آئینی عدالت: ارشد شریف قتل کی تحقیقات میں اب تک کی پیش رفت رپورٹ طلب
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی آئینی عدالت نے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں اب تک کی پیش رفت رپورٹ سترہ دسمبر تک طلب کرلی۔
عدالت نے دونوں جانب کے وکلاء سے ازخود نوٹس کارروائی کے دائرہ اختیار پر معاونت بھی طلب کی ہے۔ سینئر صحافی ارشد شریف قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت وفاقی آئینی عدالت کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس روزی خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی،
عدالت نے قتل کی تحقیقات سے متعلق پیش رفت رپورٹ سترہ دسمبر تک طلب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ رپورٹ میں قانونی طور پر اٹھائے گئے اقدامات اور آئندہ کی تجاویز بھی شامل کی جائیں گی جس پر چھٹیوں کے بعد بحث کی جائے گی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بتایا جائے کہ اب تک تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی اور تحقیقات اور قتل کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے کیلئے قانونی طور پر کیا ہو سکتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی استفسار کیا کہ کیا ستائیسویں ترمیم کے بعد آئینی عدالت سوموٹو کارروائی چلا سکتی ہے؟، دونوں جانب کے وکلاء قانونی نقطہ پر آئندہ سماعت کو معاونت کریں۔
عدالت نے واضح کیا کہ عدالتی کارروائی کو ریگولیٹ کرنے کے ساتھ دائرہ اختیار کو بھی دیکھنا ہے اور کارروائی کا مقصد وہ حاصل ہو جس کیلئے سوموٹو لیا گیا، کیونکہ آئینی عدالت میں کیس سماعت کے بغیر تو کیس نہیں چل سکتا۔
وکیل اہلیہ ارشد شریف عمران شفیق نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے کہ آئینی عدالت سوموٹو کارروائی کو آگے بڑھا سکتی ہے، ارشد شریف کے قتل کے بعد پانچ ہزار سے زائد خطوط بھیجے گئے، ان میں سے کسی کو بھی درخواست کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔
مقتول صحافی کی پہلی بیوی کے وکیل سعد عمر بٹر نے عدالت میں ارشد شریف کے اہلخانہ کی جانب سے جے آئی ٹی تحقیقاتی رپورٹ دیکھنے کی اجازت دینے کی استدعا بھی کی جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو عدالت آپ کے ساتھ ہے، تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ حتمی چالان جمع ہو تو ہی اس کے ساتھ منسلک دستاویزات کو دیکھا جا سکتا ہے اور انہوں نے کہا کہ وہ کچھ باتیں کہنا نہیں چاہتے البتہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ دی گئی تھی جو پبلک ہو گئی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کینیا حکومت کیساتھ قانونی معاونت کا معاہدہ ہو گیا ہے اور کینیا حکومت کو کرائم سین کا وزٹ کرنے کی درخواست بھجوا دی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ کینیا پاکستان کا دوست ملک ہے ناراض نہیں کر سکتے، اقوام متحدہ میں کینیا پاکستان کو سپورٹ کرتا ہے، ہم لڑ نہیں سکتے۔
دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کینیا حکومت کی اب تک کی تحقیقات میں کیا ہوا؟ جس پر وکیل اہلیہ ارشد شریف نے بتایا کہ کینیا ہائی کورٹ نے اپنے پولیس اہلکاروں کو ملزم قرار دیا ہے لیکن ہائی کورٹ کے آرڈر کے بعد بھی کینیا میں قتل کے ملزمان کی پراسیکیوشن شروع نہیں ہوئی اور کینیا کی حکومت نے ذمہ دار پولیس افسران کو پروموٹ کر دیا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بلا شبہ ارشد شریف کی فیملی کا کرب الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا اور سب چاہتے ہیں کہ قتل کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے، کرائم سین پاکستان سے باہر ہے اور حکومت پاکستان عالمی قوانین کی پابند ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ قتل کا کرائم سین پاکستان ہوتا تو ابتک معاملہ حل ہو چکا ہوتا۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ابتک سینتالیس اجلاس ہوئے ہیں اور 74 لوگوں کے تحقیقاتی ٹیم نے بیان قلمبند کیے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ارشد شریف کے قتل کو تین سال ہو گئے ہیں اور اگر کارروائی چلتی تو شاید ازخود نوٹس نہ لینا پڑتا، انہوں نے پوچھا کہ اس کیس میں ملزمان کون کون ہیں اور کیا پاکستان میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔
وکیل اہلیہ نے کہا کہ تین سال ہوگئے ہیں ابھی تک تحقیقات میں کچھ نہیں ہوا، اور وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ریاست پاکستان کینیا کی عدلیہ میں ان کے ساتھ کھڑی ہو۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں کینین ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا اور حکومت نے اقوام متحدہ سے قانونی مدد کا آپشن بھی ایکسرسائز نہیں کیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ اس لیول پر دوست ملک کیخلاف نہیں جا سکتے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے تصدیق کی کہ پاکستان میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے جس میں تین افراد کو نامزد کیا گیا ہے جن میں خرم، وقار، صالح کے نام شامل ہیں لیکن وہ مفرور ہیں اور انٹر پول سے مفرور ملزمان کے ریڈ وارنٹ کیلئے رابطہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم ایل اے سائن ہونے کے بعد تحقیقاتی ٹیم نے کرائم سین کو وزٹ کرنا ہے۔ اس پر وکیل اہلیہ نے کہا کہ حکومت تحقیقات اور ملزمان کو کٹہرے لانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ڈپلومیٹک چینل میں کسی سے لڑ نہیں سکتے اور ڈپلومیٹس کو معلوم ہوتا ہے کہ چینزوں کو چینلائز کرنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر اعظم نے ارشد شریف قتل کے معاملہ پر کینین صدر کیساتھ ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ ارشد شریف کی اہلیہ کے وکیل نے بتایا کہ ان کی جانب سے کچھ افراد کے نام دیے گئے جس پر تحقیقات نہیں ہوئیں۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت سترہ دسمبر تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ارشد شریف کے آئینی عدالت تحقیقات میں نے بتایا کہ وکیل اہلیہ کی تحقیقات انہوں نے کہ کینیا عدالت نے پیش رفت کے ساتھ نہیں ہو قتل کے کیا کہ ہے اور کے بعد
پڑھیں:
آئینی عدالت میں صدر، وزیراعظم، آرمی چیف کیخلاف آرٹیکل 6 کی پٹیشن دائر
اسلام آباد (نیوزڈیسک) آئینی عدالت میں صدر، وزیراعظم، آرمی چیف کیخلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کیلئے درخواست دائر کردی گئی، وفاقی آئینی عدالت نے درخواست موصول ہونے کی تصدیق کر دی۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی آئینی عدالت میں صدرِ مملکت، وزیراعظم، آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کے لیے درخواست دائر کر دی گئی ہے، شعیب گھمن نامی وکیل کی جانب سے جمع کرائی جانے والی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر، وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ، وزیرِ دفاع اور وزیرِ قانون نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔
درخواست گزار کاکہنا ہے کہ کسی بھی سرکاری عہدیدار کو استثنیٰ دینا اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے، 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی سلب کی گئی اور یہ اقدام آئین سے انحراف کے مترادف ہے جو آرٹیکل 6 کے تحت قابلِ سزا ہے، مذکورہ بالا افراد نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے اقدامات کیے جو سنگین غداری کے زمرے میں آتے ہیں لہٰذا ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔
بتایا گیا ہے کہ درخواست گزار نے اپنی پٹیشن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف بھی آئینی کارروائی کی استدعا کی اور درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ عام انتخابات کے عمل اور اس کی شفافیت کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو یہ طے کرے کہ انتخابات شفاف تھے یا نہیں، مزید یہ کہ فیصلے تک سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو نگران وزیراعظم ، جسٹس ریٹائرڈ منصور علی شاہ کو قائم مقام صدرِ پاکستان مقرر کیا جائے۔