آزاد کشمیر میں حکومت سازی: وزیراعظم نے احسن اقبال کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے معاملے میں وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزیر احسن اقبال کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
ذرائع کے مطابق، صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت بنانے میں تعاون کی درخواست کی۔ اس پر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ پیپلز پارٹی کی حمایت یا عدم حمایت کے معاملے کو احسن اقبال کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کے ذریعے دیکھا جائے۔
کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ وہ پیپلز پارٹی کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کرے اور ممکنہ حکومتی اتحاد کے حوالے سے سفارشات پیش کرے۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ وہ آزاد کشمیر میں اپوزیشن میں رہے گی۔ اس کے باوجود، اگر مسلم لیگ ن تعاون نہ کرے تو پیپلز پارٹی 20 فارورڈ بلاک کے اراکین سے رابطہ کر کے حکومت بنانے کی کوشش کرے گی۔
یہ سلسلہ آزاد کشمیر میں سیاسی توازن اور اتحادی حکمت عملی کے حوالے سے اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کا آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کا اعلان، نیا وزیراعظم کون ہوگا؟
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا، نئے قائد ایوان کے نام کا اعلان منگل تک متوقع ہے۔
ذرائع کے مطابق 27 اکتوبر کو کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف ریاست بھر میں یوم سیاہ منایا جاتا ہے، اس لیے فوری طور پر نئے وزیراعظم کے نام کا اعلان نہیں کیا گیا اور تحریک عدم اعتماد بھی یوم سیاہ کے بعد پیش کی جائےگی۔
ایوان صدر میں شریک چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) صدر مملکت آصف علی زرداری کی زیرصدارت اجلاس میں تحریک عدم اعتماد لانے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔
ہمارے پاس نمبر پورے ہیں، چوہدری یاسیناجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری یاسین نے کہاکہ آزاد کشمیر میں ہم اپنی حکومت بنانے جار ہے ہیں، جس کے لیے نمبر پورے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے استعفیٰ نہ دیا تو ہم تحریک عدم اعتماد پیش کردیں گے۔
آزاد کشمیر میں نئے وزیراعظم کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کے 4 اہم رہنماؤں کے درمیان سخت مقابلہ ہے، جن میں صدر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) چوہدری یاسین، اسپیکر آزاد کشمیر اسمبلی چوہدری لطیف اکبر، سینیئر نائب صدر پیپلز پارٹی سردار یعقوب اور سیکریٹری جنرل راجا فیصل ممتاز راٹھور شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق موجودہ اسپیکر چوہدری لطیف اکبر نئے وزیراعظم کے لیے فیورٹ ہیں تاہم کچھ ارکان نے مرکزی قیادت کو تجویز دی ہے کہ چونکہ چوہدری یاسین پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر ہیں اس لیے انہیں قائد ایوان نامزد کیا جائے۔
چوہدری لطیف اکبر کا شمار پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنان میں ہوتا ہے جو بھٹو ازم کے فروغ میں ہمیشہ پیش پیش رہے، وہ مظفرآباد کے حلقہ پانچ کھاوڑہ سے ممبر اسمبلی ہیں۔
نئے وزیراعظم کے نام کا حتمی فیصلہ صدر مملکت آصف علی زرداری کریں گے، جس کے بعد چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اعلان کیا جائےگا۔
’اسمبلی کی ایک مدت کے دوران چوتھا وزیراعظم‘2021 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی میں 3 وزیراعظم آ چکے ہیں، اب انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں چوتھا وزیراعظم کرسی پر براجمان ہوگا۔
چوہدری انوارالحق سے قبل پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کو عدالت نے نااہل کردیا تھا، جبکہ اس سے پہلے سردار قیوم نیازی کو اپنی پارٹی نے وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا تھا۔
تنویر الیاس کی نااہلی کے بعد جب نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے شیڈول جاری کیا گیا تو چوہدری انوارالحق کے مدمقابل کسی نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے تھے۔ تاہم رولز کے مطابق جب ایوان میں ووٹنگ کرائی گئی تو 48 ارکان نے ان کی حمایت میں ووٹ کاسٹ کیا۔ جن میں پاکستان تحریک انصاف فارورڈ بلاک کے 29، پیپلزپارٹی کے 12 اور ن لیگ کے 7 ارکان شامل تھے۔
چوہدری انوارالحق ایل اے 7 بھمبر سے رکن اسمبلی منتخب ہوئےچوہدری انوارالحق 2021 میں ہونے والے آزادکشمیر کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایل اے 7 بھمبر سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے سابق سینیئر وزیر و مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما چوہدری طارق فاروق کو شکست دی تھی۔
واضح رہے کہ 2006 کے بعد بننے والی اسمبلی میں بھی 5 سال کے دوران 4 وزیراعظم آئے تھے۔ محلاتی سازشوں میں آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کا کوئی ثانی نہیں، ہر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے خفیہ میٹنگز ہمیشہ جاری رہتی ہیں۔
2011 اور 2016 کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومتوں نے آئینی مدت پوری کی۔ اس دوران بھی عدم اعتماد کی کوششیں ہوئیں جو کامیاب نہ ہو سکیں۔ 2011 کی اسمبلی میں اس وقت کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی لیکن سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے اپنی پارٹی کو اس عمل سے الگ رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے اسے ناکام بنا دیا تھا۔
2006 کے انتخابات کے بعد مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے سردار عتیق نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو کچھ ہی عرصے بعد جماعت میں فارورڈ بلاک بن گیا اور سردار عتیق سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پارٹی صدارت چھوڑیں یا وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوں، مگر انہوں نے دونوں مطالبات مسترد کر دیے، یوں فارورڈ بلاک نے سردار یعقوب کو قائد ایوان نامزد کرتے ہوئے سردار عتیق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔
یوں 6 جنوری 2009 کو سردار عتیق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور سردار یعقوب وزارت عظمیٰ کی کرسی براجمان ہوگئے۔
سردار یعقوب کا اقتدار بھی چند ماہ ہی چل سکا اور پھر اچانک اکتوبر 2009 میں مسلم کانفرنس کے ایک گروپ کی جانب سے ان کے خلاف تحریک عدم پیش کردی گئی اور یہ الزام عائد کیا گیا سردار یعقوب پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر راجا فاروق حیدر کو قائد ایوان نامزد کیا گیا تھا جو تحریک کی کامیابی کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہوگئے۔
پھر جولائی 2010 میں عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل سردار عتیق ایک بار پھر وارد ہوئے اور راجا فاروق حیدر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اقتدار پر براجمان ہو گئے۔
راجا فاروق حیدر کے خلاف تحریک اعتماد پیش کرکے ان کی حکومت ختم کرنا سردارعتیق کے لیے سیاسی طور پر بہت مہنگا ثابت ہوا۔ کیونکہ اسی تنازع کی بنیاد پر راجا فاروق حیدر اور ہمنواؤں نے مل کر آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن کے قیام کے لیے نواز شریف کو راضی کرلیا اور آزادکشمیر میں ایک نئی جماعت کا اضافہ ہوگیا، یوں مسلم کانفرنس کے تمام سینیئر رہنما ن لیگ میں چلے گئے اور ریاستی جماعت سکڑنا شروع ہوگئی، جو اب ایک سیٹ تک محدود ہے۔
’آزاد کشمیر کا ایوان 53 ارکان پر مشتمل، عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 27 ارکان کی حمایت ضروری‘آزاد کشمیر کا ایوان 53 ارکان پر مشتمل ہے، اور حکومت بنانے کے لیے 27 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
اس وقت ایوان میں پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 17 ہے، جبکہ بیرسٹر سلطان گروپ کے ارکان بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کریں گے۔
آزاد کشمیر اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 17 ہے، جبکہ مسلم لیگ ن کے 9 ارکان اسمبلی ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے کچھ روز قبل حکومت سے علیحدہ ہونے اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا اعلان کیا تھا، تاہم ابھی تک اس اعلان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
اگر مسلم لیگ ن نئے قائد ایوان کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتی تو ایسی صورت میں فارورڈ بلاک کے ارکان کی حمایت حاصل کی جائےگی، جس کے لیے جوڑ توڑ شروع ہو گیا ہے۔
بیرسٹر سلطان نے 2015 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 2021 کے انتخابات کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے تاہم عمران خان نے انہیں صدر ریاست بنا دیا، لیکن اس فیصلے سے وہ نالاں تھے۔
بعد ازاں آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کا گروپ بھی فارورڈ بلاک کا حصہ بن گیا تھا۔ وہ خود صدر ریاست کے عہدے پر موجود ہیں، جبکہ ان کا بیٹا یاسر سلطان ان کی نشست پر ہی منتخب ہونے کے بعد اس وقت اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔
موجودہ وزیراعظم چوہدری انوارالحق مقتدرہ کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے مضبوط سمجھے جا رہے تھے، لیکن جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریکوں کے دوران ریاست میں افراتفری پیدا ہونے کی وجہ سے ان کی پوزیشن کمزور ہو گئی، انہوں نے جہاں بہت سے اچھے اقدامات کیے وہیں ان کے دور میں ریاست کی رٹ کمزور ہوئی۔
’ایکشن کمیٹی کی تحریکوں نے وزیراعظم انوارالحق کو کمزور کیا‘2024 اور پھر حال ہی میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے دوران حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے وفاق کو مداخلت کرنا پڑی، اور ایکشن کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ریاست میں نظام زندگی بحال کیا گیا۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے دو اہم مطالبات جن میں آزاد کشمیر اسمبلی میں مہاجرین کی نشستوں کا خاتمہ اور اشرافیہ کی مراعات میں کمی کا مطالبہ شامل ہے، ان پر کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ تاہم پاکستان کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے واضح کیا ہے کہ ایکشن کمیٹی کو مہاجرین کی نشستیں ختم کرنے کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی کیوں کہ یہ کشمیر کاز سے جڑا معاملہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آزاد کشمیر آصف زرداری بلاول بھٹو تحریک عدم اعتماد حکومت بنانے کا اعلان صدر مملکت نیا قائد ایوان وی نیوز