صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت مختلف اسپتالوں میں سہولتیں ناپید ، مریض رل گئے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے ضلعی اسپتال مختلف مسائل اور نامکمل طبی سہولتوں کا شکار ہیں، 70 سال گزرنے کے باوجود سندھ میں پرائمری اور سیکنڈری اسپتالوں کا بنیادی ڈھانچہ بھی مکمل نہیں کیا جاسکا اور کراچی کی ضلعی اسپتالوں میں مختلف حادثات میں رپورٹ ہونے والے زخمیوں کے علاج کے لیے ٹراما سینٹر بھی نہیں بنائے جاسکے۔سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اور سعود آباد اسپتال میں ٹراما سینٹر بنائے جانے تھے لیکن آج تک ان دونوں اسپتالوں میں ٹراما سینٹر نہیں بنایا جاسکا۔ کراچی کے ضلعی اسپتالوں سیکڑوں اسامیاں آج بھی خالی پڑی ہیں۔ نصف صدی سے زائد گزرنے کے باوجود بھی ضلعی اسپتالوں میں بہتری نہیں لائی جاسکی۔2000 میں سندھ کے سابقہ نگراں وزیر صحت پروفیسر ایس ایم رب نے کراچی کے 4 ضلعی اسپتالوں کو ڈا میڈیکل کالج سے الحاق کرکے ان ضلعی اسپتالوں کو ٹیچنگ اسپتالوں کا درجہ دینے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس نوٹیفکیشن پر آج تک عمل درآمد نہیں کیا جاسکا، جس میں کہا گیا تھا کہ ڈا میڈیکل کالج کی فیکلٹی ضلعی اسپتالوں میں جاکر مریضوں کو طبی سروس فراہم کرے گی۔ان ضلعی اسپتالوں کو ٹیچنگ اسپتالوں کا درجہ دینے سے سینئر پروفیسر حضرات کی مریضوں کو طبی سروسز میسر آتی لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا جس کی وجہ سے آج بھی ان ضلعی اسپتالوں میں معمولی روٹین ٹیسٹ اور ابتدائی علاج کیا جارہا ہے جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے انہیں ادویات کا سالانہ بجٹ بھی فراہم کیا جاتا ہے لیکن ان ضلعی اسپتالوں میں ایم آر آئی۔ سی ٹی اسکین، پیڈ سی ٹی، کلر ڈوپلر سمیت مختلف پروسیجر ٹیسٹوں کی سہولتیں ناپید ہیں، یہی وجہ ہے کہ مریض اپنے مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے سول اور جناح کا رخ کرتے ہیں جہاں پہلے ہی سے صوبے بھر کے مریضوں کا دبا موجود ہوتا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سول اسپتال کی او پی ڈی میں یومیہ 5 سے 6 ہزار مریض جبکہ جناح اسپتال میں بھی مریضوں کی یہی تعداد یومیہ اپنے چیک اپ اور مرض کی تشخیص کے لیے رپورٹ ہوتی ہے۔اس وقت کراچی میں ضلعی اسپتالوں میں سندھ گورنمنٹ نیوکراچی اسپتال، سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال، سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ ابراھیم حیدری اسپتال شامل ہیں جبکہ کراچی کے دیگر ضلعوں میں قائم صحت کے مراکز و میٹرنٹی ہومز اور کراچی کے دیہی علاقوں میں قائم صحت کے مراکز میں یہ تمام سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ان ضلعی اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکزوں میں یہ کمی نہ صرف مریضوں کی بروقت تشخیص میں رکاوٹ بن رہی ہے بلکہ بڑے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے شدید دبائو کا سبب بنتی ہے۔ ان ضلعی اسپتالوں میں ریڈیولوجی کی مناسب سہولیات کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ ٹیکنیشن کی سہولت بھی ناپید ہے۔نیو کراچی کے رہائشی محمد اسلم نے بتایا کہ وہ سندھ گورنمنٹ نیوکراچی اسپتال اپنے ریڑھ کی ہڈی کے تکلیف کا چیک اپ کرانے گیا۔ وہاں موجود ڈاکٹر نے معائنے کے بعد ایم آر آئی تجویز گیا لیکن اسپتال میں ایم آر آئی کی سہولت میسر نہیں تھی۔نجی ادارے سے ایم آر آئی کے لیے رجوع کیا جس کی قیمت 20 ہزار روپے بتائی گئی، جناح اسپتال میں جب ایم آر آئی کرانے پہنچا تو اسپتال انتظامیہ نے مجھے ایک ماہ بعد کی تاریخ دی۔ کمر کے تکلیف شدت اختیار کررہی تھی جس کے بعد میں نے ادھار پیسے لے کر اپنا ایم آر آئی کرایا تو معلوم ہوا کہ کمر کے مہروں کی وجہ سے ٹانگوں میں آنے والی خون کی شریانوں پر شدید دبا ہے جس کی وجہ سے میری ٹانگیں سن رہتی ہیں اور کمر میں درد رہتا ہے۔محمد اسلم نے بتایا کہ کراچی کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں اسپائنل کارڈ کی سرجری نہیں ہوتی کیونکہ ان اسپتالوں میں اسپائنل کارڈ کے سرجن موجود نہیں۔ملیر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون عالیہ نے بتایا کہ میری بڑی بہن کو یوٹیرس کینسر کا مرض لاحق ہے جس کی وجہ سے میں اسے سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال ملیر لے کر گئی، لیڈی ڈاکٹر کے معائنے کے بعد ایم آر آئی کرانے کی ہدایت کی۔ کورنگی اسپتال میں ایم آر آئی کی سہولت موجود نہیں تھی جبکہ انہوں نے کینسر کی تشخیص کے لیے بائیپوسی ٹیسٹ کا بھی کہا تھا، اسپتال میں بائیپوسی کی بھی سہولت موجود نہیں تھی، نجی اسپتال سے معلوم کیا تو اس مرض کی تشخیص ہماری دسترس سے باہر تھی۔ مجبورا مخیر ادارے سے رابطہ کیا جس پر انہوں نے میری بہن کے طبی ٹیسٹ کرائے۔عالیہ نے بتایا کہ جب حکومت سندھ غریبوں کے علاج کے نام پر ان اسپتالوں کو کڑوروں روپے کا بجٹ فراہم کرتی ہے لیکن سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اسپتالوں کا کیا فائدہ جہاں پر غریب مریضوں کا علاج ہی نہ ہوسکے۔سندھ گورنمنٹ سعودآباد ملیراسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر آغا عامر کے مطابق اسپتال میں 180 بستر موجود ہیں، 16 کروڑ سے زائد روپے ادویات کا بجٹ ہے۔ اسپتال میں ایم آئی آئی او سی ٹی اسکین کی کوئی سہولت نہیں کیونکہ یہ سیکنڈری اسپتال ہے۔انہوں نے کہا کہ سعود آباد اسپتال میں ٹراما سینٹر اور سائیکٹری یونٹ بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ 4 سال پہلے ٹراما سینٹر چلانے کے لیے کروڑوں روپے مالیت کی مشینری اور دیگر سامان بھی خریدا گیا تھا جو ابھی تک استعمال نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ ضلع ملیر کی آبادی 24 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایم آئی آئی او سی ٹی اسکین مریضوں کو جناح یا سول اسپتال ریفر کیا جاتا ہے۔سندھ گورنمنٹ نیوکراچی اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر علی مرتضی نے بتایا کہ اسپتال میں مریضوں کے لیے 200 بستر مختص ہیں لیکن اسپتال کی سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ محکمہ صحت اسپتال ادویات کی مد میں 12 کروڑ روپے سے زائد اسپتال کو فراہم کرتا ہے، اسپتال میں آنے والے مریضوں کی ہر مکمن سہولت فراہم کی جاتی ہے جبکہ پیچیدہ امراض کے مریضوں اور سول اور جناح اسپتال ریفر کیا جاتا ہے۔سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر عتیق قریشی نے بتایا کہ اسپتال کی سی ٹی اسکین مشین گزشتہ 5 سال سے خراب ہے۔ اس حوالے سے محکمہ صحت کو متعد بار آگاہ کیا گیا لیکن ابھی تک سی ٹی اسکین مشین خراب ہے۔انہوں نے کہا کہ 2023 میں نگراں وزیر اعلی سندھ مقبول باقر نے اسپتال کو دورہ کیا تھا۔ انہوں نے بھی سی ٹی اسکین مشین کے حوالے سے معلومات حاصل کی تھی۔ ان کو بتایا گیا کہ مشین خراب پڑی ہے جس پر انہوں نے مشین کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا۔ڈاکٹر عتیق نے بتایا کہ سابق وزیر شعیب بخاری نے 2004 میں لیاقت آباد اسپتال میں ایڈوانس ایمرجنسی ٹراما سینٹر کی عمارت کا افتتاح کیا تھا لیکن اس سینٹر کو چلانے کے لیے SNE منظور نہیں کی جاسکی تھی اور آج بھی اس کی SNE منظور نہیں کی جاسکی۔ ایڈوانس ایمرجنسی ٹراما سینٹر کو چلانے کے لیے ماہرین کا اسٹاف درکار ہوتا ہے جو ہمیں محکمہ صحت سے نہیں ملا جس کی وجہ سے ٹراما سینٹر کی عمارت میں پرامیڈک اور نرسنگ اسکول قائم ہوگئے جبکہ لیاقت آباد اسپتال میں ٹراما سینٹر کی شدید ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ لیاقت اسپتال 200 بستروں پر موجود ہے اور ہمیں ادویات کی مد میں سالانہ ساڑے 6 کروڑ روپے فراہم کیے جاتے ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔واضح رہے کہ سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال میں سی ٹی اسکین مشین مہینے میں 20 دن خراب رہتی ہے جس کی وجہ سے کورنگی کی مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک مریض جاوید نے بتایا کہ سی ٹی اسکین کرنے کی ضرورت پڑی جب کورنگی اسپتال گیا تو معلوم چلا کہ مشین خراب ہے، ایک ہفتے بعد دوبارہ اسپتال پہنچا تب بھی مشین خراب تھی۔ بعدازاں سی ٹی اسکین کرانے جناح اسپتال گیا تو ایک ماہ بعد کی تاریخ ملی۔جاوید نے محکمہ صحت سے مطالبہ کیا کہ ضلعی اسپتالوں سی ٹی اسکین مشین کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ضلعی اسپتالوں میں لیاقت آباد اسپتال ان ضلعی اسپتالوں سی ٹی اسکین مشین آباد اسپتال میں انہوں نے کہا کہ کورنگی اسپتال سندھ گورنمنٹ اسپتالوں کا اسپتالوں کو جناح اسپتال جس کی وجہ سے نے بتایا کہ موجود نہیں ایم آر آئی مریضوں کو کی سہولت کی تشخیص کراچی کے نہیں کی میں ایم صحت کے کے لیے
پڑھیں:
این ایف سی میں خیبرپختونخوا کا حصہ لینے کیلئے صوبائی حکومت اور اپوزیشن متحد ہوگئیں
پشاور:قومی مالیاتی کمیشن کے تحت خیبرپختونخوا کا حصہ بڑھانے اور بقایاجات کے حصول کے لیے تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوگئی ہیں، چار دسمبر کو ہونے والے این ایف سی کے اجلاس میں صوبہ کا موقف پیش کرنے کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے لیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، حکومت کا موقف ہے کہ وہ این ایف سی اجلاس میں صوبے کا حصہ 14.6 سے بڑھا کر 19.4 کرنے کا مطالبہ کریں گے ہم کوئی خیرات، بھیگ نہیں مانگ رہے ہم آئین و قانون کے تحت اپنا حق مانگ رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس اسپیکر بابر سلیم سواتی کی صدارت میں شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے احمد کنڈی نے تجویز پیش کی کہ چار دسمبر قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس ہونے جارہا ہے، معمول کی کارروائی روک پر اس پر بحث کی اجازت دی جائے جس پر اجلاس میں معمول کی کارروائی روک کر این ایف سی بحث کرائی گئی۔
حکومتی ارکان عبدالکریم خان، منیر حسین لغمانی، داؤد شاہ، معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این ایف سی کے تحت خیبرپختونخوا حکومت کا جو حق بنتا ہے وفاق وہ حق نہیں دے رہا، قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا کی شرح بڑھ چکی ہے، پہلے یہ شرح 14.4 فیصد تھی اب یہ شرح بڑھ کر 19 فیصد تک بڑھ چکی ہے، بجلی کے خالص منافع پانی کے استعمال پر بھی ہمارا حق نہیں دیا جارہا، یہ صرف تحریک انصاف کا نہیں خیبرپختونخوا کا ایشو ہے اس پر تمام سیاسی جماعتوں کو بھی آواز اٹھانی چاہیے۔
حکومتی ارکان نے کہا کہ آئین کے مطابق ہر پانچ سال بعد این ایف سی تشکیل دینا ہوتا ہے لیکن نئے این ایف سی کی تشکیل میں تاخیر کی جاتی رہتی ہے، قبائلی علاقوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے جب قبائلی علاقے شامل ہوئے تو ایک فیصد دہشت گردی کے خلاف شیئر دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وہ بھی نہیں دیا جارہا، این ایف سی کے مسئلے کو سیاسی بنادیا گیا ہے یہ آئینی مسئلہ ہے اور سیاست سے بالاتر ہوکر ہم نے صوبے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔
اپوزیشن ارکان ارباب عثمان، نثار باز خان، سردار شاہجہاں، احمد کنڈی، اشبر خان جدون، آمنہ سردار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے تمام اپوزیشن حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں، تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں تیسری حکومت ہے لیکن صوبے کے کیس کو وفاق کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، جب صوبے کے حقوق کی بات آتی ہے تو صوبائی کابینہ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے، صوبائی حکومت این ایف سی کے تحت صوبے کے حق تو بات کرتی ہے لیکن پی ایف سی کے تحت اضلاع کو حق نہیں دے رہی، بلدیاتی نمائندے بے اختیار ہیں، مقامی حکومتیں صرف نام کی ہیں، نعرے لگانے سے حق نہیں ملے گا بیٹھ کر بات کرنا ہوگی وفاق کے خلاف محاز آرائی سے حقوق نہیں ملنے والے وزیراعلی اپوزیشن کو لیکر جائیں اور این ایف سی اپنا مقدمہ لڑیں۔
صوبائی وزیر مینا خان نے حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا نے این ایف سی کے اوپر خیبرپختونخوا کے مقدمے کو مؤثر طریقے سے پیش کیا، ہمارا این ایف سی میں حصہ 14 اعشاریہ 62 فیصد بنتا ہے، آرٹیکل 107 کے اندر واضح لکھا ہے کہ یہ 4 صوبوں میں تقسیم ہوگا، 1 فیصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے مختص کیا گیا تھا، آج فاٹا خیبرپختونخوا کا حصہ ہے، 90 فیصد شہادتیں خیبرپختونخوا کی عوام کے ساتھ فورسز نے دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 100 ارب روپے ضم اضلاع کے لئے سالانہ وعدہ کیا گیا تھا، 22 سے 25 سو ارب روپے قاضی فارمولے کے تحت بقایا ہے، ضم اضلاع کے اخراجات 130 ارب روپے ہے 80 ارب روپے خیبر پختونخوا حکومت ادا کر رہی ہے، این ایف سی میں حصہ اور دیگر بقایاجات آفر صوبہ کو مل جائے تو صوبہ ترقی کریگا، صوبہ کی عوام کو اس حوالے سے خوشحالی ملے گی اور صوبہ ترقی کرے گا، ہم کسی سے خیرات یا بھیک یا چوری نہیں کر رہے ہیں، یہ سب وسائل ہمارے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے، تمام تجاویز کو شامل کر کے تمام سابق وزراء کو بھی بلائیں گے اور تجاویز لیں گے۔
این ایف سی کے معاملے پر اسپیکر کی زیر صدارت اہم اجلاس
خیبرپختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ میں اسپیکر بابر سلیم سواتی کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں این ایف سی ایوارڈ اور صوبے کے مالی حقوق کے حوالے سے مجموعی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں مختلف جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز، اراکینِ اسمبلی اور محکمہ خزانہ و دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران شرکاء کو این ایف سی ایوارڈ سے متعلق موجودہ پیش رفت، صوبے کو درپیش مالی مشکلات اور وفاقی سطح پر وسائل کی تقسیم سے متعلق اٹھنے والے اعتراضات پر بریفنگ دی گئی۔
شرکاء نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ صوبے کے مالی حقوق، خصوصاً ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی و انتظامی اخراجات سے متعلق اہم معاملات مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں، جس کا براہ راست اثر صوبے کی گورننس، امن و امان اور ترقیاتی عمل پر پڑ رہا ہے۔
اسپیکر بابر سلیم سواتی نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت اور صوبائی اسمبلی صوبے کے عوام کے مالی و آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر یکسو ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے صوبے کے جائز مؤقف کو مضبوطی سے ہر فورم پر پیش کیا جائے گا اور کسی بھی صورت صوبے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔
اجلاس کے اختتام پر اسپیکر نے کہا کہ خیبر پختونخوا اپنی مشکلات اور ضروریات کے تناظر میں ایک مضبوط کیس رکھتا ہے اور صوبائی حکومت اس معاملے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ تمام وسائل بروئے کار لا کر اپنے عوام کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑے گی۔