Express News:
2025-12-12@07:55:14 GMT

دماغی امراض اور بے خوابی

اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT

اس جدید دور میں انسانوں کی اکثریت کم خوابی یا بے خوابی کا شکار ہے ۔اس کی وجہ ہمارا لائف اسٹائل ہے ہمیں رات کو اچھی نیند کیوں نہیں آتی یا دیر سے کیوں آتی ہے اس کی وجہ میلا ٹونین ہے ۔ میلا ٹونین ایک ایسا ہارمون ہے جو نیند لے کر آتا ہے ۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو اس ہارمون کو ریلیز ہونے سے روکتی ہیں سب سے پہلے انسولین ہے، یہ ہمارے خون میں بلڈشوگر کو کنٹرول کرتا ہے جب کہ کاربوہائیڈریٹس نان بریڈ اور بیکری اشیاء میں پایا جاتا ہے ، یہ بھی نیند کو روکتا ہے ۔انسولین میں اضافہ بھی اس ہارمون کو ریلیز کرنے سے روکتا ہے ۔ بلڈ شوگر میں کمی سے میلا ٹونین بھی بڑھنا شروع ہو جاتا ہے ۔

اگر آپ رات کو سونے سے پہلے بہت زیادہ ہیوی کھانا کھاتے ہیں تو آپ کی نیند ڈسٹرب رہے گی۔ میلا ٹونین زیادہ تعداد میں ریلیز نہیں ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ رات کا کھانا سونے سے تین چار گھنٹے پہلے کھالیں اور اس کے ساتھ زیادہ میٹھی چیزیں نہ کھائیں ۔ خشک میوے بھی استعمال کرنا بہت مفید ہے ۔ اچھی نیند کے لیے ہمارے موبائل اور لیب ٹاپ سے جو نیلی روشنی خارج ہوتی ہے یہ روشنی ہمارے دماغ کو دھوکا دیتی ہے کہ ابھی تو سورج نکلا ہوا ہے ۔ اس کی وجہ سے ہمارے دماغ کا اندرونی کلاک ڈسٹرب ہو جاتا ہے ۔

چنانچہ ہمارے دماغ کا وہ حصہ جو نیند لانے کا باعث بنتا ہے تو وہ یہ مادہ پیدا نہیں کرتا چنانچہ بچے اور بڑے جب تک موبائل لیب ٹائپ ، ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں سفید رنگ کی لائیٹ جلا کر رکھتے ہیں تو میلا ٹونین کم پیدا ہو گی یا بالکل بھی پیدا نہیں ہوگی اس لیے سونے سے پہلے ہلکی پیلی نہیں بلکہ گہری پیلی لائٹ استعمال کریں باقی ساری لائٹس بند کردیں اور بچوں سے موبائل فون لے لیا کریں ۔ بلیو لائٹ کی وجہ سے میلا ٹونین ریلیز نہیں ہوتا چنانچہ نیند دیر سے آئے گی۔

کیفین ایک اور وجہ ہے جو ہمیں نیند سے دور لے جاتی ہے کیفین ہمارے دماغ کو بلاک کرتی ہے۔ لیکن جب دوپہر میں ہمیں نیند آتی ہے تو اس کی وجہ ایڈونوسن مادہ ہے ۔ کیفین ہمیں ہائپر الرٹ کرتی ہے ۔ اس کے استعمال سے وقتی طور پر نظر تیز ہوجاتی ہے اور زیادہ دور سے آواز سنائی دیتی ہے جب رات کو ہم کافی پی لیتے ہیں تو میلا ٹونین پیدا نہیں ہوتی ۔ سائنسی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ اگر آپ نے جلدی سونا ہے تو کافی آپ سونے سے 6گھنٹے پہلے پی لیں لیکن کافی دل کے لیے بہت اچھی ہے ۔

بلڈ پریشر کے لیے بھی اچھی ہوتی ہے ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کافی صبح 10بجے پی لیں اور کسی چیز کو بھی اس کے ساتھ استعمال کریں،کبھی خالی پیٹ کافی نہ پئیں ، نیکوٹین بھی نیند کو ڈسٹرب کرتی ہے سگریٹ نیند کے لیے صحیح نہیں ہے چھوٹی عمر کے بچوں میں میلا ٹونین کی مقدار شام 7-8بجے سے ہی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہ بڑی مقدار میں پیدا ہوتی ہے اس لیے بچے جلد سو جاتے ہیں اور ان کی نیند بھی بہت گہری ہوتی ہے لیکن بچے جیسے ہی بڑے ہوتے ہیں ان کا نیند کا دورانیہ تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے یعنی ان کی نیند کم ہو جاتی ہے اور وہ دیر سے 10/11بجے رات کو سوتے ہیں ۔ اس لیے ٹین ایجر رات کو دیر تک جاگتے ہیں وہ جلدی سو نہیں سکتے کیونکہ میلا ٹونین مادہ دیر سے پیدا ہوتا ہے ۔

بچے اگر صبح جلدی نہیں اٹھتے تو اس کا علاج یہ ہے کہ صبح فجر کے وقت جب سورج نکل رہا ہو اور اس کی روشنی ڈائریکٹ نہ پڑ رہی ہو ان کو گھر سے باہر لے کر جائیں اس طرح ان کے سیلز ری پروگرام ہوں گے اور وہ رات کو جلدی سوئیں گے اور جلدی اٹھیں گے جب کے بڑوں میں بھی رات کو میلاٹونین جلدی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے لیکن اس کی مقدار کم ہوتی ہے اس لیے ان کی نیند کم ہوتی ہے ۔

میلاٹونین سردیوں اور گرمیوں میں مختلف مقدار میں پیدا ہوتی ہے ۔ کیونکہ راتیں بھی لمبی ہوتی ہیں اس لیے ہمیں نیند زیادہ اچھی آتی ہے ۔ لیکن گرمیوں میں نیند کم ہوتی ہے خاص طور پر جب درجہ حرارت زیادہ ہو کیونکہ گرمی کی وجہ سے میلا ٹونین کم پیدا ہوتا ہے لیکن ACمیں سونے کی وجہ سے میلا ٹونین زیادہ مقدار میں پیدا ہوتا ہے اور نیند بھی زیادہ آئے گی ۔ اس لیے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم رات کو کیفین استعمال نہ کریں اور سونے سے چار گھنٹے پہلے بہت ہلکا کھانا کھائیں ۔ بلیو لائیٹ بالکل استعمال نہ کریں اور صرف پیلی لائٹ سونے سے آدھا گھنٹہ یا ایک گھنٹہ پہلے جلا لیں صبح فجر کے بعد ہر کسی کو باہر لے جائیں ۔ تو اس طرح سورج کی روشنی ان کے جسمانی سیلز کو پروگرام کرے گی۔ اور بتائے گی کہ اس وقت صبح ہے ۔اگر وہ 10بجے سو کر اٹھیں گے تو جسمانی سیلز بھی اسی طرح پروگرام ہونگے۔

اس طرح وہ دیر سے سوئیں گے اور دیر سے اٹھیں گے توہماری صحت کے لیے انتہائی مضر ہے ۔ صحیح نیند ہماری صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ امریکا میں ایک ریسرچ ہوئی جس کے ذریعے انھیں وہاں پتہ چلا کہ ان کا ہر تیسرا شہری نیورولوجیکل ڈس آرڈر میں مبتلا ہے ۔ جب کہ اس نیورولوجیکل ڈس آرڈر کا بہت دیر سے پتہ چلتا ہے ۔ دماغ کو زہریلے مادے سے جو بچاتی ہے وہ ہے نیند ، دماغ کی صحت کے لیے اچھی اور گہری نیند بہت زیادہ ضروری ہے اسی لیے ہم اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ سو کر گزارتے ہیں ۔ نیند ہماری یاداشت کو بھی بڑھاتی ہے ۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں دس سے بارہ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہوں یعنی انھیں بمشکل دو وقت کی روٹی میسر ہو تو اندازہ کریں کہ وہاں پہ دماغی امراض کا کیا عالم ہوگا۔ ان کا تو بس اﷲ ہی اﷲ ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے میلا ٹونین ہو جاتا ہے کی وجہ سے اس کی وجہ ضروری ہے کی نیند شروع ہو پیدا ہو ہوتی ہے اس لیے ہے اور کے لیے رات کو بھی اس

پڑھیں:

مستقبل کس کا ہے؟

اسلام ٹائمز: ڈالر تیزی سے گر رہا ہے۔ برکس بڑھ رہا ہے۔ برکس ایک زیادہ مساوی معاشرہ ہے، جو کرہ ارض پر ابھر رہا ہے اور امریکہ اسکی قیمت چکا رہا ہے۔ امریکی ہار جائیں گے۔ ہماری زندگی کا معیار بہت کم ہو جائے گا۔ ہماری حکومت اور اسکی پالیسیاں تباہ کن تھیں۔ ٹیرف کا استعمال اس طرح تھا کہ ہم نے تجارت کو سیاسی رنگ دیا۔ دنیا کو ڈالر کا متبادل تلاش کرنا پڑا ہے اور اب وہ ڈالر کو چھوڑ رہی ہے۔ دنیا امریکہ کے کردار کے بغیر بہتر ہوگی۔ میں ایران کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں روس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا ملک ان اصولوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کرے، جو کبھی اس ملک کا طرہء امتیاز تھا۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
 
"امریکہ کا زوال: دنیا کا ایک نیا دور" کے عنوان سے منعقدہ ایک کانفرنس میں امریکی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر جیمز ایچ فیٹزر کی تقریر کا متن قارئین کے ذوقِ مطالعہ کے پیش ہے، جس میں انہوں نے امریکہ کے زوال کی اپنے زاویہء نظر سے تصویر کشی کی۔ اپنے خطاب میں پروفیسر جیمز کہتے ہیں کہ: "1940 میں پیدا ہونے والے شخص کے طور پر میں نے اپنی زندگی میں "ریاست ہائے متحدہ امریکہ" کو زمانے کی ایک عظیم مملکت سے بدمعاش اسرائیلی حکومت کی غلام اور کٹھ پتلی سلطنت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ میرے لیے ایک ناگوار تجربہ رہا ہے۔ میں نے "میرین کور" میں ایک کیڈر آفیسر کی حیثیت سے بڑے اعزاز کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ مجھے یقین تھا کہ ہمارا ملک دنیا میں خیر کی ایک طاقت ہے۔ لیکن میرا یہ یقین ویتنام جنگ کے بعد سے متزلزل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس جنگ میں نہیں کودنا چاہیے تھا۔ اس وقت سے معاملات ناقابل یقین حد تک خراب ہوتے چلے گئے ہیں۔

میں جان ایف کینیڈی کے قتل کی تحقیقات میں شریک تھا اور مجھے پتہ چلا کہ اس قتل میں ہماری اپنی حکومت کے اندر موجود عناصر، جن کا تعلق سی آئی اے، فوج اور مخصوص مافیا سے ہے، شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس قتل کے پیچھے تیل کے مفادات، اسرائیل اور کاسترو مخالف کیوبا بھی ہیں۔ لیکن یہ سب "لنڈن جانسن" کی وجہ سے بھی تھا، جو صدر بننا چاہتا تھا۔ اس نے "یو ایس ایس لبرٹی" پر حملے کی تباہی کو ہونے دیا۔ میری رائے میں وہ ایک چھپا ہوا یہودی تھا، جو اسرائیل کے مفادات کو محفوظ بنانے والی امریکی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھا رہا تھا اور پھر 2000ء میں یقینی طور پر ہم نے ڈک چینی اور جارج ڈبلیو بش کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کی تھی۔ وجہ یہ کہ ہم ڈک چینی کو 9/11 کا "فیلڈ اوورسیئر" بنانا چاہتے تھے۔ یہ سب کچھ اسرائیل، سی آئی اے، نیو کونز، محکمہء دفاع اور موساد کی مدد سے ہوا۔ ان سب کا منصوبہ امریکی فوجی قوت کو مشرق وسطیٰ میں لانا اور اسرائیل کے ذریعے ان عرب حکومتوں کو ختم کرنا تھا، جو پورے خطے پر اسرائیل کے تسلط کے خلاف کام کر رہی تھیں۔

شام اپنے زوال کے بعد اب سابق اسرائیلی فوجی دستوں کے زیر انتظام ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے یہ انتہائی توہین آمیز اور شرمناک ہے۔ صرف ایران ہی اس وقت مضبوط اور خودمختار ہے۔ میں وہ ہوں، جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی اور تین بار انہیں ووٹ دیا۔ مجھے ان کے ان سیاسی بیانات پر یقین تھا، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ان احمقانہ جنگوں کو ختم کر دیں گے، سرحد بند کریں گے اور داخلی محاذ پر امریکہ کو بڑے فائدے پہنچائیں گے۔ لیکن اس کی بجائے انہوں نے جنگیں جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے، جس میں نسل کشی کا ایک بھیانک جرم ہو رہا ہے اور امریکہ اس نسل کشی کی حمایت کرکے اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ اقوام متحدہ، بین الاقوامی عدالت انصاف اور سب نے صحیح نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔

ایران اس وقت مضبوط کھڑا ہے۔ امریکہ نے ایران پر حملہ کیا، لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایران کی اب ایک اور ممکنہ حملے کے لیے زیادہ فوجی تیاری ہے۔ اس کے پاس چین کے 40 جدید طیارے اور دیگر ایسے میزائل ڈیفنس سسٹمز موجود ہیں، جو اسے مشرق وسطیٰ میں ایک طاقتور قوت بنائیں گے۔ اسرائیل کے عالمی رہنماوں پر قاتلانہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بالکل پاگل ہوچکا ہے اور طاقت کا بھوکا ہے۔ اسرائیل کے ٹارگٹ کیے گئے رہنماوں میں یمن کے حوثیوں کے رہنماء، قطر میں فلسطینی رہنماء، لبنان میں حزب اللہ کے رہنماء اور ایران میں ایرانی رہنماء شامل ہیں۔ بی بی (بینجمن) نیتن یاہو سمجھ گئے ہیں کہ ان کی قسمت جنگ سے جڑی ہوئی ہے۔ جنگ ختم ہوئی تو ان کی وزارت عظمیٰ کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ بظاہر ناقابل یقین ہے کہ امریکہ یوکرین میں ایک مضحکہ خیز جنگ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے روس اور پیوٹن کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کا صرف وعدہ کیا، لیکن پیوٹن نے ماضی میں نیٹو اور مغرب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ روس نیٹو میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ اب جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یہ کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ زیلنسکی نے امریکہ کو صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اسرائیلیوں نے ہمیں ہمیشہ سونے کے بچھڑے کے طور پر دیکھا ہے۔ وہ ہمارا خون چوستے ہیں اور ہمارے پاس دنیا کے سب سے بڑے فلاحی نظام کے سوا کچھ نہیں رہنے دیتے۔ اسرائیلی ان تمام ممالک کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں، جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ میں خود بنجمن نیتن یاہو کا حوالہ دیتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ زیلنسکی یوکرین کو نئے اسرائیل کے طور پر فروغ دے رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ مسئلے کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگیں اسی کے بارے میں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یورپیوں نے حیران کن حماقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں، جسے وہ جیت نہیں سکتے۔

وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اسے نہیں جیت سکتے، جبکہ روس ایسی جنگ کے لیے تیار ہے۔ آخر نتیجہ کیا ہوگا۔؟ بدقسمتی سے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ صورتحال بالکل بھی امید افزا نہیں ہے، اس نااہلی کے پیش نظر جو ہم اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ امکان سے باہر نہیں ہے کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ سے باہر پھینک دیا جائے گا، جس کا کہ وہ مستحق ہے۔ بدقسمتی سے، مجھے کہنا پڑتا ہے اور میں اس سے دکھی ہوں، لیکن خود امریکہ بھی ایسا ہی ہے۔ ٹرمپ نے نہ صرف اس جنگ کو ختم نہیں کیا بلکہ اسے مزید خراب کر دیا ہے۔ ٹرمپ، میری رائے میں، گمراہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے زیادہ وقت نہ ہو۔ وہ تقریباً چھ یا سات دنوں تک عوام میں نہیں دیکھا گیا، جو کہ انتہائی غیر معمولی تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا ایک بڑا طبی معائنہ ہوا ہے۔ اس کی پہلی عوامی نمائش میں ہم نے پریس افسروں اور دیگر کو روتے ہوئے دیکھا اور یہ اس لیے ہوا ہوگا کہ اس کی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔

ہمیں یہاں امریکہ میں آزادئ اظہار کی ضرورت ہے۔ آزادئ اظہار کے بغیر آپ مسائل حل نہیں کرسکتے۔ آج روس میں، ایران میں اور میں شرط لگاتا ہوں کہ شمالی کوریا میں بھی امریکہ سے کہیں زیادہ اظہار کی آزادی ہے۔ یہ کتنا حیرت انگیز ہے۔؟ اس لیے میں اس موقعے پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ روس، ایران اور چین۔۔۔ یہ مستقبل ہیں۔ ڈالر تیزی سے گر رہا ہے۔ برکس بڑھ رہا ہے۔ برکس ایک زیادہ مساوی معاشرہ ہے، جو کرہ ارض پر ابھر رہا ہے اور امریکہ اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ امریکی ہار جائیں گے۔ ہماری زندگی کا معیار بہت کم ہو جائے گا۔ ہماری حکومت اور اس کی پالیسیاں تباہ کن تھیں۔ ٹیرف کا استعمال اس طرح تھا کہ ہم نے تجارت کو سیاسی رنگ دیا۔ دنیا کو ڈالر کا متبادل تلاش کرنا پڑا ہے اور اب وہ ڈالر کو چھوڑ رہی ہے۔ دنیا امریکہ کے کردار کے بغیر بہتر ہوگی۔ میں ایران کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں روس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا ملک ان اصولوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کرے، جو کبھی اس ملک کا طرہء امتیاز تھا۔ شکریہ!

متعلقہ مضامین

  • صبح 10 بجے سے پہلے دفتر آنے کیلئے مجبور کرنا تشدد کے مترادف، تحقیق
  • بے روز گاری اور پاکستان کی خوش قسمتی
  • بھارتیوں کے امریکا میں بچے پیدا کرکے شہریت لینے کے خواب ٹرمپ نے چکنا چور کردیئے
  • پی ٹی آئی صوبے میں ایسے حالات پیدا کر رہی ہے جو گورنر راج کی راہ ہموار کر رہے ہیں، بلاول بھٹو
  • اسموگ سے پیدا ہونے والے طبی مسائل، ڈائیٹ سمیت چند آسان گھریلو تدابیر
  • شاہ رخ خان نے فٹنس کیلئے اپنی روٹین میں بڑی تبدیلی کرلی، وجہ بھی بتادی
  • مستقبل کس کا ہے؟
  • سانحہ گلشن اقبال، متاثرہ فیملی کے ڈیڑھ کروڑ کے مقروض ہونے کا انکشاف
  • کراچی: گلشن اقبال سے3 خواتین کی لاشیں ملنے کا واقعہ،متاثرہ فیملی کے ڈیڑھ کروڑ کی مقروض ہونے کا انکشاف
  • آٹھ گھنٹے نیند لازمی نہیں، اپنی ضروری نیند کا درست اندازہ لگانے کے طریقے