Express News:
2025-12-12@12:00:32 GMT

معاشی استحکام اور مشکلات

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے سخت ترین معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے، سود کی مد میں بڑی سے بڑی رقم نکلتی چلی جا رہی ہے، اسی دوران ترقیاتی کاموں کے لیے رقوم کی کمی واقع ہو رہی ہے۔

روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک وقت تھا 3 پاکستانی روپے کا ایک ڈالر دستیاب تھا، آج تقریبا 300 روپے کے قریب ہو چکا ہے۔ اب کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلی کا شکار ملک بن چکا ہے۔ گزشتہ دہائی میں 2010 کا سیلاب آیا، پھر 2022 کا ہولناک ترین سیلاب آیا تھا جس سے ابھی تک سنبھلنے نہ پائے تھے کہ 2025 کے سب سے بڑے تاریخی سیلاب نے آ لیا جس کے بارے میں مالیاتی ادارہ تسلیم کرتا ہے کہ سیلاب نے معاشی استحکام کو بری طرح متاثرکیا ہے۔

اب اس سیلاب نے دراصل خوراک کے اسٹاک سے لے کر اس کی پیداوار تک کو متاثر کیا ہے، اگرچہ حکومت نے خوراک کی پالیسی،گندم کی پالیسی اور دیگر اقدامات سے مالی سہارا دینے کی پالیسی اختیار کی ہے، لیکن ان تمام تر مشکل صورتحال کا ادراک کرنے کے باوجود عالمی ادارے نے مختلف شرائط سے مزین کر کے قرض کی پیش کش کی ہے۔

پاکستان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ گندم کی پیداوار میں تقریباً 8 فی صد کی کمی ہوگی، اگر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ 30لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی ضرورت پیش آئے گی، 2 برس قبل 30 لاکھ من گندم کی درآمد پر ایک ارب ڈالر خرچ کیا گیا تھا تو اس لحاظ سے تقریباً سوا ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی، یعنی جتنا قرض لیں گے اسی قدر گندم کی درآمد پر خرچ کر دیا جائے گا، لہٰذا خوراک کی قلت کا معاملہ پوری معیشت پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔

حکومت نے گندم کی قیمت خرید کا تعین کر دیا ہے، اب ساتھ ہی کاشتکاروں کے دیگر مسائل کو فوری حل کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بہت سے خاص مقامات ایسے ہیں جہاں پہلے گندم یا کسی اور فصل کی کاشت نہیں ہوئی ہے، لہٰذا وہاں پر گندم کی فصل اٹھائی جا سکتی ہے جس سے گندم کی کمی پر کچھ نہ کچھ قابو پایا جا سکتا ہے۔

آئی ایم ایف سے شرائط کے تحت جو رقم ملے گی، اس کے نتیجے میں خدشات بھی جنم لے رہے ہیں کیونکہ شرائط پر مکمل عمل درآمد اور اصلاحات نہ کی جا سکیں جس کے امکانات زیادہ ہیں ایسی صورت میں اگلی رقم رکے گی یا پھر بعد میں آئی ایم ایف کو اپنی مرضی کے مطابق نتائج کے حصول کے لیے مزید سخت ترین شرائط کا نفاذ کرنا پڑے گا۔

پاکستان کو اپنی اصلاح کے لیے خود سے منتخب کردہ کئی راستوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ مثلاً ملک میں غذائی پیداوارکا براہ راست 30 فی صد تک ضیاع ہوتا ہے جسے روکنا اس کے علاوہ بہت سے قطعہ زمین ایسے ہیں جو غیر پیداواری ہیں۔ اس پر قابو پانے کی صورت میں کچھ پیداوار بڑھ سکتی ہے، اگرچہ پاکستان کے لیے شرح افزائش 3 فی صد سے زائد کی توقع کی جا رہی ہے۔

اس قدر کم شرح افزائش وسطی و شمالی افریقہ اور افغانستان کی پاکستان سے قدرے کم ہے، اگر حکومت کچھ اصلاحات کو صحیح معنوں میں رائج کرتی ہے، ٹیکس نیٹ میں اضافے کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے بوجھ اشرافیہ پر ڈالے، توانائی کے شعبے کی اصلاح کرے اور سرکاری اداروں کی اصلاح کرتی ہے جس میں غیر ضروری مراعات، بجلی کی مفت تقسیم، پٹرول مفت دینا اورکئی باتیں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مختلف اداروں کے لیے لگژری گاڑیوں کی خرید کا سلسلہ بالکل ختم کرنا ہوگا۔ غذائی درآمدات پر سخت کنٹرول کر کے بھی ایک یا ڈیڑھ ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ ملک میں دالوں کی پیداوار میں اضافے پر توجہ دی جائے۔

اس طرح کے کئی اقدامات ہیں جو حکومت اس لیے اپنائے تاکہ آئی ایم ایف کے اصلاحی پروگرام کا حصول ممکن ہو سکے۔ اس طرح شرح نمو میں بھی اضافہ ہوگا اور آیندہ کے لیے خدشات بھی کم ہو جائیں گے۔

کہا جا رہا ہے کہ پاکستان استحکام کی راہ پر ہے حالانکہ سیلاب کے اثرات نے پاکستان کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر دیے ہیں۔ پاکستان کو ان تمام علاقوں میں سرمایہ کاری یا ترقیاتی کام کرانے کی ضرورت ہوگی۔

سڑک ٹوٹنے، پل تباہ ہونے، موٹروے کے کئی حصوں کی تباہی کے علاوہ بہت سے بند ٹوٹے ہیں جن سے نہری نظام بھی ابتری کا شکار ہے۔ لاکھوں ایکڑ زمینوں پر پانی بھی کھڑا ہے، اس کے علاوہ کسانوں کے اپنے مالی مسائل شدید تر ہو چکے ہیں۔

ان تمام کو حل کیے بغیرکہہ دینا کہ پاکستان کی معیشت استحکام کی راہ پر ہے بلکہ ان سب کی اصلاح کے بغیر اگر اسی طرح چلتے رہے تو اگلے برس تک معیشت استحکام کی راہ چھوڑ کر غیر مستحکم ہونے لگے گی۔

حالانکہ استحکام کی صورت اختیارکرنے میں بھی ابھی بہت سا وقت اور بھاری رقم درکار ہیں، اس کے ساتھ ہی حکومتی مشینری کا فعال طریقے سے اور بھرپور تیزی سے کام کرنا بھی ضروری ہے۔

 ابھی تک صوبہ سندھ بھی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ سیلاب کی تباہی کے علاوہ 2022 میں آنے والے سیلاب کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ صوبہ کے پی کے میں بھی بحالی کا کام مکمل نہیں ہوا ہے، جس کے مضر اثرات مرتب ہو چکے ہیں، لہٰذا پاکستان اب نئی مشکل ترین صورت حال میں گھرا ہوا ہے۔

آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ایک جزوقتی سہارا ہے لیکن ایسا سہارا جس میں قرض کا بار بھی ہے اور شرائط پر عمل درآمد سے غریبوں کے لیے مشکلات بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اہم مسئلہ غریبوں کی معاشی بحالی کا ہے جس کا فی الحال کسی قسم کا شافی نسخہ دریافت نہیں کیا جا سکا، اس کی وجہ یہ ہے کہ عرصہ دراز ہوا غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔

حالیہ سیلاب نے اگر 50 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے تو وہیں ان میں سے قلیل تعداد میں دوبارہ مکمل طور پر فوری بحال ہوئے ہوں گے جب کہ اکثریت ابھی تک مسائل کا شکار ہیں اس لحاظ سے پہلے کی نسبت غربت کی شرح بھی بڑھ رہی ہے اور شرح ترقی میں کمی کے باعث سیلاب کے سبب گندم اور کپاس کی درآمد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کے مضر اثرات برآمدات پر مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ کپاس کی پیداوار میں شدید کمی نے ٹیکسٹائل کی برآمدات پر اثرات مرتب کر دیے ہیں۔

ایسی صورت میں جب کہ ٹیکسٹائل پیداوار کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ درآمدی کپاس مہنگی پڑ رہی ہے۔

پاکستان پہلے ہی کئی دہائیوں سے معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، موجودہ صورت حال نے اسے مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ آئی ایم ایف کو جس معاشی استحکام کی ضرورت ہے، اس کے حصول کے لیے پاکستان کو اپنے طور پر بہت سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت پیش آئے گی تاکہ معاشی ترقی حاصل کی جا سکے اور معاشی استحکام کا حصول مزید آسان ہو جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں گھرا ہوا ہے معاشی استحکام اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی پیداوار اثرات مرتب استحکام کی اضافہ ہو سیلاب نے کی درآمد کی ضرورت گندم کی ابھی تک بہت سے کے لیے رہی ہے رہا ہے

پڑھیں:

معاشی خودکفالت کی منزل

وزیراعظم شہباز شریف اور انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی و تجارتی تعلقات، دفاع، سلامتی، صحت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت اور ماحولیاتی تعاون مزید مضبوط بنانے کے مشترکہ عزم کا اعادہ اور دو طرفہ تجارتی حجم بڑھانے کے لیے اتفاق کیا ہے، اس موقعے پر 7معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے۔

دوسری جانب ایک اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حالیہ مالی اجرا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کے لیے ضروری اقدامات پر عملدرآمد کر رہا ہے۔ 

وہ وقت دور نہیں جب پاکستان قرضوں سے مکمل نجات حاصل کر کے معاشی طور پر خود کفیل ہوگا، جب کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے، مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد سے 6.3 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظر نامے میں ایک اہم موڑکی حیثیت رکھتی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سات معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اسلام آباد اور جکارتہ مستقبل میں باہمی تعاون کو محض روایتی سفارتی سطح تک محدود رکھنے کے بجائے اسے معاشی، سائنسی، ٹیکنالوجیکل اور سلامتی سے متعلق پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف اور انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو کی ملاقات میں جو گرمجوشی، واضح ہدف بندی اور عملی تعاون کا عزم سامنے آیا، اس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت دے دی ہے۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب دنیا بھر میں معاشی دباؤ، جغرافیائی کشیدگی، توانائی کے بحران اور علاقائی اتحاد و تعاون کی نئی شکلیں ابھر رہی ہیں۔ چنانچہ اس ملاقات کے دور رس اثرات پر غور ضروری ہے۔

پاکستان اور انڈونیشیا دونوں دنیا کی بڑی مسلم آبادی رکھنے والے ممالک ہیں۔ دونوں کا ماضی تحریکِ آزادی، نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف جدوجہد اور عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے حوالے سے مشترکہ روایت رکھتا ہے۔ 

مگر گزشتہ دو دہائیوں میں جہاں انڈونیشیا نے معاشی استحکام، صنعتی ترقی، سیاحت، ڈجیٹلائزیشن اور جمہوری انتظام میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، وہیں پاکستان اندرونی سیاسی عدم استحکام، معاشی کمزوری، سرکلر ڈیٹ، مہنگائی اور خارجی انحصار کے بوجھ میں الجھا رہا۔

تاہم اب پاکستان میں معاشی نظم و ضبط، سفارتی سرگرمیوں کی ازسرنو تنظیم کاری، ایس آئی ایف سی کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی کوششوں اور علاقائی روابط کے فروغ نے حالات کو نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔

ایسے وقت میں انڈونیشیا کی قیادت کا دورہ پاکستان نہ صرف ایک سفارتی واقعہ ہے بلکہ ایک پیغام بھی ہے کہ خطہ پاکستان کی معیشت اور اس کے امکانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا۔معاہدوں میں شامل شعبوں کا تنوع بھی اس دورے کی اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم میں تعاون کے ذریعے دونوں ممالک کے تعلیمی اداروں میں تحقیق، مشترکہ پروگرامز، فیکلٹی ایکسچینج اور اسکالرشپ کے مواقع بڑھیں گے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا بحران صرف وسائل کا نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی، تحقیقاتی صلاحیت اور صنعتی ضروریات سے ہم آہنگ ماحول کی کمی کا بھی ہے۔ 

اگر انڈونیشیا کے ساتھ تعلیمی اشتراک کو مؤثر انداز میں آگے بڑھایا جائے تو پاکستان کی یونیورسٹیاں ایک نئے تعلیمی دور میں داخل ہوسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ صحت کے شعبے میں تعاون کے امکانات بھی کم نہیں۔

انڈونیشیا نے کووڈ کے بعد اپنے طبی نظام، بائیو ٹیکنالوجی اور صحت عامہ کے پروگراموں میں جو پیش رفت کی ہے وہ پاکستان کے کام آ سکتی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان طبی ماہرین کے تبادلے، اسپتالوں کی استعداد میں اضافہ، مشترکہ تحقیقی منصوبے اور وبائی امراض کی نگرانی کے نظام پر باہمی اشتراک صحت کے شعبے میں نئی راہیں کھول سکتا ہے۔

حلال انڈسٹری میں تعاون ایک ایسا پہلو ہے جس کی عالمی سطح پر انتہائی اہمیت ہے۔ دنیا بھر میں حلال فوڈ، حلال فارما، حلال کاسمیٹکس اور حلال سرٹیفکیشن کی مارکیٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

انڈونیشیا اس شعبے میں مضبوط مؤقف رکھتا ہے جب کہ پاکستان کی صلاحیت اور خام مال کی فراوانی اس شعبے کو دونوں کے لیے فائدہ مند بناتی ہے۔ اگر پاکستان عالمی حلال سپلائی چین کا فعال حصہ بن جائے تو نہ صرف برآمدات بڑھیں گی بلکہ دیہی معیشت اور زراعت کو بھی سہارا ملے گا۔

 یہ تمام فیصلے خوش آیند ہیں مگر ایک اہم پہلو دو طرفہ تجارت میں بڑھوتری ہے ،اس پس منظر میں جب ہم پاکستان کی مجموعی معاشی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ نہایت اہمیت اختیارکرجاتی ہے۔

آئی ایم ایف نے جہاں معاشی نمو کے 3.2 فیصد تک پہنچنے، ٹیکس آمدن میں اضافے، بے روزگاری میں کمی اور مجموعی مالی نظم میں بہتری کی نشاندہی کی ہے، وہیں مہنگائی کے دوبارہ بڑھنے کے خدشات بھی ظاہرکیے ہیں۔

مہنگائی بڑھ کر 6.3 فیصد تک پہنچنے اور 2026 میں تقریباً 9 فیصد تک جانے کا امکان ظاہرکیا گیا ہے۔ عوامی سطح پر پہلے ہی مہنگائی نے زندگی کو متاثر کیا ہے، اگر بنیادی اشیائے خورونوش، توانائی اور ٹرانسپورٹ کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوا تو سماجی پریشانی اور عدم اطمینان میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ جہاں ٹیکس اصلاحات اور مالی نظم میں بہتری لائی جائے وہاں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سبسڈی پروگراموں، ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی اور زرعی سپلائی چین کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں ٹیکسوں کا معیشت میں حصہ 16.3 فیصد تک بڑھنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان کا ٹیکس نیٹ دنیا میں سب سے کم سمجھا جاتا ہے۔ 

اگر وسیع بنیادوں پر ٹیکس اصلاحات، ڈیجیٹائزیشن اور ایف بی آر کی کارکردگی بہتر ہو جائے تو ملکی معیشت کو اندرونی بنیادوں پر مضبوط بنایا جا سکتا ہے، جس سے بیرونی قرضوں کا بوجھ کم ہوگا اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش بڑھے گی۔

آئی ایم ایف کی جانب سے تازہ مالی اجرا اس حقیقت کا مظہر ہے کہ پاکستان درست سمت میں گامزن ہے اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے معاشی اقدامات عالمی اداروں کے نزدیک بھی قابلِ اطمینان ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان قرضوں سے مکمل نجات حاصل کرلے گا اور معاشی خود کفالت کی منزل سر کر لے گا۔ یہ ایک قابلِ قدر خواہش ہے، جسے ہر پاکستانی دل سے چاہتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشی ڈھانچے میں وہ اصلاحات ہوچکی ہیں جو قرضوں کے چنگل سے نکلنے کے لیے ضروری تھیں؟ کیا ہماری معاشی پالیسیاں اب اس نہج پر آگئی ہیں کہ بیرونی قرضوں کے بغیر ملک چل سکے؟

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہائیوں سے قرضوں کے سہارے کھڑا ہے اور ان قرضوں کا حجم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ انھیں کم کرنا ایک طویل اور مشکل عمل ہوگا۔ تاہم کسی بھی اصلاحاتی ماڈل کو کامیاب قرار دینے سے پہلے اس کے اثرات کو عوام کی زندگی میں محسوس کیا جانا زیادہ ضروری ہے۔

مہنگائی، بے روزگاری، صنعتوں کی زبوں حالی، زراعت کے مسائل اور معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے جیسے عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اگر اصلاحات واقعی کامیاب ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں آسانی کیوں پیدا نہیں ہورہی؟

اس کے گھر کا بجٹ کیوں بگڑا ہوا ہے؟ بنیادی ضروریات تک رسائی کیوں پہلے کی نسبت زیادہ مشکل ہوگئی ہے؟

زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، لیکن آج کسان مہنگے کھاد، پانی کی کمی اور منڈیوں کے غیر منصفانہ نظام میں پس رہا ہے، اگر حکومت معاشی استحکام چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے زراعت کو جدید، منافع بخش اور موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔

دوسری جانب صنعتوں کی بحالی بھی ضروری ہے۔ انرجی ٹیرف میں اتار چڑھاؤ، ٹیکسوں کا بوجھ اور عدم استحکام نے صنعت کاروں کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے۔ جب تک صنعت مضبوط نہیں ہوگی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہوسکتا، اور جب تک برآمدات نہیں بڑھتیں، قرضوں سے نجات محض خواب ہی رہے گی۔

آئی ٹی سیکٹر وہ شعبہ ہے جو پاکستان کو کم وقت میں معاشی بلندیوں تک لے جاسکتا ہے، لیکن افسوس کہ اس جانب اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ ضروری تھی۔

نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آئی ٹی کی مہارت رکھتی ہے، لیکن انھیں عالمی مارکیٹ تک رسائی دینے کے لیے حکومتی سطح پر مناسب اقدامات کی کمی رہی ہے، اگر حکومت اس شعبے پر توجہ دے، فری لانسنگ کو آسان بنائے اور ٹیکنالوجی پارکس قائم کرے تو پاکستان اربوں ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔

عوام حکومت کی ہر مثبت کوشش کی قدر کرتے ہیں، لیکن وہ زبانی دعوؤں سے زیادہ عملی نتائج کے منتظر ہیں۔ پاکستان اس وقت ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سنجیدہ، بصیرت افروز اور طویل المدتی فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں۔

اگر موجودہ حکومت واقعی اصلاحات کو پائیدار بنا سکے، سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کر سکے، اور معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھ سکے تو وہ دن ضرور آئے گا جب پاکستان معاشی طور پر خود کفیل ہوگا اور قرضوں کے سہارے سے آزاد ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • سری لنکن سیلاب متاثرین کیلئے این ڈی ایم اے کی تیسری امدادی کھیپ کولمبو پہنچ گئی
  • لاہور میں ٹریفک اصلاحات کے مثبت اثرات، 12 روز میں مہلک حادثات کی شرح میں 47 فیصد کمی
  • ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام
  • عوام کو نچوڑ کر معاشی استحکام لانے والی پالیسی ناکام ہو چکی ‘ شاہد رشید
  • معاشی خودکفالت کی منزل
  • مسلم لیگ ن کی غلط پالیسیوں نے ملک کو معاشی عدم استحکام سے دوچار کیا، شفیع جان
  • سیلاب کے باوجود پاکستان نے پروگرام پر عمل کیا، مزید اصلاحات، پیداوار بڑھانے کی ضرورت: آئی ایم ایف
  • پنجاب نے تمام صوبوں سے زیادہ 16.5 ملین ایکڑ گندم کی ریکارڈ بوائی کر لی
  • وزیرِ خزانہ سے برطانوی وزیرِ ترقیات کی ملاقات، معاشی استحکام پر گفتگو
  • وزیرِ خزانہ، برطانوی وزیرِ ترقیات ملاقات، معاشی استحکام پر گفتگو