اسرائیل نے مغربی کنارا ضم کیا تو امریکی حمایت کھو بیٹھے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کی کوشش کی تو اسے امریکا کی اہم ترین حمایت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل پر پابندیاں عائد کی جائیں، دنیا بھر کی 450 سے زائد یہودی شخصیات کی اپیل
یہ بات انہوں نے ٹائم میگزین میں جمعرات کو شائع ہونے والے انٹرویو کہی۔ مذکورہ انٹرویو رسالے کو 15 اکتوبر کو بذریعہ ٹیلی فون دیا گیا تھا جو آج شائع ہوا۔
صدر ٹرمپ کے اس بیان کے ساتھ ہی امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اسرائیل کو کسی بھی قسم کے انضمام سے باز رہنے کی سخت تنبیہ کی۔
’ایسا نہیں ہونے دوں گا کیوں کہ عرب ممالک سے وعدہ کیا ہے‘صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ نہیں ہوگا کیونکہ میں نے عرب ممالک سے وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم ایسا نہیں کر سکتے ہمیں عربوں کی بڑی حمایت حاصل رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل نے یہ قدم اٹھایا تو اسے امریکا کی تمام حمایت کھو دینی پڑے گی۔
مزید پڑھیے: اسرائیلی پارلیمنٹ نے مقبوضہ مغربی کنارے پر خودمختاری کے بل کی ابتدائی منظوری دے دی
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں جلد فیصلہ کریں گے کہ آیا فلسطینی رہنما مروان برغوثی کو امن اقدامات کے تحت رہا کیا جائے یا نہیں۔
فتح تحریک سے وابستہ مروان برغوثی ان قیدیوں میں شامل تھے جن کی رہائی کا مطالبہ حماس نے غزہ کے معاہدے کے دوران کیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں کئی اعلیٰ حکام کو اسرائیل بھیجا تاکہ اس غزہ سیزفائر (جنگ بندی) کو مستحکم کیا جا سکے جو ٹرمپ نے اسی ماہ کے آغاز میں کرایا تھا۔
بل بے وقوفانہ سیاسی حربہ ہے، نائب صدر جے ڈی وینستاہم وینس کے 3 روزہ دورے کے اختتام اور روبیو کی آمد کے موقع پر اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) نے 2 بل ابتدائی منظوری کے لیے پیش کیے جو مغربی کنارے کے انضمام کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کی مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری کے مجوزہ قانون کی مذمت
وینس نے ان بلز کو انتہائی بے وقوفانہ سیاسی حربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اس کے وقت اور مقصد پر ذاتی طور پر توہین محسوس ہوئی۔
مارکو روبیو نے بھی روانگی سے قبل خبردار کیا کہ یہ اقدامات غزہ کی جنگ بندی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
امریکی قیادت کی تنبیہوزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ پارلیمانی ووٹنگ فی الحال وہ چیز نہیں جس کی ہم حمایت کر سکتے ہیں اور یہ عمل جنگ بندی اور وسیع امن عمل کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
نائب صدر جے ڈی وینس نے اپنے اسرائیل کے دورے کے اختتام پر واضح کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی یہ ہے کہ مغربی کنارہ اسرائیل کا حصہ نہیں بنے گا۔
اسرائیلی پارلیمنٹ نے بدھ کے روز ابتدائی طور پر 2 مسودے منظور کیے۔ ایک جس کے تحت اسرائیلی قانون کو معالیہ ادومیم پر لاگو کیا جائے گا اور دوسرا جس میں مغربی کنارے کے مزید حصوں پر اسرائیلی قانون کے نفاذ کی تجویز دی گئی۔
یہ بھی پڑھیے: عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں انسانی بحران کا ذمہ دار قرار دے دیا
یہ بل معمولی اکثریت سے منظور ہوئے تاہم انہیں حتمی منظوری سے قبل مزید کمیٹی جائزے اور 3 ریڈنگز سے گزرنا ہوگا۔
غزہ کی جنگ بندی کو خطرہمارکو روبیو نے کہا کہ اسرائیلی انضمامی اقدامات امریکی غزہ امن منصوبے کے اگلے مرحلے کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں جس کے تحت ایک عارضی غزہ انتظامیہ اسرائیلی فوج کا انخلا اور بین الاقوامی امن فورس کی تعیناتی شامل ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگر مغربی کنارے میں کشیدگی بڑھی تو عرب اور مسلم ممالک کی وہ حمایت ختم ہو سکتی ہے جس کی غزہ میں استحکام کے لیے اشد ضرورت ہے۔
پاکستان و سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک کا ردعملسعودی عرب، اردن، پاکستان، انڈونیشیا، ترکیہ، مصر، قطر، ملائیشیا، اور تنظیم تعاون اسلامی سمیت کئی اسلامی ممالک نے اسرائیلی کنیسٹ کے ان بلز کی سخت مذمت کی ہے جو مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق ان ممالک نے اسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 کی صریح خلاف ورزی قرار دیا جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں اور انضمامی اقدامات کی مذمت کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی اسرائیلی پارلیمان کے متنازع بل اور فلسطینی خودمختاری کمزور کرنے کی شدید مذمت
فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ کنیسٹ کے ان اقدامات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے اور مغربی کنارے اور غزہ کو ایک غیر منقسم جغرافیائی اکائی قرار دیا جس پر اسرائیل کا کوئی حق خودمختاری نہیں۔
اردن نے بھی ان بلز کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کا بیانپاکستان کی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ اسرائیل کے یہ اشتعال انگیز اور غیر قانونی اقدامات امن اور استحکام کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرے۔
پاکستان نے اپنے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور سنہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھے گا جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہوگا۔
تشدد میں اضافہ اور انسانی بحرانیہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تشدد بڑھ رہا ہے اور غزہ میں اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں تباہی کی نئی لہریں پیدا ہو چکی ہیں۔
غزہ کے صحت حکام کے مطابق اب تک 68،300 سے زائد افراد اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار بحران کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر مغربی کنارے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوا تو یہ انسانی المیے کو بڑھا دے گا اور غزہ کی بحالی کے منصوبوں کو مزید پیچیدہ کر دے گا۔
مزید پڑھیے: صیہونی افواج کے ہاتھوں ماری جانے والی 10 سالہ راشا کی وصیت پر من و عن عمل کیوں نہ ہوسکا؟
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کے وزرا نے حالیہ دنوں میں امریکا کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کی ہیں تاکہ جنگ بندی اور امن منصوبے پر عملدرآمد جاری رہ سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ کی اسرائیل کو دھمکی غزہ فلسطین مغربی کنارا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ کی اسرائیل کو دھمکی فلسطین مارکو روبیو نے پر اسرائیلی پر اسرائیل نے کہا کہ کرنے کی کا کہنا اور ان کے لیے کہ اگر
پڑھیں:
پیدائشی شہریت غلاموں کے بچوں کیلئے تھی، امیروں کیلئے نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم کی شہریت کی شِق اُس تاریخی دور سے جڑی ہے، جب خانۂ جنگی کے بعد سابق غلاموں کو مکمل قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس قانون کا مقصد امیر غیر ملکیوں کے لیے شہریت کا راستہ کھولنا کبھی نہیں تھا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا میں پیدائش کی بنیاد پر شہریت کا مسئلہ ایک بار پھر سیاسی اور قانونی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ گفتگو میں مؤقف اپنایا ہے کہ یہ آئینی حق بنیادی طور پر غلامی کے خاتمے کے بعد سابق غلاموں کے بچوں کے لیے تھا، نہ کہ اُن افراد کے لیے جو محض امریکا میں بچے کی پیدائش کے ذریعے اپنے خاندان کو شہریت دلوانا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ موجودہ حالات میں امریکا لاکھوں ایسے افراد کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رکھتا، جنہیں وہ "برّتھ رائٹ سٹیزن شپ" کے ذریعے یہاں کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم کی شہریت کی شِق اُس تاریخی دور سے جڑی ہے، جب خانۂ جنگی کے بعد سابق غلاموں کو مکمل قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس قانون کا مقصد امیر غیر ملکیوں کے لیے شہریت کا راستہ کھولنا کبھی نہیں تھا۔
واضح رہے کہ جنوری 2025ء میں جاری کیے گئے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے امریکی حکومت نے ایسے بچوں کی شہریت کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جو غیر قانونی طور پر امریکا میں موجود یا مختصر مدت کے لیے وزٹ پر آئے والدین سے امریکا میں پیدا ہوں۔ یہ پالیسی ماضی پر لاگو نہیں ہوتی، اس اقدام کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا اور مختلف وفاقی عدالتوں نے اس کے نفاذ پر عارضی پابندیاں عائد کیں۔ بعد ازاں امریکی عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے کو باضابطہ سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے، جس کا فیصلہ آئندہ سال متوقع ہے۔