یورپ اور امریکہ میں سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مارچ کیے، بائیکاٹ کی اپیل کی اور صہیونی سفارتخانوں کے سامنے ریلیاں نکالیں۔ ان کارکنوں کا بنیادی مطالبہ من مانی گرفتاریوں اور تشدد کا خاتمہ اور زیر حراست افراد کو انصاف کی ضمانت دینا ہے۔ اس رجحان کے مطابق، انسانی حقوق کے کارکنوں اور فلسطینی اور بین الاقوامی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اپنے بیانات میں منظم تشدد، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور دوران حراست شہادتوں کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور صیہونی حکام کیخلاف آزادانہ تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا ہے۔ تحریر: علی احمدی
گذشتہ دو برس کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے حراستی مراکز کی بند دیواروں کے پیچھے ایک روایت تشکیل پا چکی ہے، جسے اقوام متحدہ نے "منظم تشدد کی باقاعدہ پالیسی" کا نام دیا ہے۔ ایک ایسا نام جس نے نہ صرف رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ ایک بار پھر صہیونی جرائم کے مختلف پہلووں کو انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکہ داروں کے سامنے سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹارچر کی روک تھام کمیٹی کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینیوں پر جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ محض اتفاقی خلاف ورزیاں نہیں ہیں بلکہ شدید مار پیٹ اور کتوں سے حملے لے کر بجلی کے جھٹکوں، مصنوعی ڈبونے اور جنسی تشدد تک بار بار کی جانے والی اذیتوں کا ایک سلسلہ ہے، جسے کمیٹی کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے حقوق سے انکار کے ایک گہرے اور پریشان کن نمونے کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔
چونکا دینے والے واقعات
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، دس آزاد ماہرین کی ایک کمیٹی نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے اس "جنگجووں کے قانون" کے وسیع استعمال کے بارے میں خبردار کیا ہے، جس کے تحت ہزاروں فلسطینیوں کو طویل عرصے تک بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ستمبر کے آخر تک 3 ہزار 474 فلسطینیوں کو بغیر کسی الزام یا فرد جرم کے اور محض سکیورٹی مفروضوں کی بنیاد پر پولیس کی حراست میں رکھا گیا تھا۔ یہ مبہم قانونی ڈھانچہ معمول کا ایسا حصہ بن چکا ہے، جس نے عملی طور پر نامحدود حد تک حراستوں کی راہ ہموار کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی دو سالہ رپورٹ میں بڑی تعداد میں ایسے بچوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، جنہیں صیہونی سکیورٹی فورسز نے بغیر کسی الزام کے گرفتار کر رکھا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ حقیقت بھی فاش کی گئی ہے کہ جن بچوں کو حراست میں رکھا گیا ہے، انہیں نہ صرف اہلخانہ سے رابطے پر سخت پابندیوں کا سامنا ہے بلکہ انہیں قید تنہائی میں بھی رکھا جاتا ہے اور بین الاقوامی معیار کے تحت تعلیم کے حق سے بھی محروم کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل بچوں کی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے اپنے ملکی قوانین میں ترمیم کرے۔ تشدد کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کی یہ کمیٹی، جو تشدد کی روک تھام کے لیے 1984ء کے کنونشن پر عملدرآمد کی نگرانی بھی کرتی ہے، نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں غاصب صیہونی رژیم کی روزمرہ کی سرگرمیاں اجتماعی طور پر تشدد کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ محض قانونی وارننگ ہی نہیں بلکہ اس حقیقت کی علامت بھی ہے کہ اب دنیا غاصب صیہونی رژیم کے غیر انسانی رویوں کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔
قید میں شہادت
غزہ جنگ بندی پر عملدرآمد کے دوسرے مرحلے میں تعطل پیدا ہو جانے کے بعد اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ نے ایک اور چونکا دینے والی حقیقت کا انکشاف کیا ہے: 75 فلسطینی شہریوں کی صیہونی جیلوں میں دوران حراست شہادت۔ یہ تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ ہے، جبکہ اب تک کسی اسرائیلی عہدیدار کو ان اموات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ ان شہادتوں کے بارے میں خاموشی اور بے عملی نے اسرائیلی جیلوں میں نگرانی کے عمل، جیل حکام کی جوابدہی اور شفافیت پر بھاری سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ دوسری طرف صیہونی کابینہ نے تشدد کے استعمال کی مسلسل تردید کی ہے اور وزارت خارجہ، وزارت انصاف اور جیل انتظامیہ کے نمائندوں نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کے اجلاسوں میں دعویٰ کیا ہے کہ جیلوں کے حالات مناسب ہیں اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے، لیکن یہ دعوے خاندانوں، قیدیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے پیش کردہ شواہد کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ تفتیش کے عمل کے بارے میں شکایات سننے کے ذمہ دار محتسب نے بڑی تعداد میں شکایات موصول ہونے کے باوجود گذشتہ دو برس کے دوران کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی۔ سرکاری دعووں اور زمینی حقائق کے درمیان یہ واضح تضاد اسرائیل کے احتسابی نظام میں گہرے خلاء کو اجاگر کرتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے اسی عرصے کے دوران تشدد یا ناروا سلوک کے لیے اسرائیلی فورسز کے خلاف صرف ایک سزا درج کی ہے۔ ایک فوجی کو گذشتہ فروری میں غزہ کے قیدیوں کو اپنے مکوں، لاٹھیوں اور رائفل کے بٹوں سے بار بار مارنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، کمیٹی اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس کی سات ماہ قید کی سزا جرم کی شدت کی عکاسی نہیں کرتی اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسے معاملات میں بھی جہاں خلاف ورزیاں ثابت ہوں، سزائیں کافی حد تک مناسب نہیں ہیں۔
عالمی بیداری
گذشتہ چند دہائیوں کے برعکس، جب مزاحمتی مجاہدین کی آزادی کی پکار کو خوفناک صہیونی جیلوں میں دبا دیا گیا، آج ہم دنیا بھر خاص طور پر مغربی دنیا میں تل ابیب کے جبر کے خلاف ایک بین الاقوامی بغاوت کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ نوجوان نسل میں فکری بیداری کی لہر ہے۔ یورپ اور امریکہ میں سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مارچ کیے، بائیکاٹ کی اپیل کی اور صہیونی سفارت خانوں کے سامنے ریلیاں نکالیں۔ ان کارکنوں کا بنیادی مطالبہ من مانی گرفتاریوں اور تشدد کا خاتمہ اور زیر حراست افراد کو انصاف کی ضمانت دینا ہے۔ اس رجحان کے مطابق، انسانی حقوق کے کارکنوں اور فلسطینی اور بین الاقوامی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اپنے بیانات میں منظم تشدد، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور دوران حراست شہادتوں کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور صیہونی حکام کے خلاف آزادانہ تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا ہے۔