Express News:
2025-12-12@06:44:31 GMT

’’ لوور‘‘ میں چوری اور سامراجی لوٹ مار

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

یہ سب کچھ اُس وقت میرے ذہن میں ابھرا جب میں نے خبر سنی کہ پیرس کے مشہور عالم میوزیم ’’لوور‘‘ سے چند قیمتی نوادرات چوری ہوگئے ہیں۔ خبر مختصر تھی مگر اس کے پیچھے صدیوں کی ایک پوری تاریخ جاگ اٹھی، وہ تاریخ جس میں طاقتور قومیں کمزور اقوام پر چڑھ دوڑتی ہیں، ان کے خزانے لوٹتی ہیں، ان کے فن، تہذیب، تاریخ اور خواب چرا لیتی ہیں۔ لوور سے چوری ہونے والے چند جواہرات دراصل اس بات کی علامت ہیں کہ لوٹ مارکی وہ صدی پرانی روایت اب بھی ختم نہیں ہوئی، صرف اس کے انداز بدل گئے ہیں۔

دنیا کے بڑے میوزیم برٹش میوزیم لندن، لوور پیرس، برلن میوزیم یا نیویارک میٹروپولیٹن سب دراصل لٹی ہوئی دنیا کے مقبرے ہیں۔ ان دیواروں پر تاریخ کے وہ زخم ہیں جو سامراجی طاقتوں نے اپنے مفاد کی خاطر انسانیت کو دیے۔ ان کے شو کیسوں میں جو چیزیں سجی ہیں، وہ صرف نوادرات نہیں بلکہ غلامی کی کہانیاں ہیں۔ان جواہرات کے پتھر ان زیورات کی چمک، ان کے نقوش میں وہ سسکیاں چھپی ہیں جو صدیوں پہلے محکوم قوموں کی تھیں۔

فرانس کی مثال ہی لے لیجیے، لوور میوزیم کو آج انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ثقافتی خزانہ کہا جاتا ہے، مگر یہ خزانہ کیسے جمع ہوا؟ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو اس کے ساتھ توپیں اور بندوقیں ہی نہیں، ماہرینِ آثارِ قدیمہ بھی تھے۔ وہ مصر کے قریب سے مجسّمے تابوت فرعونوں کے زیورات اور لکھی ہوئی تختیاں فرانس بھیجتے رہے۔ ان سب کو نپولین نے اپنی فتح کا حصہ سمجھا۔ یوں جس سرزمین پر یہ آثار ہزاروں برس تک مقامی لوگوں کی روحوں سے جڑے تھے، وہاں سے انھیں اکھاڑ کر پیرس کے شوکیسوں میں سجا دیا گیا۔ آج یہ سب فرانسیسی ورثہ کہلاتا ہے لیکن دراصل یہ چوری کی گئی تاریخ ہے۔

برطانیہ کا کردار تو اور بھی طویل اور بدنما ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جب ہندوستان میں داخل ہوئی تو وہ صرف تجارت کے بہانے آئی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس نے ایک پوری تہذیب کو اپنی بندوق کے نیچے لے لیا۔ ہندوستان کے محلوں، مندروں اور درباروں سے وہ جواہرات لوٹے گئے جن میں کوہِ نور بھی شامل تھا، جو آج تک ملکہ کے تاج کی زینت ہے۔ ٹیپو سلطان کی تلوار مغل درباروں کی چاندی کی تختیاں بنارس کے مندروں کے مجسمے سب کچھ برطانوی بحری جہازوں میں بھر کر لندن لے جایا گیا۔ آج برٹش میوزیم کی ہر الماری ہندوستان چین، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے لٹے ہوئے ورثے سے بھری ہے۔

افریقہ کی داستان تو اور بھی اندوہناک ہے۔ فرانس، برطانیہ، پرتگال اور بلجیئم نے صدیوں تک افریقہ کو غلام بنایا۔ سونا، ہیرے، ہاتھی دانت اور انسان تک بیچ دیے گئے۔ نائجیریا کے شہر بینن پر 1897میں برطانوی فوج نے حملہ کیا اور وہاں سے ہزاروں قیمتی تانبے کے مجسمے لوٹ لیے۔ آج یہ بینن برونز لندن برلن اور پیرس کے میوزیموں میں سجے ہیں۔ جن ہاتھوں نے وہ فن پارے تراشے تھے وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے۔ یہ ہے وہ سامراجی تہذیب جس پر آج مغرب فخرکرتا ہے۔

عجیب تضاد یہ ہے کہ جب کسی مغربی میوزیم سے کوئی شے چوری ہوتی ہے تو میڈیا شور مچا دیتا ہے لیکن جب وہ خود پوری دنیا کی ثقافت چرا لیتے ہیں تو اسے تحفظِ ورثہ کہا جاتا ہے۔ لوور سے چند نوادرات کی چوری پر خبریں چھپتی ہیں مگر ان ہزاروں نوادرات کی بات کوئی نہیں کرتا جو نپولین کے جہازوں میں بھرکر مشرق سے مغرب لائے گئے۔ وہ سب آج بھی فرانس کے عجائب گھروں میں قید ہیں۔ مغربی دنیا کے نزدیک لوٹ مار جرم نہیں اگر وہ خود کرے تو تہذیبی خدمت بن جاتی ہے۔

یہ لوٹ مار محض ماضی کا باب نہیں۔ آج بھی سامراج نئے چہروں نئے ہتھیاروں کے ساتھ موجود ہے۔ اب توپوں اور بندوقوں کے بجائے عالمی مالیاتی ادارے سرمایہ دارانہ معاہدے اور ٹیکنالوجی کے نیٹ ورکس وہ نئے ہتھیار ہیں جن سے قوموں کی خود مختاری چھینی جا رہی ہے۔ پہلے زمینوں پر قبضہ ہوتا تھا اب معیشت پر۔ پہلے سونا، تیل اور ہیرے لوٹے جاتے تھے، اب ڈیٹا آئیڈیاز اور انسانی محنت۔ یہ وہ نیا سامراج ہے جو بظاہر مہذب دکھتا ہے مگر اندر سے ویسا ہی لٹیرا ہے جیسا نپولین یا ایسٹ انڈیا کمپنی تھی۔

یونان نے برطانیہ سے اپنے مجسّمے مانگے، نائجیریا نے اپنے بینن برونز مصر نے روزیتا اسٹون بھارت نے کوہِ نور۔ مگر مغربی حکومتوں کے جواب تقریباً ایک جیسے ہیں، یہ اب عالمی ورثہ ہیں یہاں زیادہ محفوظ ہیں، واپس کرنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ وہی منطق ہے جو ہر لٹیرا دیتا ہے کہ چوری کیے گئے مال پر اب میرا حق ہے کیونکہ میں نے اُسے بہتر طریقے سے محفوظ کر رکھا ہے۔

میں جب لوورکی چوری کی خبر پڑھ رہی تھی تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید وقت نے ایک لمحے کے لیے انصاف کیا ہو۔ شاید ان نوادرات کی روحیں جو اپنے وطن سے کاٹ کر یہاں لائی گئی تھیں، کسی طرح اس ظلم کا احتجاج کر رہی ہوں،کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ لوٹی ہوئی چیز کبھی بھی ہمیشہ کے لیے کسی کے پاس نہیں رہتی۔ انسان کی روح بھی اسی طرح بے چین رہتی ہے، جیسے اپنی زمین سے جدا کیا گیا کوئی فن پارہ۔

یہ سچ ہے کہ دنیا کے یہ عظیم میوزیم دراصل لٹی ہوئی تہذیبوں کے مزار ہیں۔ ان میں سجا ہر مجسمہ ہر تختی ہر زیور ہر سکہ ایک خاموش فریاد ہے۔ وہ سب اپنے وطن کی ہوا، اپنی زمین اپنی زبان کو یاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کہتا ہے ’’ مجھے واپس لے چلو، وہاں جہاں سے تم نے مجھے چھینا تھا۔‘‘

دنیا انصاف کا دعویٰ کرتی ہے لیکن جب تک یہ لوٹے ہوئے ورثے اپنی اصل جگہوں کو نہیں لوٹائے جاتے، تب تک انصاف ادھورا رہے گا۔ یہ صرف نوادرات کی بات نہیں یہ انسانی عزت خود مختاری اور تاریخ کی بحالی کا سوال ہے۔ ایک دن آئے گا جب یہ سب لٹا ہوا ورثہ واپس جائے گا۔ تب شاید انسانیت اپنے چہرے پر سے وہ داغ مٹا سکے جو صدیوں پہلے سامراج نے لگا دیا تھا۔

لوور پیرس سے چوری ہونے والے چند مجسموں نے ہمیں ایک بار پھر یہ یاد دلایا ہے کہ انسان نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے گناہ لوٹ مار، استحصال اور سامراج کو کبھی واقعی ختم نہیں کیا۔ وہ آج بھی زندہ ہے صرف لباس بدل چکا ہے۔ اس خبر نے پوری انسانی تاریخ کو میرے سامنے لا کھڑا کیا اور میں نے دل ہی دل میں سوچا، شاید ایک دن جب انصاف واقعی زندہ ہوگا تب لوٹے ہوئے مجسمے اپنی اصل سرزمین پر لوٹیں گے اور تب دنیا پہلی بار واقعی حسین دکھائی دے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نوادرات کی لوٹ مار دنیا کے

پڑھیں:

رنگین روایات کی دنیا؛ کیلاش سے سائبیریا تک زندہ ثقافتیں

دنیا میں کچھ وادیاں صرف زمین کے ٹکڑے نہیں ہوتیں، وہ روح میں اتر جانے والے احساسات رکھتی ہیں۔ ان کی فضاؤں میں ایک ایسی لطافت گھلی ہوتی ہے جو انسان کو لمحوں میں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

پاکستان کے شمال میں، چترال کے دل میں بسی کیلاش ویلی بھی ایسی ہی وادیوں میں سے ایک ہے۔ جہاں قدم رکھتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے دریا نے اپنا بہاؤ کچھ دیر کے لیے روک دیا ہے، اور انسان کسی قدیم، معصوم اور غیرمسخ شدہ دنیا میں داخل ہو گیا ہے۔

یہ وادی نہ صرف اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے، بلکہ اس تہذیب کے لیے بھی جس کے رنگ، نغمے اور رسومات آج بھی اپنی اصل حالت میں سانس لے رہی ہیں۔ کیلاشی لوگ ایک ایسی دنیا کی یاد دلاتے ہیں جہاں زندگی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر بہتی تھی، جہاں موسم صرف موسم نہیں بلکہ ایک تہوار تھے، اور جہاں رقص اور موسیقی محض تفریح نہیں بلکہ روحانی زبان تھی۔

کیلاش، ایک زندہ اثر، ایک دل فریب احساس

کیلاش ویلی میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اونچے دیودار کے درخت، لکڑی کے روایتی گھر، چھتوں پر سوکھتے اخروٹ اور ندیوں کا گنگناتا ہوا پانی نظر آتا ہے۔ یہ منظر انسان کو بتاتا ہے کہ یہاں سہولت نہیں، سادگی ہے؛ مصنوعی روشنی نہیں، قدرت کا نور ہے؛ جدید شور نہیں، ہوا کی موسیقی ہے۔

وادی کا ہر پاسہ ایک الگ کہانی کہتا ہے۔ گاؤں کے درمیان سے گزرتے تنگ راستے، پتھروں سے بنے چھوٹے پل، اور پیچھے سے جھانکتی برف پوش چوٹیوں کا منظر، سب مل کر ایسا احساس پیدا کرتے ہیں جیسے انسان کسی داستانوی دنیا میں سانس لے رہا ہو۔

لیکن کیلاش کی اصل پہچان وہ لوگ ہیں جو اس وادی میں بستے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو نہ صرف اپنی زبان، لباس اور رسومات کو نسلوں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ ہر آنے والے تبدیلی کے طوفان کا مقابلہ بھی اپنی تہذیبی خوداعتمادی کے ساتھ کرتی ہے۔

کیلاشی خواتین، چلتے پھرتے رنگوں کے مجسمے

اگر کیلاش کی سڑکوں پر کسی مسافر کی نظر سب سے پہلے کسی چیز پر ٹکتی ہے تو وہ یہاں کی خواتین ہیں۔ ان کا رنگین لباس، سیاہ چادر پر موتیوں اور دھاگوں کی کڑھائی، اور ہاتھ سے تیار کی گئی روایتی ٹوپی، جسے ’سُسٹر‘ کہا جاتا ہے، دیکھنے والے کو محوِ حیرت کر دیتی ہے۔ ان کے چہروں پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ ہوتی ہے۔ ایسی مسکراہٹ جو ان کی آزاد فطرت، مضبوط شناخت اور خوشی کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔

یہ خواتین صرف لباس کے ذریعے رنگ نہیں بکھیرتیں، بلکہ اپنی گفتگو، نغموں اور طرزِ زندگی سے بھی ایک روشن احساس پھیلاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاح ان کی سادگی، مہمان نوازی اور خالص انسانیت سے بےحد متاثر ہوتے ہیں۔

کیلاش کے تہوار، زندگی کا جشن

کیلاش میں سال بھر ثقافتی تہواروں کی رونق لگی رہتی ہے۔ یہ تہوار صرف رسومات کا مجموعہ نہیں ہیں، بلکہ زندگی کے ساتھ ان کا ایک جذباتی اور روحانی رشتہ ہے۔

چلم جوشٹ

یہ تہوار موسمِ بہار کے استقبال کا جشن ہے۔ جب پھول کھلنے لگتے ہیں، پہاڑ سبز چادر اوڑھ لیتے ہیں، تو کیلاشی لوگ رقص، موسیقی اور اجتماعی دعا کے ساتھ فطرت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

اوچال

گرمیوں کا تہوار جو فصل کی کٹائی کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ یہ شکرانے کی تقریب ہے جس میں گیت گائے جاتے ہیں اور مقدس مقامات پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔

پوٹھ (چترمس ماس)

یہ سردیوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اس میں رات بھر آگ کے گرد رقص ہوتے ہیں، قربانیاں دی جاتی ہیں اور لوگ اپنی پرانی روایات کو تازہ کرتے ہیں۔

ان تہواروں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں کسی تفریق کی گنجائش نہیں۔ مرد، عورتیں، بچے، بزرگ سب ایک ہی دائرے میں مل کر رقص کرتے ہیں، ایک ہی زبان میں خوشی مناتے ہیں۔ شاید یہی اجتماعی احساس انہیں دنیا کی زندہ تہذیبوں میں ممتاز بناتا ہے۔

کیلاش اور دنیا کی دیگر زندہ قدیم ثقافتیں

دنیا کے کئی خطوں میں ایسی تہذیبیں آباد ہیں جو آج بھی اپنی روایتی شکل میں قائم ہیں۔ کیلاش ان میں سے ایک ہے، مگر یہ واحد نہیں۔ دنیا کے مختلف خطے جاپان، امریکہ، سائبیریا، جنوبی امریکہ اور افریقہ جیسی قوموں کا مسکن ہیں جو جدید دنیا کی برق رفتار ترقی کے باوجود اپنی شناخت سے جڑی ہوئی ہیں۔

جاپان کے آئینو لوگ

آئینو لوگ ایک منفرد ثقافت کے حامل ہیں۔ ان کی اپنی زبان، لباس، رسمیں اور دیومالائی کہانیاں ہیں۔ کیلاش کی طرح یہ لوگ بھی رقص، موسیقی اور فطرت کے احترام کو اپنی روح کا حصہ سمجھتے ہیں۔ دونوں ثقافتوں میں موسموں کی تبدیلی کو مقدس سمجھا جاتا ہے، اور تہوار فطرت کے ساتھ انسان کی ہم آہنگی کی علامت ہیں۔

نیٹیو امیریکن قبائل

ریڈ انڈینز کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ ان کے پاوٹا ڈانس، ڈرم بیٹس، ڈریم کیچر، اور قبائلی کہانیاں آج بھی زندہ ہیں۔ کیلاش کی طرح یہ لوگ بھی زمین کو ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے اجتماعی رقص اور گیتوں میں بھی وہی روحانی کیفیت پائی جاتی ہے جو کیلاش کے تہواروں میں نظر آتی ہے۔

پیرو کے انڈین قبائل

ایمیزون کے جنگلات اور انڈیز کے پہاڑوں میں بسنے والے قبائل اپنی رنگین روایات کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے تہواروں میں بھی فصل کی خوشی، سورج کی عبادت، اور موسم کے احترام کا جذبہ جھلکتا ہے۔ ان کا لباس، ماحولیاتی عقائد اور رنگوں سے محبت کیلاش سے غیر معمولی حد تک مشابہت رکھتی ہے۔

افریقہ کے ماسائی لوگ

ماسائی قبائل اپنے سرخ لباس، موتیوں والے زیورات اور ’جمپ ڈانس‘ کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ رقص ان کے لیے صرف جسمانی مشق نہیں بلکہ شناخت، دعا اور طاقت کا استعارہ ہے۔ یہی کیفیت کیلاش میں بھی ملتی ہے—جہاں رقص ایک زبان ہے، ایک عبادت ہے، ایک اجتماعی بندھن ہے۔

سائبیریا کے شمان قبائل

سائبیرین شمان ازل سے روحانیت، ڈھول اور قدرتی طاقتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی سخت موسموں کے باوجود برقرار ہے۔ کیلاش کی طرح وہ بھی اپنی میراث کو زمانے کے دباؤ سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دونوں قومیں بتاتی ہیں کہ اپنی شناخت پر قائم رہنے کا جذبہ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہو سکتا ہے۔

کیوں زندہ تہذیبیں انسانیت کا سرمایہ ہیں؟

آج کی دنیا میں جن معاشروں نے اپنی روایات کو قربان کر کے جدیدیت کو گلے لگایا ہے، وہ بےشک ترقی یافتہ ہیں مگر اکثر اپنی اصل خوشبو کھو بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف کیلاش، آئینو، ماسائی، نیٹیو امیریکن اور دیگر زندہ ثقافتیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ترقی اور روایت ایک ہی راستے پر ساتھ چل سکتے ہیں۔ اہم بات توازن ہے۔

یہ زندہ تہذیبیں ہمیں بتاتی ہیں کہ:

فطرت محض نظارہ نہیں، ایک تعلق ہے

رقص صرف جسمانی ادا نہیں، دل کی زبان ہے

تہوار صرف رسمیں نہیں، اجتماعی روح ہیں

ثقافت ماضی کی داستان نہیں، حال کی سانس ہے

شناخت چھوڑے بغیر بھی انسان مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے

دنیا کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کی تنوع میں ہے، اور زندہ روایتی ثقافتیں اس تنوع کے رنگوں کو زندہ رکھنے والی روشنی ہیں۔

کیلاش ویلی دنیا کے لیے صرف سیاحتی مقام نہیں، بلکہ ایک درسگاہ ہے۔ یہ وادی ہمیں بتاتی ہے کہ خوشی سادگی میں ہے، ہم آہنگی فطرت میں ہے، اور شناخت محبت میں ہے۔ اس وادی کی تہذیب نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک ایسا ثقافتی خزانہ ہے جسے محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

کیلاشی لوگ اپنی زبان، مذہب، رسومات، لباس اور موسیقی کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب ان کی پہچان ہے، اور پہچان چھوڑ دینے والی قومیں کبھی مضبوط نہیں رہتیں۔

کیلاش صرف پہاڑوں کے درمیان چھپی ایک وادی نہیں، بلکہ ایک زندہ احساس ہے۔ ایک ایسا احساس جو انسان کو بتاتا ہے کہ زندگی کی اصل خوبصورتی فطرت، محبت، دعا، جشن اور انسانیت میں ہے۔ یہ وادی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ثقافت وہ چراغ ہے جس کی روشنی نسل در نسل منتقل ہوتی ہے، اور جب تک یہ چراغ جل رہا ہے، انسان اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے جڑا رہتا ہے۔

دنیا کے مختلف گوشوں میں بسی ایسی ثقافتیں چاہے آئینو ہوں، ماسائی ہوں، انڈین قبائل ہوں یا نیٹیو امیریکن سب ایک ہی پیغام دیتی ہیں:

انسان اپنی اصل بھولے بغیر بھی ترقی کر سکتا ہے،

اور اپنی روایتوں کو بچا کر بھی دنیا کی دوڑ میں شامل رہ سکتا ہے۔

کیلاش زندہ ہے، اور اس کا زندہ رہنا ہم سب کے لیے امید کی وہ کرن ہے جس سے دنیا کی ثقافتی رنگینی ہمیشہ باقی رہے گی۔

تحریرو تحقیق سیدہ سفینہ ملک

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • برطانیہ کے میوزیم سے 600 قیمتی نوادرات چوری، ہندوستانی تاریخی اشیا بھی شامل
  • ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
  • کھسیانی بلی، کھمبا نوچے
  • پارلیمنٹ میں "ووٹ چوری" پر وزیر داخلہ امت شاہ کا جواب انکی گھبراہٹ ظاہر کررہا ہے، راہل گاندھی
  • رنگین روایات کی دنیا؛ کیلاش سے سائبیریا تک زندہ ثقافتیں
  • خان صاحب حل صرف غیر مشروط مفاہمت میں ہے
  • دسمبر کی تلخ گواہی
  • ناقابل تسخیر تصورِ پاکستان
  • جج کے چیمبر سے 2سیب اور ایک ہینڈ واش چوری، مقدمہ درج
  • لاہور میں پاکستانی تاریخ کا سب سے دلچسپ مقدمہ درج