چیف جسٹس امین الدین خان کی منظوری کے ذریعے 8سینئر عہدے تخلیق کر دیے گئے
سینئر عدالتی اہلکار کے مطابق عہدوں کو قانونی تقاضوں کی سمجھ بوجھ کے بغیر شامل کیا گیا

ملک میں آئینی تشریح کے لیے حال ہی میں قائم کی گئی اعلیٰ ترین عدالت، وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) نے بظاہر آئین کے آرٹیکل 208کی شق کے تحت کچھ تقرریاں کی ہیں، جن میں بعض ملازمین کو وفاقی حکومت کی اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل (ایس پی پی ایس) پالیسی میں رکھا گیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق ایف سی سی کی جانب سے اس ہفتے کے اوائل میں جاری ایک نوٹیفکیشن (جس کی منظوری چیف جسٹس امین الدین خان نے دی) کے ذریعے 8 سینئر عہدے تخلیق کیے گئے ہیں، جن میں ایک بی ایس -22 کا اور 7 بی ایس-21 کے عہدے ہیں، اور ان سب کو ایس پی پی ایس میں رکھا گیا، ایس پی پی ایس۔I کے تحت تنخواہ کا پیکیج 15 لاکھ سے 20 لاکھ روپے تک ہے ، جو تقریباً ہائی کورٹ کے جج کی تنخواہ کے برابر ہے ۔تاہم سروس قوانین سے واقف سینئر وفاقی حکام کا کہنا ہے کہ ایف سی سی انتظامیہ نے تاحال آرٹیکل 208 کے تحت کوئی قواعد وضع نہیں کیے ، لہٰذا مذکورہ آرٹیکل کی شق کے مطابق، وہ صرف سپریم کورٹ کے اُن قواعد پر عمل کر سکتی ہے ، جو سپریم کورٹ کے ملازمین اور افسران کی تقرری سے متعلق ہیں۔ایس پی پی ایس کے اسکیل بعض افسران کو دینا، جب کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے قواعد میں کوئی مماثل شق موجود نہیں، ایف سی سی کے افسران و ملازمین کی ملازمت کی شرائط و ضوابط کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا سکتا ہے ۔اس وقت سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والوں کے لیے 4 قسم کے پے پیکیج موجود ہیں۔ان میں بیسک پے اسکیل شامل ہے ، جو تمام سرکاری شعبے پر لاگو ہوتا ہے ، جس میں پروجیکٹ پے اسکیل، جو حکومتی منصوبوں پر کام کرنے والے افراد کی تنخواہوں پر لاگو ہوتا ہے ، مینجمنٹ پے اسکیل (ایم پی اسکیل)، جو انتہائی تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کے لیے ہے ، اور ایس پی پی ایس، جسے نجی شعبے کے ماہرین کو راغب کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔ایف سی سی کے نوٹیفکیشن (جو آئین کے آرٹیکل 208 کے تحت جاری ہوا) کے مطابق عدالت نے انتظامی عہدے تخلیق کیے ہیں۔ان عہدوں میں رجسٹرار (ایس پی پی ایس۔I/بی ایس-22)، ایک عہدہ، سیکریٹری ٹو دی چیف جسٹس (ایس پی پی ایس/بی ایس-21)، ایک عہدہ ایڈیشنل رجسٹرار (ایس پی پی ایس/بی ایس-21) 6 چھ عہدے ڈپٹی رجسٹرار (بی ایس-20)، 6 عہدے اسسٹنٹ رجسٹرار (بی ایس-19)، 10 عہدے سینئرپرائیویٹ سیکریٹریز (بی ایس-20)، 5 عہدے ، ریسرچ اینڈ ریفرنس آفیسرز (بی ایس-1920) کے 6 عہدے اور بی ایس-16 سے بی ایس-2 تک کے مختلف عہدے ، جن میں سینئر اسسٹنٹس، کلرکس، ڈرائیورز، دفتر ی، قاصد اور صفائی ستھرائی کا عملہ شامل ہیں۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اخراجات مالی سال 2025-26 کے لیے ایف سی سی کے مختص بجٹ سے پورے کیے جائیں گے ۔عدالت کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق ایس پی پی ایس پے اسکیلز کو قانونی تقاضوں کی مکمل سمجھ بوجھ کے بغیر نوٹیفکیشن میں شامل کیا گیا، اور اب اس پر نظرثانی زیر غور ہے ۔27ویں آئینی ترمیم (جس کے تحت ایف سی سی قائم کی گئی) نے آرٹیکل 208 میں ترمیم کرکے واضح کیا کہ جب تک عدالت اپنے قواعد وضع نہیں کرتی، سپریم کورٹ کے افسران و ملازمین سے متعلق قواعد اسی طرح ایف سی سی پر لاگو ہوں گے ۔شق میں تحریر ہے کہ ’جب تک اس حوالے سے قواعد وضع نہیں کیے جاتے ، سپریم کورٹ کے افسران و ملازمین کی تقرری اور ان کی ملازمت کی شرائط و ضوابط سے متعلق قواعد وفاقی آئینی عدالت کے افسران و ملازمین پر بھی اسی طرح لاگو ہوں گے ۔سپریم کورٹ کے ایک سینئر اہلکار نے تصدیق کی کہ عدالت کے قواعد میں ایس پی پی ایس تقرریوں کے لیے کوئی شق موجود نہیں اور نہ ہی ایسے ہائی سلیری کنٹریکچوئل ماہرین کی بھرتی کے ڈھانچے کی اجازت ہے ۔ایس پی پی ایس فریم ورک کی تفصیل اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے 9 اپریل 2024 کے دفتر نامے میں دی گئی ہے ، ایسے عہدوں کی تخلیق و تقرری کے لیے سخت شرائط عائد کرتا ہے ۔ان میں شامل ہے کہ ایس پی پی ایس کی آسامیوں کا تعلق عام سرکاری بیوروکریسی کے بجائے تکنیکی ماہرین سے ہوتا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ یہ ایسے ’بہت زیادہ مہارت رکھنے والے تکنیکی ماہرین‘ کے لیے ہیں جو مخصوص تکنیکی شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق اسے رجسٹرار، سیکریٹریز، ایڈیشنل رجسٹرارز یا معمول کے عدالتی انتظامی افسران کی تقرری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ یہ باقاعدہ سروس رولز کے تحت آتے ہیں۔ایس پی پی ایس پالیسی کے مطابق، کسی بھی عہدے کی تخلیق سے قبل متعلقہ ڈویژن کو یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ موجودہ منظور شدہ اسٹاف میں مطلوبہ مہارت موجود نہیں, تفصیلی ٹی او آرز، جاب ڈسکرپشن، اسپیسیفکیشنز، ڈیلیوریبلز اور ٹائم لائنز تیار کی جائیں, اور یہ بھی ثابت کیا جائے کہ تکنیکی ماہرین کی بھرتی مینجمنٹ یا عمومی سروس اسکیل کے بجائے ایس پی پی ایس میں کیوں ضروری ہے ۔نوٹیفکیشن میں ایسے کسی ضرورت کے تعین کا ذکر موجود نہیں۔ایس پی پی ایس کی بھرتی مسابقتی اور وسیع پیمانے پر اشتہار کے ذریعے ہوتی ہے ۔پالیسی کے مطابق قومی سطح پر آسامیوں کا اشتہار، اندرونی کمیٹی کے ذریعے جانچ پڑتال، خصوصی سلیکشن بورڈ کے ذریعے انتخاب، جس میں وزارتوں کے افسران اور بیرونی ماہرین شامل ہوتے ہیں، اور متعلقہ وزیر یا سیکریٹری کی منظوری لازمی ہے ۔یہ تمام مراحل لازم ہیں، مگر ایف سی سی کے نوٹیفکیشن نے محض ایس پی پی ایس عہدے تخلیق کیے ، بھرتی کا کوئی عمل شروع نہیں کیا۔ایس پی پی ایس کی تقرریاں کنٹریکٹ پر مبنی ہوتی ہیں، مستقل نہیں، پالیسی میں کہا گیا، اس میں مزید کہا گیا کہ ایس پی پی ایس صرف 2 سالہ کنٹریکٹ کے لیے ہوتا ہے ، جس میں توسیع صرف کارکردگی کی بنیاد پر ممکن ہے ۔ایف سی سی نوٹیفکیشن نے ان آسامیوں کو مستقل انتظامی عہدے کے طور پر تخلیق کیا ہے ، جو ایس پی پی ایس ڈھانچے کے خلاف ہے ۔ایف سی سی کے رجسٹرار محمد حفیظ اللہ خان کے مطابق ایس پی پی ایس پیکیجز ’قانون کے مطابق‘ ہیں۔ان کا مؤقف تھا کہ آرٹیکل 208 ایف سی سی کو اپنے انتظامی ڈھانچے کا تعین کرنے کا اختیار دیتا ہے ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کے افسران و ملازمین سپریم کورٹ کے ایس پی پی ایس ایف سی سی کے موجود نہیں عہدے تخلیق کی منظوری آرٹیکل 208 کی تقرری کے ذریعے پے اسکیل کے مطابق ہوتا ہے بی ایس کے لیے کے تحت

پڑھیں:

پارلیمنٹ  سپیر ئیر  ، کوئی  عدالت  ‘ حج ادارہ  فیصلے  میںمداخلت  نہیں  کرسکتا : بلاول  

لاہور+ اسلام آباد+ راولپنڈی+ کراچی+ مظفرآباد (نامہ نگاران+ سٹاف رپورٹر+ کامرس رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے ساتھ کھیلنے والے آگ کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی ایسے کسی فیصلے میں ساتھ نہیں دے گی جس سے وفاق کمزور ہو۔ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر ویڈیو لنک سے خطاب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ڈیجیٹل جلسے سے خطاب کر رہا ہوں۔ ہمارا معاشی فلسفہ ہے کہ پسماندہ طبقے کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہے۔ بھارت سے جنگ کے بعد یہ ہمارا پہلا یوم تاسیس ہے۔ بھارت کے سات جہاز گرا کر ہماری ائیر فورس نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کردیا۔ ملک میں اس وقت سیاسی بحران ہے، اس کو ایڈریس کرکے مشکلات سے نکالنا ہے۔ پیپلزپارٹی نے حال ہی میں حکومت کے ساتھ مل کر ایک آئینی ترمیم پاس کرائی۔ پیپلزپارٹی جب خود آئینی ترمیم لے کر آتی ہے تو انقلابی قانون سازی کرتے ہیں۔ 1973 کے آئین کے بعدکسی ترمیم میں کوئی طاقت ہے تو وہ 18ویں ترمیم میں ہے۔ حکومت چاہتی تھی کہ آئینی عدالت اور آرٹیکل 243 کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو مجسٹریسی کا نظام لے کر آئے۔ حکومت چاہتی تھی کہ جو آئینی تحفظ ہم نے صوبوں کو دلوایا تھا اس کو ختم کیا جائے۔ فخر سے کہہ سکتا ہوں آپ کی وجہ سے اس آئینی تحفظ کو چھیڑا نہیں گیا۔ حکومت اس مطالبے سے پیچھے ہٹی، ہم نے آئینی عدالت بنا کر چارٹر آف ڈیموکریسی کی شق پوری کردی اور صوبوں کو برابری کی نمائندگی دلوا دی، یہ تاریخی کامیابی ہے، شاید کسی کو اس کا احساس نہ ہو۔ عدالت نے قائد عوام کا عدالتی قتل کروایا۔ ہماری عدالت کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آئینی عدالت ملک کے بڑے مسئلے کو دیکھے گی۔ آئینی عدالت سے عام شہریوں کے ایشوز کو فوری طور پر ریلیف ملے گا۔ ماضی میں عدالتوں پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔ کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ آئینی عدالت کو متنازعہ بنائیں۔ امید ہے آئینی عدالت اپنے کردار سے ان لوگوں کو غلط ثابت کردے گی۔ قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہے۔ اگر کوئی کام اتفاق رائے سے کیا گیا ہو تو نظر ثانی کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہے۔ ہم اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی اور ادارہ پارلیمان کے دائرے میں مداخلت کرے۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ دوسرے ادارے نے پارلیمان کے دائرے میں آکر مداخلت کی۔ عوام کا فیصلہ ہے کہ ہمارے فیصلے صحیح ہیں یا نہیں، عدالت کا اختیار نہیں، آئین سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔ کارکن کسی پراپیگنڈے پر توجہ نہ دیں۔ ہم نے آئینی عدالتیں بنائی ہیں۔ آپ کے حقوق کا تحفظ کرتا آرہا ہوں، کرتا رہوں گا۔ بھارت کے وزیر نے  سندھ سے متعلق غلط بات کی۔ ملک کے تمام صوے بھائیوں کی طرح ہیں۔ مودی کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ متحد ہوکر دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ملکی سلامتی کے لیے ہم سب کو متحد ہونا ہوگا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 18ویں ترمیم کے ساتھ کھیلنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ 18 ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر تنقید کرنے والوں کو اندازہ نہیں کہ ہم نے کیسے اس ایک قوم سے ملک بھر میں جو علیحدگی پرست سیاست کو دفن کر دیا تھا۔ آپس کے سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں۔ جب ملک کی سلامتی کی بات آئے تو مل کر مقابلہ کرنا ہے۔ دشمن آج بھی ملک میں دہشتگردی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سازشی طریقے اپنا رہے ہیں تاکہ پاکستان کوغیر مستحکم کیا جائے۔ آئین سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔ پارلیمنٹ سپیریئر ہے۔ کوئی عدالت، کوئی جج، کوئی بھی دوسرا ادارہ پارلیمنٹ کے کسی بھی فیصلے میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ عوام فیصلے کریں گے کہ ہمارے فیصلے صحیح ہیں یا نہیں۔ یہ کسی عدالت کا اختیار نہیں۔ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ پاکستان کے اندر جو فالٹ لائنز ہیں ان کو درست کیا جائے۔ ملک کی معیشت میں تمام صوبوں، علاقوں اور ضلعوں کا حصہ ہے۔ ہماری افواج نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ امید ہے تمام صوبے زرعی شعبے کو مضبوط بنانے کے لئے اقدامات کریں گے۔ تقریبات میں کیک کاٹے گئے۔ کارکنوں نے نعرے بازی کی اور شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جماعت کے 58 ویں یوم تاسیس پر عوام کے حقوق کے تحفظ، وفاق کی مضبوطی اور ملکی سلامتی کے لئے اپنا بھرپور کردار نبھاتے رہنے کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایسے کسی حکومتی اقدام کا ساتھ نہیں دیں گے، جو وفاق کو کمزور کرنے اور صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ کے مترادف ہو۔ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان آپس میں بھائیوں کی طرح ہیں۔ "ہم سب مل کر مودی کا مقابلہ کرسکتے ہیں"۔ انہوں نے  ملک بھر کے 100 سے زائد شہروں میں  بیک وقت منعقد تقریبات کو میڈیا سیل بلاول ہائوس سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا۔ اس موقع پر خاتون اول بی بی آصفہ بھٹو زرداری بھی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ سٹیج پر موجود تھیں جبکہ ڈیجیٹل جلسہ عام کی نظامت کی ذمہ داری پی پی پی سندھ کے جنرل سیکرٹری سینیٹر وقار مہدی نے نبھائی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا قائد عوام نے ملک کو جمہوریت، 1973ء کا متفقہ آئین اور پسماندہ طبقات کو معاشی طور مضبوط کرنے کا فلسفہ دیا۔ قائد عوام کے عدالتی قتل کے بعد شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے آئین و جمہوریت  کی بحالی اور  اپنی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے 30 سال جدوجہد کرتے ہوئے دو آمروں کا مقابلہ کیا۔ پیپلز پارٹی نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کے پرچم کو سربلند رکھا۔ صدر آصف علی زرداری نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا پرچم تھام کر 18 ویں ترمیم کی شکل میں قائد عوام کے آئین کو بحال کرایا اور 'روٹی، کپڑا اور مکان' کے فلسفے کی روشنی میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے انقلابی پروگرام کا آغاز کیا۔ جس سے ملک بھر کی غریب خواتین کی مالی معاونت ممکن ہوئی۔ حالیہ پاکستان بھارت جنگ میں پاکستان کی فتح پر افواج پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ  مسلح افواج نے بھارت کے 7 جنگی جہاز گرا کر پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کردیا۔ خیبر پی کے اور بلوچستان میں دہشتگردی کے ذریعے دشمن پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔ ایک جانب بھارت پاکستان کی سرحد پر میلی آنکھ سے دیکھ رہا ہے، تو دوسری جانب افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں تلخیاں بڑھ رہی ہیں۔ حالیہ 27 ویں آئینی ترمیم پر بات کرتے ہوئے کہا آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ تھا، جس پر اٹھارویں  ترمیم  میں عملدرآمد نہیں ہوسکا تھا۔27 ویں ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت کا قیام اور اس میں تمام صوبوں کو برابر نمائندگی دی گئی ہے، جو پیپلز پارٹی کی بڑی کامیابی ہے۔ آئینی عدالت کے ججز پر اب بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کا عدلیہ کے متعلق اعتماد بحال رکھیں۔ جو سیاسی عناصر پارلیمانی اقدام  کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کے لئے میرا پیغام ہے کہ آئین سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔ یہ کسی جج یا عدلیہ کا اختیار نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سی ترمیم ہوسکتی ہے اور کون سی نہیں۔ یہ اْن کا اختیار نہیں ہے اور نہ ہم انہیں ایسی اجازت دیں گے۔ تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صوبے مضبوط ہوں گے تو وفاق مضبوط ہوگا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے زور دیا کہ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاستی عملداری قائم کرنے کے ساتھ  ساتھ "پرو ایکٹو سافٹ پاور" کا استعمال کرنا ہوگا۔ اس جنگ میں دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے کے لئے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک براہ راست خطاب کرتے کہا ہماری افواج نے بھارت کو عبرتناک شکست دی ہے۔ بھارت آج بھی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے۔ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ افغانستان بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ میثاق جمہوریت کے ذرہعے ہی ہم نے عدالتی ریفارمز کی۔  یہی بینظیر بھٹو کا بھی مطالبہ تھا اور ہم نے ملک میں آئینی عدالت کو قائم کرکے میثاق جمہوریت کو مکمل کر دیا اور اس کے ساتھ ہی صوبوں کو بھی برابری کا احساس ہوا۔ قائد عوام کے عدالتی قتل سے لیکر بینظیر بھٹو کی حکومت ہٹانے یا میاں نواز کی حکومت ہٹانے کی بات ہو یا مشرف کو عدالتی تحفظ کی بات ہو تو اب ہم امید کرتے ہیں کہ اب آئینی عدالت ان تمام مسائل کو دیکھے گی اور اس آئینی عدالت سے پاکستان کے عوام کو بھی فوری انصاف مہیا کرنے میں مدد ملے گی اور لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہو سکے گا۔ عدالتوں کا کام ڈیم بنانا، گھر گرانا، سموسوں کی قیمتوں کا تعین کرنا نہیں ہے، نہ وہ کسی منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج سکتے ہیں، اب کچھ لوگ اس آئینی عدالت کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں لیکن ہمارا پارلیمان کا یہ کام ہے کہ ہم اتفاق رائے سے سارے مسائل کو حل کریں‘ اور کسی ادارے کو یہ اختیار ہم نہیں دیں گے کہ کوئی بھی دوسرا ادارہ اس آئینی عدالت میں مداخلت کرے۔ جو لوگ اس وقت آئینی ترامیم سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سمجھ لیں کہ ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے‘ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کریں تو ہم بہتر طور پر ترقی حاصل کر سکتے ہیں‘ صوبوں نے وفاق سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے تو صوبوں کی خودمختاری کو کیوں چھیڑا جا رہا ہے۔  بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وفاق کو ایسا تاثر دینا ہو گا کہ وہ کسی صوبے کے حق پر ڈاکہ نہیں مار رہے تاکہ صوبے مزید کوشش کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ ادھر پیپلز پارٹی کی ڈسٹرکٹ اور سٹی تنظیموں کے زیراہتمام پاکستان پیپلز پارٹی کے 58 ویں یوم تاسیس کی مرکزی تقریب ڈسٹرکٹ بار کونسل قائداعظم ہال فیصل آباد میں ہوئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کارکنوں سے آن لائن خطاب کیا۔ تقریب میں رانا فاروق سعید‘ سید عنایت علی شاہ‘ اعجاز چودھری‘ رانا نعیم دستگیر‘ محمد طاہر شیخ و دیگر پارٹی ونگز کے عہدیداران شریک ہوئے۔ 

متعلقہ مضامین

  • پارلیمنٹ  سپیر ئیر  ، کوئی  عدالت  ‘ حج ادارہ  فیصلے  میںمداخلت  نہیں  کرسکتا : بلاول  
  • 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کیساتھ کھیلنے والے آگ سے کھیل رہے ہیں‘ بلاول
  • قواعد نہ ہونے کے باوجود آئینی عدالت میں اعلی ترین تعیناتیوں کی منظوری، 8 سینئر عہدے تخلیق کر دیے گئے
  • آئی جی اسلام آباد نے 20ہیڈ کنسٹیبلز کو اے ایس آئی کے عہدوں پر ترقی کی منظوری دیدی
  • وفاقی آئینی عدالت  میں  ارشد شریف قتل کیس سماعت کیلئے مقرر 
  • ارشد شریف قتل کیس وفاقی آئینی عدالت میںسماعت کیلیے مقرر
  • ارشد شریف قتل کیس وفاقی آئینی عدالت میں سماعت کیلئے مقرر
  • وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور اہم شرط پوری کر دی
  • آئینی ججز کی تقرری کے خلاف نوٹس پر سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ محفوظ